• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دہائیوں سے جاری شخصی اور سیاسی آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام کے لئے ہمیں مزید جمہوریت بلکہ احیائے جمہوریت کی ضرورت ہے۔ دنیا میں اگر ہم جمہوری اعتبار سے مستحکم ممالک کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس سے جو پہلا سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، حقیقی جمہوریت میں صرف حکومت ہی منتخب نہیں ہوتی بلکہ پارٹی قیادت کے لئے بھی شفاف انتخابات قانونی طور پر ضروری ہیں، اس ضمن میں امریکہ، برطانیہ سمیت متعدد ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں پارٹی کی قیادت کا چنائو باقاعدہ ایک انتخابی عمل کے ذریعے ہوتا ہے اور اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ کئی جمہوری ممالک میں الیکشن کمیشن نہ صرف شفاف ملکی انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ہے بلکہ وہ پارٹیوں کے اندرونی انتخابات پر بھی گہری نظر رکھتا ہے، یوں یہ سیاسی پارٹیاں کسی کی ملکیت نہیں بلکہ ایک جمہوری ادارے بن جاتی ہیں، جہاں کسی لیڈر کے بیٹے یا بیٹی کو پارٹی میں شمولیت سے روکا تو نہیں جا سکتا لیکن شمولیت کے لئے اہلیت اور معیار لیڈر کے خاندان کا حصہ ہونا نہیں ہوتا۔ اس پارٹی میں غریب آدمی کا بچہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر نہ صرف شامل ہو سکتا ہے بلکہ کل کو وہ اس کا سربراہ بھی بن سکتا ہے۔ ان ممالک کا جمہوریت پر ایمان کی طرح یقین ہوتا ہے، جس سے روگردانی کسی صورت قبول نہیں ہوتی، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑنے کے لئے جو افراد نامزد کئے جاتے ہیں، ان کی نامزدگی کے لئے بھی پہلے شفاف طریقے سے باقاعدہ حق رائے دہی کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کے بعد ہی وہ فرد کسی بھی حکومتی عہدہ کے لئے نامزد کیا جاتا ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کی طرح حکومتی عہدوں کے لئے نامزدگیوں کے فیصلے جاتی امرا، گڑھی خدا بخش یا بنی گالہ میں نہیں ہوتے کہ فیصلہ کرکے پارٹی اور عوام کو اس سے آگاہ کر دیا جائے۔ پھر جمہوری اعتبار سے مستحکم اکثر ممالک میں پارٹی قیادت حکومتی عہدوں کے لئے آگے نہیں آتی، یعنی پارٹی کا صدر یا چیئرمین وزیراعظم یا صدر نہیں بنتا بلکہ وہ صرف رہنمائی فراہم کرتا ہے اور پارٹی امور چلاتا ہے، اس عمل سے دوہرا فائدہ ہوتا ہے اور حکومتی احتساب کے دو ادارے بن جاتے ہیں، ایک پارلیمنٹ تو دوسرا اس حکومت کی اپنی پارٹی۔
دنیا میں ترکی سمیت کئی ایسے کامیاب جمہوری ممالک موجود ہیں، جہاں ریاست صرف ملکی انتخابات کے اخراجات ہی برداشت نہیں کرتی بلکہ سیاسی پارٹیوں کو بھی وسائل فراہم کئے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں اس چیز کا ادراک ہے کہ ایک پارٹی کو اپنے امور کی انجام دہی کے لئے وسائل کی ضرورت ہے، اور اگر ریاست وہ وسائل فراہم نہیں کرے گی تو پھر ایسے لوگ اس میں شامل ہوں گے، جن کے پاس پیسا تو ہو گا لیکن قابلیت نہیں۔ ہر سیاسی پارٹی چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن، پارلیمنٹ کا حصہ ہوتی ہے، اور اس کے امور کو چلانے کی ذمہ دار بھی ریاست ہی ہے۔ ریاست ان پارٹیوں کی خود مالی اعانت کرے یا پھر انہیں مخصوص فورم پر فنڈ ریزنگ کی اجازت دے۔ تو…! ریاست پاکستان ایسے اقدامات کیوں نہیں کر سکتی جن سے جمہوری رویوں کو فروغ اور جمہوریت کو استحکام نصیب ہو؟ ملک میں رائج الوقت سیاسی نظام سے یہ بات واضح ہے کہ ہم نے جمہوریت کا صرف ایک چوتھائی حصہ اپنایا یعنی انتخابات، لیکن اس سے قبل اور بعدازاں جو جمہوری عمل یا جمہوریت کے بنیادی تقاضے ہیں، ان کو ہم مکمل طور پر نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں، جس کا نتیجہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی صورت میں رونما ہوتا ہے، یعنی آمرانہ جمہوریت۔ سیاست کو صرف دولت مندوں کی لونڈی بننے سے بچانے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ سیاسی پارٹی کو ایک ریاستی ادارہ تصور کیا جائے، جو کسی فرد واحد یا اس کے خاندان کی جاگیر نہیں بلکہ ریاست کی ملکیت ہو۔ جو سیاسی پارٹی پارلیمنٹ تک پہنچ جائے اسے ریاست اپنی ملکیت تصور کرے اور اس کے امور چلانے کی ذمہ داری بھی قبول کرے تاکہ کوئی بھی اپنے مال و دولت کے بل بوتے پر اس کو غلط راستے پر نہ چلا سکے۔ الیکشن کمیشن یا کسی اور ریاستی ادارے کے ذریعے پارٹیوں کو فنڈ دیئے جائیں تاکہ وہ ادارہ ان پارٹیوں کو ریگولیٹ کر سکے۔ پھر یہ الیکشن کمیشن نہ صرف سیاسی پارٹیوں کے اندرونی انتخابات کی کڑی نگرانی کرے بلکہ انتخابی اور حکومتی عہدوں پر نامزدگی کے لئے سیاسی پارٹیوں میں انہی کے اندر ادارے بنانے میں معاونت فراہم کرے، جو ایک جمہوری طریقے سے حکومتی عہدوں کے لئے اپنے ارکان کو نامزد کریں۔ لہٰذا وطن عزیز میں مکمل اور مستحکم جمہوریت کی خواہش کی تکمیل کے لئے نہ صرف سیاسی پارٹیوں کو حقیقی جمہوری رویہ اپنانا ہو گا بلکہ ریاست کو بھی ایک اہم اور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں آج جمہوریت کو حقیقی خطرہ کسی مارشل لاء، کسی عدالت یا خلائی مخلوق سے نہیں بلکہ منتخب حکمرانوں کی بری حکومتوں، آمرانہ رویوں، لوٹ مار کے نتیجے میں بڑھنے والی غربت، جہالت اور عوام کی بے چینی سے ہے۔ حکمرانی اچھی ہو تو عوام اپنے حکمرانوں کی حفاظت کے لئے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لہٰذا جمہوریت کو ہر خطرے سے محفوظ بنانے اور جمہوری حکمرانوں کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے عوام کا ہاتھ تھامنے کے لئے اب جو کچھ کرنا ہے وہ سیاست دانوں کو کرنا ہے یعنی اب سیاست دانوں کو خود حقیقی معاشرہ کے قیام کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ زیر نظر مضمون میں، میں نے پاکستان میں احیائے جمہوریت کے لئے ایک بنیادی تقاضے کا ذکر کیا ہے۔ ان شاء اللہ سیاست دان اور پارلیمنٹ کا عوام کی نظروں میں حقیقی احترام بحال کرانے کے لئے دیگر مطلوبہ جمہوری اقدامات پر ایک سیاست دان کی نظر سے بات کرتا رہوں گا۔

تازہ ترین