• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادب اور علم کی دنیا کو بڑا خسارہ ہوا، محمد عمر میمن اچانک چل بسے۔ اردو کی خاطر ان کی مشقت کو بھلانا مشکل ہے۔ جب تک جیئے ، اس راہ میں منزلوں پر منزلیں طے کرتے گئے اور اب یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے قدموں کے نشان مدتوں روشن رہیں گے۔ اردو زبان کا بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ انگریزی کی طرح عالم گیر زبان نہیں۔ اس میں کتنے ہی کارنامے سرانجام پائے جن کی دنیا کو خبر ہی نہیں ۔محمد عمر میمن نے ان دو زبانوں کے بیچ پُل بن کر جو تخلیقی کام کئے وہ ہماری روایات پر کسی عنایت سے کم نہیں۔ان کا یوں گزر جانا میرے لئے ایک اپنا دکھ بھی ہے کہ میں نے انہیں ایک ہونہار لڑکے کی شکل میں بھی دیکھا تھا جو صاف نظر آتا تھا کہ بڑی خوبیوں کا مالک ہے۔ یہ سنہ باون ترپّن کی بات ہے جب میں روزنامہ جنگ کے ہر اتوار کو شائع ہونے والے بچوں کے صفحے پر لکھا کرتا تھا۔ نونہال لیگ کہلائی جانے والی اس انجمن میں محمد عمر میمن کا نام یوں نمایاں تھا کہ اس کی تحریر بڑی پختہ، منجھی ہوئی اور پاکیزہ ہوا کرتی تھی۔ کچھ عرصے بعد میں کراچی کی برنس روڈ سے شاخ کی طرح نکلنے والی رابسن روڈ پر حامد یار خاں کے ادارے سے وابستہ ہوگیا جو کئی رسالے شائع کرتے تھے۔ ان ہی میں بچّوں کا ماہ نامہ نونہالِ پاکستان بھی تھا۔وہاں آنے والے لوگوں میں سے دو بہت یاد رہیں گے، ایک ساقی فاروقی اور دوسرا ایک نوعمر لڑکا محمد عمر میمن۔ ان دونوں میں ایک بات مشترک تھی۔ میں ان کی تحریریں پڑھ کر حامد صاحب سے کہا کرتا تھا کہ دونوں کہنہ مشق لگتے ہیں ۔ ادارے نے ہر مہینے بچوں کے چھوٹے چھوٹے ناول چھاپنے شروع کئے جو نو عمر لڑکیاں اور لڑکے لکھ کر لاتے تھے۔ ان ہی میں محمد عمر میمن کا آنا تو مجھے یاد نہیں لیکن میرے ذخیرے میں موجود ایک کتاب میں ان کے لکھے ہوئے ناول ’ننھے سپاہی‘ کا اشتہار شامل ہے۔عمر کی کتنی ہی منزلیںطے کرنے کے بعد جب ہم لندن میں ملے اور گہرے دوست بن گئے تومیں نے انہیں یہ اشتہار دکھایا۔ کچھ بہت خوش نہیں ہوئے۔ اس دوران وہ سرکردہ اسکالر ، ادیب،مترجم ایڈیٹر اور استاد بن چکے تھے۔ وہ بہت بڑے باپ کے بیٹے تھے لیکن کبھی اس بات پر فخر کرتے نہیں دیکھا۔ ان کے والد گرامی علامہ عبدالعزیز میمنی جیسا عربی کا استاد دنیا کے اس خطے میں شاید ہی کوئی پیدا ہوا ہوگا۔ عربوں کی طرح عربی بولتے تھے(لطف اﷲ خاں کے ذخیرے میں ان کی عربی تقریروں کی آوازیں محفوظ ہیں)۔اپنی تقریباً ساری ہی کتابیں عربی میں لکھیں جو کئی عرب ملکوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ان ملکوں میں انہیں آج بھی ’استاد‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے شاگردوں کو شمار کرنا مشکل ہے۔ان کے بیٹے محمد عمر میمن کو عربی، فارسی ،اردو اور انگریزی پر بھی عبور حاصل تھا۔وہ سنہ انتالیس میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ چوّن میں ان کا گھرانا پاکستان منتقل ہوا جہاں انہوں نے کالج کی تعلیم مکمل کی ۔ سنہ چونسٹھ میں فلبر ئٹ اسکالرشپ پر وہ امریکہ چلے گئے اور ہارورڈ یونی ورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری لی جس کے بعد کیلی فورنیا کی جامعہ سے ڈاکٹریٹ کی۔ انہوں نے سنہ ستّر سے وسکانسن کی یونی ورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور بے شمار طالب علموں کو اڑتیس سال تک اردو، اسلامیات، عربی اورفارسی پڑھا کر ریٹائر ہوئے۔اس دوران انہوں نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ سالنامہ دراساتِ اردو کے نام سے ایک اعلیٰ علمی مجلّہ نکالا جسے تعلیمی حلقوں میں بڑی سند مانا گیا۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں میری بھی تین کہانیاں ’دری‘ اور ’ ایک قطار کی کہانی‘ شائع ہوئیں۔ محمد عمر میمن کا ایک بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے اعلیٰ اردو ادب کو انگریزی میں ڈھالا اور ترجمے کو تخلیق کا درجہ عطا کیا ۔ انہوںنے جن سرکردہ مصنفوں کی تحریروں کا ترجمہ کیا ان میں انتظار حسین، عبداﷲ حسین، منٹو،حسن منظر،خدیجہ مستور،احمد ندیم قاسمی،ضمیر الدین احمد اور اسد محمد خاں کے نام آتے ہیں لیکن جس اردو مصنف کی تخلیقات پر انہوں نے خاص توجہ کی وہ لکھنئو کے نیّر مسعود رضوی ہیں۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ’عطر کافور‘ کے انگریزی ترجمے نے مغرب والوں کو بے حد حیران کیا۔ بعد میں اس کا کئی اور زبانوں میں ترجمہ ہورہا تھا۔ ترجمے میں اپنی مشقت کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ جس جملے یا فقرے کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا میں اس کے مصنف کو فون کرکے کہا کرتا تھا کہ مجھے اس کامفہوم سمجھاؤ۔
ایک زمانے میں امریکہ سے چل کر باقاعدگی سے لندن آیا کرتے تھے۔ سبب یہ تھا کہ خود امریکہ کے اندر سفر کرنا مہنگا تھا اور لندن کا ٹکٹ سستا تھا۔ لندن میں اردو کے استاد رالف رسل سے ان کی بڑی دوستی تھی۔ ان ہی کے گھر قیام کرتے تھے۔ ساقی فاروقی کے گھر ضرور جاتے تھے جہاں میں تصور کرسکتا ہوں کہ ساقی سے لمبی چوڑی بحثیں ہوتی ہوں گی۔ میرے گھر بڑے شوق سے آتے تھے کیونکہ میری بیوی کے ہاتھ کا کھانا انہیں بہت پسند تھا۔ سادہ کھانا کھاتے تھے کیونکہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ساتھ میں دواؤں کی گولیاں رکھتے تھے اور گھڑی دیکھ کر بڑی ہی باقاعدگی سے دوا کھاتے تھے۔ کھانا کھا کر ہم گھر کے پچھواڑے اپنے دلکش پارک میں چلے جاتے تھے اور جھیل کنارے بنچ پر بیٹھ کر دیر تک باتیں کیا کرتے تھے۔ اپنی بیوی کے بارے میں مزے کی باتیں بتاتے تھے ۔ ان کی بیوی جاپانی ہیں جن سے وہ امریکہ ہی میں ملے تھے۔ جاپانی بیوی بے حد پڑھی لکھی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ انگریزی زبان کی ماہر ہوں گی۔ بتانے لگے کہ جاپان والے دنیا کا اعلیٰ ادب راتوں رات ترجمہ کرکے چھاپ دیتے ہیں۔مثلاً فرانس میں کوئی بڑی علمی کتاب چھپی، جاپان والے دن رات ایک کرکے اس کا جاپانی ترجمہ بازار میں لے آتے ہیں۔ کہنے لگے کہ اکثر بڑی کتابیں میری بیوی مجھ سے پہلے پڑھ چکی ہوتی ہیں۔پرانے گانے بہت شوق سے سنتے تھے جن کا میرے پاس بڑا ذخیرہ تھا۔ کتنے ہی گانوں کو کاپی بنوا کر ساتھ لے گئے۔ اپنے جریدے میں بہت جی لگاتے تھے مگر ساتھ ہی مایوس بھی تھے۔کہتے تھے کہ اردو والے قدر نہیں کرتے۔ جریدہ اپنے نام نہیں لگواتے، سالانہ قیمت نہیں بھیجتے، جریدہ نہ ملے تو شکایت تک نہیں کرتے۔ اپنے بچوں کی بات کم ہی کرتے تھے۔ ان کی اٹھان اور طرح ہوئی تھی۔ مگر بٹوے میں ان کی تصویریں ضرور رکھتے تھے۔ خوش باش تھے۔ مسکراتے رہتے تھے۔ میرے قہقہے پر خوش ہوکر مجھے دیکھتے تھے۔ پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے کبھی ہاتھ میں ہاتھ تھام لیتے تھے تو حرارت کا یوں منتقل ہونا اچھا لگتا تھا۔ جلدی سدھار گئے، ابھی مرنے کے دن نہ تھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین