• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں سب قومی اور بین الاقوامی معاملات پس پردہ چلے گئے ہیں۔ ریحام خان کی وہ کتاب سب سے آگے نکل گئی ہےجو ابھی شائع بھی نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس کا ٹائپ شدہ مسودہ اس کے ہاتھ لگا ہے اور اب اس کے مبینہ اقتباسات اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں جو عمران خان کے فائدے میں ہیں اور یوں عمران خان کے نادان دوستوں نے کتاب کی مارکیٹ ویلیو میں بھی کئی گنا اضافہ کردیا ہے اور اقتباسات نے بھی خان صاحب کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
ریحام خان سے میری تین چار ملاقاتیں ہوئی ہیں اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب عمران خان سے تازہ تازہ ان کی علیحدگی ہوئی تھی۔ پہلی ملاقات میں تو بہت ’’سسپنس ‘‘ بھی تھا اور وہ یوں کہ مبین رشید نے لندن میں ایک بہت بڑی میڈیا کانفرنس منعقد کی، جس میں پاکستان سے بھی چیدہ چیدہ صحافی مدعو تھے۔ کانفرنس کا پہلا سیشن لندن میں تھا جس میں ریحام خان کی آمد کا اعلان بھی شامل تھا۔ اس وقت ریحام اور عمران میں با قاعدہ علیحدگی نہیں ہوئی تھی ،البتہ افواہوں کا طوفان گرم تھا، چنانچہ کانفرنس میں ان کی آمد کا بےچینی سے انتظار ہورہا تھا، مگر وہ اس سیشن میں شریک نہیں ہوئیں، دوسرا سیشن غالباً برمنگھم میں تھا، وہاں ان کی آمد کا ایک بار پھر اعلان ہوا اور جب ان کے آنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی، ریحام خان مبین رشید کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی ، وہاں ان سے صرف ہیلو ہائے ہوئی اس وقت تک غالباً علیحدگی ہوچکی تھی مگر نہ اعلان ہوا تھا اور نہ ریحام خان نے اپنی تقریر میں اس حوالے سے کوئی بات کی البتہ اشاروں کنایوں میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔ دوسری ملاقات اسلام آباد میں ڈاکٹر سعید الٰہی کے دفتر میں ہوئی اور تیسری ملاقات لاہور کی ایک تقریب میں جہاں ان سے ڈھیر ساری گپ شپ ہوئی۔ گپ شپ کا یہ موقع ڈاکٹر سعید الٰہی کے دفتر میں بھی ملا تھا۔ ریحام خان سے میری چوتھی ملاقات میرے پی ٹی وی کے پروگرام’’ کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ کے دوران ہوئی جس میں میں نے انہیں بطور مہمان مدعو کیا تھا۔ آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ میں نے کسی ایک ملاقات میں بھی ان سے عمران خان کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، مجھے کبھی کسی کی ازدواجی زندگی میں ہونے والی ناپسندیدہ تبدیلیوں سے خوشی نہیں ہوتی، چنانچہ دوستوں میں بھی اگر اس قسم کا کوئی معاملہ ہو تو میں اس موضوع پر گفتگو سے پرہیز کرتا ہوں، ا لا یہ کہ وہ خود ا س موضوع پر گفتگو کرنا چاہے، ریحام خان ایک خوش کلام خاتون ہیں ان کی صحبت مجھے بہت خوشگوار محسوس ہوئی، چنانچہ ان ملاقاتوں میں ہم نے سارا وقت خوش گپیوں میں صرف کیا۔ ریحام بہت عمدہ ذوق کی مالک ہیں اور بہت تخلیقی خاتون ہیں، میں نے پاکستان پر ان کی بنائی ہوئی ایک ڈاکومینٹری دیکھی تھی اور بہت متاثر ہوا تھا۔
