• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیر کی رات ایک محفل میں ایک صاحب ِنظر اور صاحب ِکرامات سے ملاقات ہوئی۔ اُن سے پوچھا کہ یہ سارا ہنگامہ کیا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ کوئی عظیم واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ میں نے کہا اَن ہونے واقعات تو آئے دن ظہور پذیر ہوتے ہیں، مگر ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہمیں یہ بتائیے کہ آئندہ حالات کیا موڑ کاٹنے والے ہیں۔ اُنہوں نے ذرا توقف سے جواب دیا کہ میں چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری پر دومہینے بہت بھاری دیکھ رہا ہوں کہ چاروں طرف سے یلغار ہو رہی ہے اِس لیے پوری قوم کو اُن کی پشت پر کھڑا رہنا چاہیے، کیونکہ اُنہوں نے مارچ 2009ء کے بعد ایک مسیحائی کردار ادا کیا ، ظالموں کو ظلم سے روکا اور عوام کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کی ہے۔ بقرعید سے پہلے سی این جی کی قیمتوں میں تیس روپے فی کلو کمی کر کے پہلی بار عوام کو فوری ریلیف دیا ہے جو اُن کی درازیٴ عمر کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ یہی دعائیں اُن کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہیں۔ میں نے آنیوالے انتخابات کے بارے میں سوال کیا تو صرف اتنا کہا کہ طلسم سامری ٹوٹنے اور ایک حیرت کدہ آباد ہونے والا ہے۔ میں نے اُن کی زبان سے یہ الفاظ پہلی بار سنے اور مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب رُت بدلنے والی ہے۔محفل تمام ہوئی تو میری یادوں کے کینوس پر ماضی کے واقعات اُبھرنے لگے۔ اب چونکہ بعض بیتے ہوئے واقعات ہمارے حال اور مستقبل پر اثرانداز ہونے لگے ہیں اسلئے اُن کا صحیح پس منظر بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ پچھلے دنوں خبر آئی کہ مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کے بغیر ایم ایم اے بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تب مجھے وہ رات یاد آئی جب جماعت اسلامی کی قیادت چند اہل صحافت سے اِس کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کررہی تھی۔ ہمارے درمیان سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی سید منور حسن موجود تھے جو مذہبی جماعتوں سے اتحاد کی پُرجوش حمایت کر رہے تھے۔ میری باری سب سے آخر میں آئی تھی۔ میں نے بیشتر دوستوں کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ایم ایم اے میں جماعت اسلامی کی شمولیت پر شدید اختلاف کیا تھا۔ استدلال یہ تھا کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کو ایک ضابطہٴ حیات ایک عالمگیر تہذیب اور ایک ترقی یافتہ تمدن کے طور پر دنیا میں متعارف کرایا تھا اور وہ جماعت اسلامی کے ذریعے عمر بھر دین کو مسلکوں اور فرقوں کی تنگنائیوں سے بلند رکھنے کی تاریخ ساز جدوجہد کرتے رہے۔ ایم ایم اے میں شامل ہو جانے سے جماعت اسلامی بھی ایک مسلک یا ایک مذہبی فرقے کی سطح پر آ جائے گی اور اِس کی انقلابی روح بہت متاثر ہو گی۔ اِس کے علاوہ بعض مسالک کے زعماء اور پیروکار اِن اخلاقی پابندیوں کا پورا خیال نہیں رکھتے جن کی طاقت پر جماعت اسلامی نے اپنی ایک جداگانہ حیثیت قائم کی ہے۔ میرا حقیر مشورہ یہ تھا کہ ایک متفقہ ایجنڈے پر کسی قومی دھارے کی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد زیادہ فطری اور سود مند ہو گا۔
ایم ایم اے وجود میں آ گئی اور صوبہ سرحد میں اِس کی حکومت بھی قائم ہو گئی ۔ کوئی ایک ڈیڑھ سال بعد قاضی حسین احمد نے اپنے دس بارہ صحافی دوستوں کو آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت کیلئے مدعو کیا تجاویز کا سلسلہ چل نکلا۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے مشورہ دیا کہ ایم ایم اے کو صوبہ سرحد میں ایک مثالی حکومت قائم کرنی چاہیے۔ اس پر اُنہوں نے بڑی دل گرفتہ آواز میں کہا کہ یہ حکومت ہمارے حلق کی ہڈی بن چکی ہے جو کل کے بجائے آج ہی ختم ہوجائے تو بہتر ہو گا کیونکہ ہماری اخلاقی ساکھ پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہم جمعیت علمائے اسلام سے برسرِ عام اختلاف بھی نہیں کر سکتے کہ مبادا مذہبی جماعتوں کی ہوا اُکھڑ جائے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی پیش دستی کے بعد جماعت اسلامی کو موقع میسر آیا ہے کہ وہ بین المسالک مکالمے کو فروغ دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے پہلو بہ پہلواُن سیاسی جماعتوں سے رابطے مضبوط کرے جو اسٹیبلشمنٹ سے نیاز مندی نبھانے کے بجائے قانون کی حکمرانی اصولوں اور اسلامی اقدار کو ترجیح دیتی ہوں۔ وقت مرہم بھی ہے اور سب سے بڑا استاد بھی۔
مجھے وہ دوپہر بھی اچھی طرح یاد ہے جب میاں نواز شریف نے 2008ء کے انتخابات کے بارے میں تبادلہٴ خیال کے لیے خاصی بڑی تعداد میں صحافیوں کو دعوتِ طعام دی تھی۔ اِن میں ایک گروپ انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں تھاجس نے کہا کہ انتخابات کے نتائج پہلے ہی تیار کر لیے گئے ہیں جن کے مطابق مسلم لیگ نون کے حصے میں صرف بیس پچیس نشستیں آئی ہیں چنانچہ اُس کے لیے انتخابات کے میدان میں اُترنا سیاسی خود کشی ہو گی۔ دوسرے گروپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دینے کے بعد صدر مشرف کے دانت ٹوٹ چکے ہیں جبکہ میاں نواز شریف اور اُنکے خاندان نے بے مثل استقامت کا ثبوت دیا ہے اور پاکستان کے طول و عرض میں اُمید و یقین کے چراغ روشن کر دیے ہیں اِس لیے انتخابات میں حصہ لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔ اِس فیصلہ کن لمحے میں جناب نواز شریف نے وہی فیصلہ کیا جس کی ایک مدبر سے توقع کی جا سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ساڑھے چار سالہ دورِ حکومت میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر اُنہوں نے کمال حوصلے بردباری اور باوقار سیاسی وضع داری کا ثبوت دیا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف قائد کی حیثیت سے اُبھرے اور عوام کی اُمیدوں کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں عدالت ِعظمیٰ نے اصغر خاں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے یہ حکم صادر کیا کہ ایف آئی اے اِن سیاست دانوں کیخلاف تحقیقات کرے جن پر آئی ایس آئی سے رقوم لینے اور انتخابات میں دھاندلی کرنے کا مبینہ الزام لگا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے شتابی میں بیان داغ دیا کہ ہم ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کو مسترد کرتے ہیں لیکن میاں نواز شریف نے عدالت ِعظمیٰ کا فیصلہ من و عن تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں اور ہم تحقیقات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اُن کی سیاسی وجاہت نے اُنہیں بین الاقوامی شخصیت میں ڈھال دیا ہے اور وہ پاکستان کے سب سے شائستہ متوازن اور باصلاحیت لیڈر کے طور پر تسلیم کیے جا چکے ہیں۔ اُنہی کی راہنمائی میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف ایک دیانت دار اور فرض شناس منتظم کے طور پر اپنا نقش تاریخ کے صفحات پر ثبت کر رہے ہیں۔ استاد سودا# نے اسیرانِ وہم و گماں سے سرشاری کے لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا
اے ساکنانِ کنج قفس صبح کو صبا
سنتی ہی جائے گی سوئے گلزار کچھ کہو
تازہ ترین