• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ارباب حل و عقد کو آئی ایم ایف سمیت کئی بین الاقوامی اداروں کی اس رپورٹ کو ہنگامی الارم کے طور پر لینا چاہئے جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگلے سات برسوں میں پاکستان ریگستان میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ آبی ماہرین عشروں سے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور مستقبل میں پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کی طرف توجہ مبذول کراتے رہے ہیں۔ طاس سندھ معاہدے میں پاکستانی مفاد کے اعتبار سے پائی جانے والی کجی کی نشاندہی بھی کی گئی اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ بعض شرائط کی پابندی کے لئے اندرون ملک پانی ذخیرہ کرنے کے قابل اعتماد انتظامات ضروری ہیں۔ مگر بین الاقوامی دریائوں سے پاکستان کے پانی کا جائز حصہ لینے کیلئے پیروی میں جس غفلت اور آبی ذخائر کی تعمیر سے جس صرف نظر کا مظاہرہ کیا گیا اسے بعض حلقے مخصوص طاقتوں کے اشاروں پر بلا حیل و حجت عمل کرنے کا نتیجہ قرار دیتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اگر واٹر کمیشن نہ بناتا تو پانی سے تعلق رکھنے والے کئی اسکینڈلز ریکارڈ پر نہ آتے۔ اب سپریم کورٹ نے پانی کو عزت دینے کی جو بات کی وہ درحقیقت پاکستانیوں کی جانیں بچانے کی بات ہے۔ عدالت عظمیٰ کو دیگر زیر غور امور کے ساتھ آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی اداروں کی مذکورہ رپورٹ کا بھی جائزہ لینا چاہئے جس میں سیاسی بددیانتی ، پانی کی سیاست 1990ء سے کسی بھی سطح پر پانی کے حوالے سے منصوبہ بندی سے گریز سمیت بہت سے ایسے اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے جو ملک میں پانی کی کمیابی کا سبب بن رہے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں خاموشی سے لپیٹے جانے والے سولر سسٹم نیٹ ورک، ڈیموں کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور مقامی اداروں و وسائل کے بروئے کار لانے میں قباحتوں کے حوالے سے بھی تجزیئے کئے جاسکتے ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی دریائوں سے پاکستان کے حصے کا پانی حاصل کرنے، بارشوں اور سیلابوں کا پانی ذخیرہ کرنے اور پانی کی ایک ایک بوند احتیاط سے استعمال کرنے کے طریقے بروئے کار لائے جائیں جن کے بارے میں سپریم کورٹ ماہرین کی معاونت سے رہنمائی فراہم کرسکتی ہے۔

تازہ ترین