• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر ذی شعور پاکستانی جانتا ہے کہ غربت، جہالت اور بیماری جیسی لعنتوں سے جنگ کا واحد موثر ہتھیار تعلیم ہے اور یہ تعلیم ہی ہے کہ جس کے فروغ کے ذریعے انتہا پسندی اور دہشتگردی جیسے عفریت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر گزشتہ دنوں ایکNGO نے ایک انگریزی اخبار میں حکومت پنجاب پر الزام لگایا کہ ساٹھ فیصد ملک پر حکمرانی کے باوجود اس نے گزشتہ مالی سال کے دوران تعلیم کے شعبہ پر پندرہ پیسے فی طالبعلم کے حساب سے خرچ کیا۔ اس کے جواب میں وزیر تعلیم پنجاب کے افسر تعلقات عامہ نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبہ میں اربوں روپے خرچ کئے ہیں۔ یقینی طور پر پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں نے بھی اپنے سالانہ میزانیوں میں تعلیم کے شعبوں پر خرچ کے لئے اربوں روپے کی خطیر رقوم رکھی ہونگی اور وہ خرچ بھی کی گئی ہوں گی لیکن یہ کسی ایک مالی سال کے تعلیم پر اخراجات کی بات ہی نہیں ہے ،کسی ایک سیاسی یا غیر سیاسی جماعت یا حکومت کی تعلیم سے محبت کا ذکر ہی نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، اسلامی جمہوری اتحاد، عوامی نیشنل پارٹی، فوجی جرنیلوں اور سول حکومتوں کی قیام پاکستان کے بعد چھپن سالوں کی تعلیم کے میدان میں کوششوں کا ثمر”یونیسکو“ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ پوری دنیا میں صرف ایک ملک ایسا ہے کہ جس کی آبادی پاکستان کے لوگوں سے زیادہ ان پڑھ ہے۔
ہوسکتا ہے کہ”یونیسکو“ کی انتظامیہ میں پاکستان کا کوئی ایسا ہمدرد موجود ہو جو سمجھتا ہو کہ اگر پاکستان کے لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ ان پڑھ، جاہل اور نالائق، ذہنی طور پر اپاہج اور معذور ہیں تو انہیں بہت دکھ ہوگا چنانچہ ان کی تسلی کے لئے کسی دوسرے ملک کو سب سے زیادہ یا ان سے بھی زیادہ ان پڑھ قرار دیا گیا ہے مگر پاکستان کے وہ ہمدرد یہ بھی ضرور جانتے ہوں گے کہ پاکستان کے لوگوں کو ایسے شرمناک حقائق پڑھنے یا سننے سے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی وہ انتہائی دردناک حقائق کو نگل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پڑھ وہ ہوتا ہے جسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ ان پڑھ ہے۔
”یونیسکو“ کی مذکورہ بالا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں کم از کم چار کروڑ 95لاکھ لوگ چٹے ان پڑھ یعنی مکمل طور پر غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی پرائمری سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوگی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگلے تین سالوں میں یعنی2015 ء تک پاکستان میں ان پڑھوں کی تعداد پانچ کروڑ دس لاکھ سے بھی تجاوز کرسکتی ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کے سب سے زیادہ ان پڑھ ملک ہونے کا”اعزاز“ مل سکتا ہے مگر پھر وہ فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی کا اور آصفہ بھٹو زرداری کاملک بھی نہیں ہوگا کیونکہ”یونیسکو“ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے چار کروڑ پچانوے لاکھ ان پڑھوں میں دو تہائی اکثریت خواتین کی ہے اور یہ ان پڑھ زنانہ آبادی پاکستان کو دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ بدقسمت ملک بناتی ہے جو اپنی زنانہ آبادی کی طرف دردناک غفلت برت رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے علاوہ دوسرے دونوں ممالک بھی مسلمان ہی ہوں گے۔
حکومت پنجاب کے وزیر تعلیم کے افسر تعلقات عامہ کا یہ بیان مشکوک نہیں ہے کہ پنجاب کے حکمران تعلیم کے شعبہ پر اربوں روپے کا سالانہ بجٹ خرچ کررہے ہیں مگر یہ حقیقت بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کسی بھی شعبہ کی ترقی یا کارکردگی کو اس شعبہ میں خرچ ہونے والی رقم سے ناپا نہیں جاسکتا۔ معلوم کرنے والی اصل حقیقت یہ ہوتی ہے کہ رقم کہاں اور کیسے خرچ کی گئی ہے؟ اور اس خرچے کا فائدہ کیا ہوا ہے؟ اگر نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا؟ پنجاب کے شعبہ تعلیم میں اربوں روپے کے خرچے سے خواندگی میں کتنے فیصد اضافہ ہوا ہے؟ اگر تعلیم اور صحت کے شعبوں کے فنڈز ٹرانسپورٹ کے کسی منصوبے پر خرچ ہورہے ہیں تو اس سے تعلیم اور صحت کو کس قدر افاقہ ہوسکتا ہے؟
تازہ ترین