چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار اور پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے بیانات سے الیکشن میں تاخیر کے بارے میں خدشات دور اور یہ واضح ہوگیا ہے کہ 25جولائی کو عام انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ ملک میں اس وقت بدترین لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں روزہ داروں کو اس حوالے سے سخت اذیت کاسامنا ہے۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کی اصل وجہ نئے ڈیموں کا نہ بننا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے اپنی میڈیا بریفنگ میں ملک میں پانی کے بحران کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ پاکستان کو اسوقت پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی موثر منصوبہ بندی اور حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔ گزشتہ 48سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا گیا۔اسی تناظر میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں نیا پنچ تشکیل دیا جانا قابل تحسین امر ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے پانی کی قلت اور نئے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ نئے ڈیموں کی تعمیر پر چاروں صوبوں میں اتفاق رائے ازحد ضروری ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر نئے ڈیم اور جھیلیں نہ بنائی گئیں تو 2025تک پاکستان میں پینے کا پانی ختم ہوجائے گا۔ بھارت کی آبی جارحیت بھی جاری ہے۔ کشن گنگا ڈیم کے معاملے میں بھی پاکستان کو عالمی عدالت سے اچھا رسپانس نہیں ملا۔ پانی ہماری لائف لائن ہے۔ اس کے بغیر پاکستان بنجر ہوجائے گا۔ پینے کا صاف پانی اور فصلوں کی کاشت کے لئے پانی کی فراہمی مستقبل میں ہمارے لئے بڑے مسائل بن جائیں گے۔ اس اہم معاملے پر ٹھوس حکمت عملی اختیار کرکے نئے ڈیم جلد بنائے جائیں بصورت دیگر ہماری داستان نہ ہوگی داستانوں میں؟ قیام پاکستان سے اب تک صرف جنرل ایوب خان کے دور میں ہم نے تربیلااور منگلہ ڈیم بنائے اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق،جنرل پرویز مشرف، بینظیر بھٹو، نواز شریف کے مختلف ادوار میں اس اہم مسئلے پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ بھارت اب تک ہمارے دریائوں پر چھوٹے بڑے 62ڈیم بنا چکا ہے اور ہم اس کا منہ تکتے رہ گئے۔ ملک میں پانی کی شدیدقلت ایک تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں ہر سال مون سون کے سیزن میں بارشیں ہوتی ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم آج تک نئے ڈیم نہیں بناسکے جس کی وجہ سے ہر سال ہم اپنا قیمتی پانی سمندر کی نذر کردیتے ہیں۔ اگر اس پانی کو سمندر میں گرنے سے بچا لیا جائے تو ہماری65لاکھ ایکڑاراضی سیراب ہوسکتی ہے اور شہروں میں تیزی سے نیچے گرتا ہوا پانی کا لیول بھی اوپر آسکتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی قلت کی وجہ سے وطن عزیزکو بجلی کے بھی بدترین بحران کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں سستی بجلی کا ذریعہ پانی ہے مگر چونکہ ہم نے ماضی میں ڈیم بنانے کی طرف توجہ نہیں دی اس لئے ہمیں کوئلے اور فرنس آئل کے ذریعے مہنگی بجلی بنانی پڑ رہی ہے۔ اب کچھ تذکرہ پاکستان کی جیلوں میں موجود ان ہزاروں لاوارث قیدیوں کی حالت زار کا جو معمولی جرمانے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کئی سالوں سے جیل میں ہیں اور ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوپا رہی ان کی رہائی کے لئے مخیر حضرات کو آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ ایک بہت بڑی نیکی اور صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے نیک کاموں پر بے حد اجر و ثواب عطا فرماتا ہے ، ہمارے یہاں صاحب حیثیت لوگ ایسے رفاہی اور فلاحی کاموں کی طرف توجہ نہیں جاتی جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا نوازا ہے اور دولت کی ریل پیل ہے ان کو چاہئے کہ ماہِ رمضان میں پاکستان کی جیلوں میں قید ایسے قیدی جو معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں اور تھوڑی سی رقم جرمانے کی مد میں ادا کر کے رہائی پا سکتے ہیں ان کی مدد کی جائے اس طرح بے شمار خاندانوں کا بھلا ہو سکتا ہے،صاحب حیثیت لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کا یہ ایک آسان طریقہ ہے اور رمضان المبارک میں اجر و ثواب بھی ستر گنا زیادہ ملتا ہے۔ اسی تناظر میں ہمارے کر م فرما قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم نے ہمیں اپنا دردبھرا اور فکر انگیز خط بھجوایا ہے جو کہ نذرقارئین ہے۔
محترم محمد فاروق چوہان صاحب!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
میں آپ کے کالم کے ذریعے پاکستان کے دردمند شہریوں اورمخیر حضرات تک لاوارث قیدیوں کے اس اہم معاملے کوپہنچانا چاہتاہوں۔اس وقت پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں قیدیوں کی رہائی صرف اس وجہ سے عمل میں نہیں آپارہی کہ ان کے پاس معمولی جرمانوں کی ادائیگی کے لئے رقم نہیں ہے۔ اس ضمن میں حکومتوں کو جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا وہ انہوں نے نہیں اداکیا۔ یہاں پاکستان کی بے شمار جیلوں میں بھی ایسے لاتعداد بے گناہ قیدی موجود ہیں جو جرم ’’بے گناہی‘‘ کی سزا بھگت رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اس وقت پاکستان بھی میں 100سے زائد جیلیں ہیں جہاں بے شمار ایسے افراد بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنے زندگی کے دن گن رہے ہیں ،کہ نہ تو جن کے مقدمات کے فیصلے ہو پاتے ہیں اور نہ ہی انہیں ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے ۔ایسے لوگ جو اپنے خاندان کے واحد کفیل ہوتے ہیں وہ کسی جائز ناجائز مقدمے میں سالوں جیل میں پڑے رہتے ہیں وہ خود تو جو بھی اذیت سہہ رہے ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن ان کے خاندان کے دیگر افراد جن میں بوڑھے والدین اور بیوی بچے شامل ہیں، ایک قابل رحم زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان کی اس کسمپرسی کا ذمہ دار کون ہے، عدالتی نظام ایسا ہے کہ برسوں ان کے مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش نہیں کئےجاتے اور لوگ اپنے کردہ نا کردہ گناہوں کی سزا مقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی بھگت رہے ہوتے ہیں ایسے قیدی جو کسی معمولی نوعیت کے جرم میں جیلوں میں بند ہیں ،اور چند ہزار روپے جرمانہ ادا کر کے رہائی پا سکتے ہیں۔ کسی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں کہ انہیں عید سے قبل رہائی نصیب ہو تاکہ ان غریبوں کے گھروں میں بھی خوشیاں درآئیں۔ پاکستان میں دو تین تنظیمیں لاوارث اور غریب قیدیوں کی رہائی کا انتظام کرتی ہیں ان میں ایک علمی ادبی اورسماجی تنظیم قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل بھی ہے پاکستان کے ایک سو انچاس اضلاع ہیں ،ہر ضلع میں تقریباً ہر دو یا تین جیلیں ہیں ہر جیل میں اوسطاً ایک سو کے قریب ایسے قیدی ہیں جو اپنی سزا پوری کر چکے ہیں صرف جرمانہ یا قصاص ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیلوں میں بند ہیں مخیر حضرات خصوصاً اور سیز پاکستانی ہر سال ایسے قیدیوں کی رہائی کا انتظام کرتی ہے ،عید کی آمد آمد ہے قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل مخیر خواتین حضرات کی توجہ ان بے بس مجبور قیدیوں کی رہائی کی طرف توجہ دلوانا چاہتی ہے، ایسے مخیر خواتین حضرات جو لاوارث قیدیوں کو رہا کروانا چاہتے ہیں تو فاؤنڈیشن سے 0300-8422518، 0300-0515101 رابطہ کرسکتے ہیں۔
والسلام
علامہ عبد الستارعاصم، چیئر مین قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)