اب تو صورتحال کھل کر سامنے آچکی ہے، ان کی آنے والی کتاب کا ہی شہرہ ہے، چنانچہ اب میں بھی اس موضوع پر گفتگو کررہا ہوں، ظاہر ہے میں نے کتاب نہیں پڑھی، صرف کتاب کے رف مسودے کی بات ہورہی ہے۔ ریحام خان اشاعت کے لئے دینے سے قبل ہر مصنف کی طرح اس پر نظر ثانی کریں گی اور جب کتاب اصلی اور حتمی شکل میں سامنے آئے گی ، کھل کر بات تو اس وقت ہوگی۔ مجھے تو حیرت عمران خان کے دوستوں پر ہے جنہوں نے کتاب کی اشاعت سے قبل اس کی اتنی پبلسٹی کردی کہ شائع ہوتے ہی یہ ہاتھوں ہاتھ نکل جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریحام کی کردار کشی بھی شروع کردی ہے حالانکہ اپنی سابقہ ’’بھابی‘‘ کے بارے میں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا جو کچھ وہ آج ریحام کے بارے میں کہہ رہے ہیں اگر ان میں کچھ سچائی ہے بھی تو عمران خان نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ان سے شادی کی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ عمران خان کو اتنا بدقماش کیوں ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ دوسری طرف سے جمائما خان بھی اپنے سابقہ شوہر کی حمایت میں سامنے آگئی ہیں اور کہا ہے کہ وہ یہ کتاب لندن سے شائع نہیں ہونے دیں گی۔ مجھے ان کی یہ ادا اچھی لگی کیونکہ عمران خان اپنے سیاسی کیرئیر کے نفع نقصان کا سوچے بغیر لندن کے میئر کے انتخابات کے موقع پر جمائما کے بھائی کی کنویسنگ کے لئے لندن گئے۔ یہ بہت مشکل فیصلہ تھا کیونکہ جمائما کے بھائی کے مدمقابل امیدوار ایک پاکستانی مسلمان تھا۔ عمران نے ایک پاکستانی مسلمان کے مقابلے میں اپنے سابقہ یہودی برادر نسبتی کی حمایت کی تھی، چنانچہ جمائما کا عمران کی حمایت کا فیصلہ عمران کی قربانی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی جمائما ایک عورت ہے، عمران سے طلاق کے باوجود ریحام تو ا سے اپنی سوتن ہی محسوس ہوتی ہوگی۔
کہنے والے کہتےہیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ریحام کی کتاب کا اتنا خوف نہیں ،جتنا عمران کے اس بلیک بیری موبائل فون سے ہے جو ریحام اپنے ساتھ لے گئ تھیں۔ اسی بلیک بیری کی شہرت عائشہ گلالئی کی وساطت سے ہوئی تھی، تحریک انصاف کی اس پارلیمنٹرین نے الزام لگایا تھا کہ عمران اسے بلیک بیری سے گندے میسیج کرتے رہے ہیں اور اس خاتون نے یہ میسیج حامد میر کو دکھا بھی دئیے اور میر صاحب نے اس کی تصدیق بھی کی۔ بلیک بیری صرف عائشہ گلالئی نہیں بلکہ اس کی ’’شہرت‘‘ کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن کا تعلق نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنوں کے دنوں کے میسیجز سے بھی ہوسکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی ممکن ہے اس میں ایسے کئی اور’’خزانے‘‘ دریافت ہوں جن تک ہمارے ذہن کی رسائی نہ ہو، تاہم میرا خیال ہے کہ اس میں شاید اور بہت کچھ تو ہو، دھرنوں کے دنوں کے میسیجز اگر ہیں بھی تو ’’قابل اشاعت‘‘ نہیں سمجھے جائیں گے۔
اور آخر میں یہ کہ میں دلی طور پر عمران خان کے لئے افسوس کی ایک لہر محسوس کرتا ہوں، یہ کبھی قوم کا ہیرو تھا اور یہ تاحیات ہیرو رہ سکتا تھا مگر ایک وزیر اعظم بننے کی خواہش اور دوسری اس کی ذہنی کجی نے اسے بہت نقصان پہنچایا۔ میں اس کے لئے دعاگو ہوں کہ یہ شخص اپنی کمزوریوں پر کبھی قابو پاسکے ، مگر دعا کا کیا فائدہ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین