• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے قریباً ڈیڑھ ماہ بعد پاکستان کے عوام آئندہ پانچ سال کے لئے نئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کریں گے۔ جولائی کے مہینے میں تپتے سورج اور شدید حبس کی پروا نہ کرتے ہوئے عوام پولنگ اسٹیشنزتک پہنچیں گے اور اپنی مرضی کے امیدوار کے نشان پر مہر لگا کر پرچی بیلٹ باکس میں ڈالیں گے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک ان کی جمہوری ذمہ داری بس اسی بیلٹ باکس میں پرچی ڈالنے تک محدود ہے، لیکن کسی بھی مضبوط جمہوری نظام میں عوام الیکشن کے بعد بھی وقتاََ فوقتاََ اپنے منتخب کردہ نمائندوں کو غلط اور صحیح کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ جن ممالک میں سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں وہاں پارٹی کی سطح پر بحث مباحثے چلتے رہتے ہیں۔ پارٹی کی غلط پالیسوں کے خلاف سب سے پہلے پارٹی کے اندر آواز اٹھائی جاتی ہے،پھر چاہے وہ بنیادی رکنیت رکھنے والے ممبران ہوں یا پھر پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اراکین۔ افسوس کی بات ہے کہ آج تک ہمارے ہاں اس قسم کی جمہوری روایت جنم نہیں لے سکی۔ ملک کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو گی جس میں internal criticism کا کوئی نظام بنایا گیا ہو۔ اس کی ایک وجہ تو سیاسی ہنمائوں کی عدم برداشت ہے ، جس کی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں پارٹی کے اندرونی اجلاس میں کسی پالیسی سے اختلاف کرنے کی بنیاد پر سیاسی رہنما کو یا تو کونے میں لگا دیا جاتا ہے یا پھر پارٹی کے دروازے اس پر مکمل بند کر دیئے جاتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پچھلے دس سال کے جمہوری تسلسل کا فائدہ سیاسی جماعتیں بھی اٹھاتیں۔ اپنی جماعتوں کو یونین کونسل کی سطح پر منظم کرنے کی کوشش کی جاتی، جماعتوں میں مختلف قسم کے تھنک ٹینکس بنائے جاتے جو ملکی مسائل کے حل تجویز کرتے جس کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو ترتیب دیتیں لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں آج بھی پارٹی رہنمائوں کی جیب سے خرچ کئے جانے والے پیسوں پر چل رہی ہیں، نہ تو کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی مستقل سیکرٹریٹ ہے اور نہ ہی مستقل فنڈنگ کا کوئی ذریعہ۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں کسی ملٹی نیشنل ادارے کی طرح کام کرتی ہیں، پارٹی فنڈزاکٹھا کرنے کے لئے بنیادی ممبران سے سالانہ ممبر شپ فیس لی جاتی ہے۔ پارٹی کے مستقل ملازمین ہوتے ہیں جو کہ سارا سال پارٹی پالیسیوں سے لے کر نئی ممبر ساز ی تک بہت سی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ اس طرح سیاسی جماعتیں صرف ٹکٹ ہولڈر افراد تک ہی محدود نہیں رہتیں بلکہ ان سیاسی جماعتوں کے فیصلوں کی اونرشپ لاکھوں دیگر افراد بھی لینے کو تیار ہوتے ہیں۔ پاکستا ن میں سیاسی جماعتیں اس قسم کے جمہوری رویے سے ابھی کافی دور ہیں۔
اس سب کے باوجودجمہوری ادارے داد کے مستحق ہیں۔ ان دس برسوں میں پاکستان کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچنے والے افراد نے اپنے پیشروئوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔ پچھلے پانچ سالوں میں قومی اسمبلی نے دو سو پانچ بل پاس کئے جو کہ کسی ریکارڈ سے کم نہیں ہے۔ ان میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے بنائی جانے والی آرمی کورٹس، الیکٹورل ریفارمز، مردم شماری کے بعد ملک میں قومی اسمبلی کی سیٹوں کی تقسیم اور فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی ترمیم بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی اصلاحات لانے اور گواہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے بھی قانون سازی کی گئی ہے تا کہ کرمنل کیسز میں گواہوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی گواہی تبدیل کروانے کی روایت پر کسی حد تک قابو پایا جا سکے۔ اسی طرح اس اسمبلی کے دور میںwhistle blower کی حفاظت کے حوالے سے بھی قانون متعارف کروایا گیا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع دینے کی پاداش میں اب کسی ملازم کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔ اس قانون کا مقصد لوگوں میں یہ حوصلہ پیدا کرنا ہے کہ وہ بلا خوف و خطر غیر قانونی کاموں کی نشاندہی کریں۔ اسی طرح اس اسمبلی نے رائٹ ٹو انفارمیشن کے لئے بھی قانون سازی کی ہے، اس کے بعد سرکاری محکموں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کرنے کے ہمارے بنیادی حق کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس اسمبلی نے موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بھی قانون سازی کی، عدالت سے باہر مسائل کے حل کے لئے Alternate Dispute Resolution کا بل بھی اس اسمبلی نے منظور کیا۔اس نظام کے درست استعمال سے ہمارے عدالتی نظام پر پڑے بوجھ میں کسی حد تک کمی ہو سکتی ہے۔
اس اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دوہزار آٹھ میں منتخب ہونے والی اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ مد ت میں ایک سو چونتیس بل پاس کئے تھے، جبکہ دو ہزار دو میں منتخب ہونے والی اسمبلی پانچ سال میں صرف اکاون بل ہی پاس کر پائی تھی۔ اس طرح اگر عددی لحاظ سے دیکھا جائے تو جمہوری نظام کے تسلسل سے قانون سازی کے عمل میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ حالیہ اسمبلی نے دو ہزار دو کی اسمبلی کے مقابلے میں چار گنا زیادہ قانون سازی کی ہے۔ اس طرح کم از کم عوامی نمائندے اپنی ذمہ داری کا کچھ احساس تو کر رہے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ لیکن اسی عددی برتری کو حاصل کرتے کرتے اس اسمبلی نے کئی ایسے بھی قوانین منظور کئے جو بعد ازاں عدالتوں میں چیلنج کر دیئے گئے۔ الیکشن کے فارمز سے بہت سی اہم معلومات کو نکال دینا اس کی ایک مثال ہے۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات میں جن سوالات کے جواب دے کر ممبران اسمبلی منتخب ہوئے انہیں الیکشن فارم سے نکال دینا کسی بھی صورت اچھی روایت نہیں تھی۔ کیا عوام یہ جاننے کا حق ہی نہیں رکھتے کہ جن افراد کو وہ منتخب کرنے جا رہے ہیں ان کا بیک گرائونڈ کیا ہے؟ اب جب سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سیاستدانوں سے ایک حلف نامےپر انہی سوالات کے جواب لے کر جمع کرے گا تو سیاستدان عدالتوں کی جانب سے مداخلت کا الزام عائد کریں گے۔ ہمارے سیاستدانوںنے جہاں ان د س سال میں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اتنا کام کیا ہے وہیں اگر وہ آئندہ پانچ سال میں جمہوری روایات کو مضبوط کرنے کے لئے بھی کچھ تگ و دو کرلیں تو یہ ہمارے مستقبل کے لئے بہت بہتر ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین