• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک حل تو ہے!
بھارت خطے کو ہتھیاروں کی دوڑ میں جھونک رہا ہے جبکہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں۔ بھارت تو ایسا روز اول سے کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان کو بھی اسی بیماری میں مبتلا کر کے خود سمیت اپنے ہمسایوں سے بھی پرامن زندگی کا خواب چھین لے۔ حل بھی سادہ اور بات بھی سادہ ہے بشرطیکہ ہمارا فارن آفس اور سفارتکاری ایک ایسا تاثر عالمی برادری تک پہنچائے کہ بھارت پر انسانی بہتری کے حوالے سے فطری دبائو بڑھے اور خود بھارتی عوام کو بھی قائل کرنے کے لئے ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ وہ خود اپنے جنگجو نیتائوں کو آگ سے کھیلنے نہ دیں۔ ہمیں دفاعی پوزیشن پر اپنی تمام عسکری غیر عسکری پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی اور اب بھی ہم لگ بھگ ایسا کر رہے ہیں مگر ہمیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارا سفارتی مشن برائے نام ہے اور خارجہ پالیسی ٹھوس نہیں۔ بھارت پانی کی دہشت گردی کے ذریعے ہمیں کسی جنگ میں جھونکنا چاہتا ہے، اس کا فوری حل یہ ہے کہ ہم جو اپنا پورا دریائے سندھ بالخصوص گلیشیر پگھلنے اور سیلابوں کے موسم میں سمندر میں پھینک دیتے ہیں اسے ڈیموں میں محفوظ کر لیں تو تنہا انڈس ہی ہماری برقی، زرعی ضروریات کے لئے وافر پانی فراہم کر سکتا ہے۔ ہمیں اب تک ایسا کر لینا چاہئے تھا مگر ہم نے اس طرح عظیم تر قومی مفادات کے اس منصوبے کو بھی سیاست کے دریا میں بہا کر ضائع کر دیا۔ بھارت بھلے ہتھیاروں کی دوڑ میں خطے کو ڈالنے کی کوشش کرے مگر ہم اگر جنگ کے امکانات ہی معدوم کر دیں تو نہ صرف بھارت اپنے مذموم عزائم میں ناکام ہو گا بلکہ دنیا پر بھی واضح ہو جائے گا کہ پاکستان امن پرست ہے اور بھارت کے عوام نہیں وہاں کے متعصب ہندو نیتا اپنے اقتدار و تسلط کی خاطر بھارتی عوام کے مفاد سے کھیل رہا ہے مگر ہمیں مستحکم موثر خارجہ پالیسی، تیز تر بااثر سفارتکاری اور متنازع بیانات کا جواب آں غزل دینے سے پرہیز کرنا ہو گا۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
افطار ثلاثہ
لندن:مسجد میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا ایک ساتھ افطار ڈنر۔ بین المذاہب افطار ڈنر کا اہتمام ایسٹ لندن تھری فیتھس فورم نے کیا۔ جب اسلامی تعلیمات کے مطابق مسجد میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے، تو آج اکیسویں صدی میں لندن کی ایک مسجد میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا افطار ڈنر میں شامل ہونا کوئی نئی بات نہیں البتہ بڑی بات ضرور ہے۔ ہم ایسٹ لندن تھری فیتھس فورم کے اس اقدام کی نہ صرف تعریف کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں کہ پوری دنیا میں بین المذاہب خود ساختہ دوریوں کا ازالہ کیا جائے، مذہبی منافرت کے ذریعے اہل سیاست اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، مذہبی انتہا پسندی ہی کے ذریعے دہشت گردی پیدا کی جاتی ہے پھر اسے عام کیا جاتا ہے، اس طرز عمل کے نتیجے میں اب تک دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کا خونِ ناحق ہوا، اگر یہودی، عیسائی، مسلمان متحد ہو کر مشترکہ تقریبات کا اہتمام کریں تو مذاہب کو سیاست کے لئے استعمال کرنے کے خاتمے کے ساتھ انسانی برادری کو لاحق تمام دیرینہ تنازعات بھی حل کرائے جا سکتے ہیں۔ ان تنازعات کے باعث بھی دہشت اور خوف پھیلتا ہے جس کا فائدہ صرف ان قوتوں کو ہوتا ہے جو اپنے مخصوص مفادات کے حصول کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ تھری فیتھس فورم کو اپنا دائرہ کار وسیع کرنا چاہئے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جو مختلف مذاہب کے لوگوں کو یکجا کر کے انسانیت کو درپیش خطرات کا مداوا کر سکتی ہے۔ اکثر بین المذاہب قربتیں بڑھانے کے اقدامات کو ایک سازش قرار دیا جاتا ہے جبکہ ایسا تصور خود ایک سازش ہے پوری انسانیت کے خلاف۔ کشمیر، فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ عبادت گاہوں کے دروازے سب کے لئے کھول دیئے جائیں، باہمی محبتوں کے رشتے مضبوط کرنے کی تلقین ہر مذہب میں موجود ہے مگر مذاہب کی اصل تعلیمات کو عام نہ کرنے کے لئے بھی کچھ شیطانی قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ یہ فورم انسانوں کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
رمضان المبارک کی انوکھی برکت
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو اس کی برکات غیرمسلموں پر بھی روحانی اثر ڈالتی ہیں، مسلمانوں کو سحری، افطار، تراویح کے اوقات میں خوش دیکھ کر دوسرے مذاہب والے اسے ایک ایسی تقریب یا عید سمجھتے ہیں جو 30روز جاری رہتی ہے۔ افطار کے وقت جو چہل پہل، گرمجوشی اور کھانے پینے کا اہتمام ایک خاص جذبے سے کیا جاتا ہے وہ پورے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے اس خوشیوں، برکتوں کے مبارک مہینے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر طویل دورانیے تک بھوکا پیاسا رہنے کے عمل سے اسلام کی حقانیت عملاً واضح ہوتی اور کئی شبہات کو دور کر دیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غیرمسلموں کو بھی افطار پر بلانے کا سلسلہ بڑھانا چاہئے۔ ایک ہی دستر خوان بلا امتیاز مذہب و نسل انسانوں کا مل کر کھانا پینا نفرتوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موثر ذریعہ ہے اور یہی وہ انوکھی برکت ہے اس ماہِ مقدس کی جو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ دوسرے مذاہب کے افراد کے لئے بھی باعث مسرت و برکت ہے۔ مگر ہم نے کچھ اسلام کی وسعتوں کو تنگ نظری کی نذر کر کے اس عظیم دین فطرت کی فطری فیوضات و برکات سے انسانیت کو محروم رکھا ہوا ہے، اس طرح دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور باہمی انسانی تعلقات، تنازعات بن جاتے ہیں۔ اسلام کا کوئی عمل یا عبادت ایسی نہیں جو اپنی طرف مائل نہ کرے کیونکہ اس کی عبادات سماجی روابط سے ہم آہنگ ہیں۔ اس میں عبادت بھی حفظانِ صحت ہے گویا ہمارا یہ مبارک مہینہ جدید دنیا سے اس قدر ہم آہنگ ہے کہ کوئی عہد ایسا بھی آئے گا کہ یہ تبلیغ اسلام کا ایک مہذب خاموش ذریعہ بن جائے گا۔ اس وقت مذاہب عالم میں کسی کے پاس ایسا سالانہ ایک ماہ کا جشن مسلسل نہیں جو سائنٹفک فوائد کا بھی حامل ہو اور روح پرور بھی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
مدعی لاکھ برا چاہے
٭مریم اورنگزیب:ن لیگ ذاتیات کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔
منکر ِ ذاتیات ہی منکر ِ بدیہیات نکلا۔
٭بلاول:بھٹو ہی جمہوریت کا دفاع کر سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی زندہ ہے شہیدوں کو کیوں زحمت دیتی ہے۔
٭سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی تحریک انصاف میں شامل ساتھ ہی سابق وزیر اعظم سومرو بھی۔
دو سابق وزرائے اعظم شامل ہو گئے کہیں عمران کی ممکنہ وزارت عظمیٰ ’’شاملاٹ‘‘ نہ بن جائے۔
٭ن لیگ نے حسن عسکری کی تقرری مشکوک قرار دیدی اور مسترد کر دی۔
مگر وہ تو حلف اٹھا چکے۔
٭اس ملک سے کسی بھی چیز کے جانے کا امکان ہے، لوڈشیڈنگ کا نہیں۔
٭شہباز شریف:دن رات محنت کی، الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر جیتیں گے۔
آپ کو ایسا ہی کہنا چاہئے کیونکہ مدعی لاکھ برا چاہے والا شعر امر ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین