• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میجر جنرل آصف غفور جب سے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بنے ہیں، ہم جیسے بے خبروں کو گاہے گاہے بتاتے رہتے ہیں کہ فوج کا مورال کیسا ہے اور اسے کس کس چیلنج کا سامنا ہے۔ خود ہمارے سپہ سالار بھی کھلے ذہن کے مالک ہیں اور مختلف مواقع پر اُن کی گفتگو سے اندازہ ہوتا رہتا ہے کہ مسلح افواج اپنی حکومت کے شانہ بہ شانہ سیکورٹی اور اُمورِ خارجہ کی انجام دہی میں کس قدر مصروف ہیں۔ گزشتہ پیر کے روز میجر جنرل آصف غفور نے ایک گھنٹے سے زائد میڈیا بریفنگ دی اور مختلف ایشوز پر کھل کر باتیں کیں۔ اُن کی باتوں میں عزم بھی تھا، ایک سرشاری بھی اور تشویش کے مختلف پہلو بھی جو قوم کو سنجیدہ غور و فکر کے علاوہ ایک مضبوط لائحہ عمل ترتیب دینے کی دعوت دے رہے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ان کی میڈیا بریفنگ میں ایک اپنائیت محسوس ہوئی کہ وہ اپنے ادارے سے زیادہ اپنے وطن کا دکھ اہلِ نظر کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اُن کے اس اعلان سے حقیقی خوشی محسوس ہوئی کہ فوج انتخابات میں ایک روز کی بھی تاخیر نہیں چاہتی اور اسے الیکشن کمیشن کی طرف سے جو ٹاسک سونپا جائے گا، وہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے پوری ذمہ داری سے پورا کرے گی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر مبارک باد پیش کی۔ یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ سارے الزامات غلط ثابت ہوئے جو فوجی قیادت پر لگائے جاتے تھے کہ وہ قومی اسمبلی کی مدت پوری نہیں ہونے دے گی اور سینیٹ کے انتخابات بھی وقت پر نہیں ہوں گے، مگر اب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مدِمقابل کھڑی ہوں گی اور تبدیلی آئے گی۔ ڈائریکٹر جنرل صاحب کی باتوں سے بڑا حوصلہ ملا اور اس سے زیادہ حوصلہ پاکستان کے فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اس فیصلے کو معطل کرنے سے ملا جس میں لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے نامزدگی کا وہ فارم منسوخ کرنے کا حکم دیا جسے پارلیمنٹ نے انتخابات ایکٹ 2017ءمیں منظور کیا ہے۔ نامزدگی فارم تبدیل کرنے سے انتخابات کسی قدر تاخیر کا شکار ہو جاتے۔ اب عدلیہ اور فوج الیکشن کمیشن کی پشت پر کھڑے ہیں اور بروقت اور شفاف انتخابات کی ضمانت دے رہے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے بڑی دردمندی سے کہا کہ فوج کو سیاست اور انتخابات میں نہ گھسیٹا جائے تاکہ اس کی پوری توجہ ملکی سلامتی پر مرکوز رہے۔ یہ الگ بات کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کے ثبوت سامنے آتے رہے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ سال ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کےقائد جناب مصطفیٰ کمال نے اعتراف کیا تھا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے ملایا تھا اور ہمارے مذاکرات کرائے تھے، مگر وہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بعد ’منصوبہ سازوں‘ نے بلوچستان اسمبلی میں نون لیگ سے اقتدار چھین کر اور سینیٹ میں اپنی پسند کے سینیٹرز اور چیئرمین لا کر ایک بساط بچھائی جس کے خلاف پورے ملک میں ردِعمل پیدا ہوا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ان باتوں سے مکمل اجتناب کرنا اور جمہوری عمل کو پوری طرح شفاف بنانا ہو گا۔ اس کیلئے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر خفیہ طریقوں سے سنسر شپ نافذ کرنا ضرر رساں ثابت ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم اپنی فوج سے اس کی شجاعت اور اس کے ایثار کی بدولت بے پایاں محبت کرتی ہے، مگر کچھ عاقبت نااندیش عناصر ناگاہ کوئی ایسا قدم اُٹھا بیٹھتے ہیں جس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ جمہوریت میں ملاوٹ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو یہ اِدراک ہو جانا چاہیے کہ ہمارا ملک اور ہمارے عوام اسی صورت میں ترقی اور خوشحالی کی نئی نئی منزلیں دریافت کر سکتے ہیں جب تمام ریاستی ادارے ایک دوسرے سے تعاون کے جذبے سے سرشار ہوں اور ایک دوسرے کا احترام ان کی سرشت میں شامل ہو۔ اس کے علاوہ قومی طاقت کے جملہ عناصر میں اعتدال کو فروغ دینا اور انہیں ایک مرکز پر لانا ہو گا۔ دراصل پارلیمانی طرزِ  حکومت میں پارلیمان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں، عوام کے منتخب نمائندوں، فوج اور بیوروکریسی کو اس کی مضبوطی میں اپنا حصہ ادا کرنا اور اس کی بالادستی قائم کرنے میں خوش دلی سے تعاون کرنا ہو گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں، وہ بہت ہوشربا اور لرزہ خیز ہیں۔ سوشل میڈیا جو روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے، اس پر مؤثر کنٹرول ضروری ہے۔ بدقسمتی سے اس میں بیرونی طاقتیں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہیں۔ پی ٹی ایم کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ ’دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے‘، اس شرانگیز نعرے کی ہر سطح پر پوری قوت سے مذمت ہونی چاہیے اور پاکستان دشمن عناصر پر کڑی نگاہ رکھنا اور ان کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانا حب الوطنی کا اوّلین تقاضا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے پشتونوں کے جائز مطالبات حل کرنے کے لیے فوجی سطح پر ہر ممکن کوشش کی اور منظور پشتین اور اس کے ساتھی نے مسائل حل ہونے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دراصل فوج کو یہ کام کابینہ سیکورٹی کمیٹی کے ذریعے سرانجام دینا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ نون کو اس حساس معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لینا ہو گا کیونکہ بلوچستان کے جناب محمود خاں اچکزئی غالباً افغانستان کی شہ پر منظور پشتین کا قد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہمیں میجر جنرل آصف غفور کی اس اپیل پر لبیک کہنا چاہیے کہ ہم پاکستان کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان کے مابین سرحد پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے کیونکہ ایک محفوظ سرحد دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اسی طرح پاکستان اور ایران میں تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کو افغانستان میں امن سب سے زیادہ عزیز ہے اور ہم چاہیں گے کہ امریکہ امن قائم کرنے کے بعد فاتحانہ طور پر واپس چلا جائے۔ انہوں نے بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کی خوں رنگ داستان بیان کرنے کے بعد بتایا کہ سینکڑوں شہری شہید ہو گئے ہیں، البتہ حال ہی میں دونوں طرف کے ڈائریکٹر آپریشنز نے ہاٹ لائن پر بات کی ہے اور پرانے معاہدے کی پاسداری کا عہد کیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم بھارت کی پہلی گولی کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسری گولی کا ضرور جواب دیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش ہماری میز پر موجود رہتی ہے۔امن کی خواہش اور عزتِ نفس کا تحفظ ایک فطری تقاضا ہے جس کا تمام اہلِ وطن کو ساتھ دینا چاہیے۔ مجھےیقین ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادتیں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جا رہا ہے اور سیاسی اپروچ کو تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ جنرل صاحب کی گہری اور کھلی باتوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین