• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جھوٹ ہی جھوٹ، تکلیف ہی تکلیف، غریبوں کی کمائی پر ڈاکے کی نئی واردات ۔ چوری کی نئی منصوبہ بندی۔ دو وقت کی روٹی کی بھوک شیر کو بھی سرکس میں کام پر مجبور کر دیتی ہے۔ اگر آپکا رزق ایسے ہی لکھ دیا گیا تو یہ کوئی جرم نہیں اور اگر آپ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں تو سُور کا گوشت کھانا بھی جائز۔ البتہ جب آپ اپنے رزق پر وضاحتی بیان دیں گے تو سوالات اٹھنے لازم۔ حضور جہاں کرائے کی تحریر لکھنا جائز وہاں جھوٹ بول کر اللہ کی مخلوق کو ورغلانہ جرمِ قبیح ہے۔ ایک نیم خواندہ، نیم لکھاری گیلپ کے ایسے سروے پیش کرتے ہیں جو گیلپ کے کاغذوں میں ناپید اور اُس پر ایسی تصویر کشی، لگتا ہے انقلاب ِفرانس یا انقلابِ روس دستک دے رہا ہے۔ یہ کم علمی یا جہالت نہیں بلکہ صریحاً دروغ گوئی…
میرے ایک محترم بھائی جو قلم کی بجائے جہاد کی تلوار لئے زرہِ بکتر پہنے نسیم حجازی کے گھوڑے پر سوار میدانِ صحافت میں کودے تو ہماری محبتوں کو اپنا منتظر پایا۔ ہمیں میدانِ جہاد میں چھوڑ کر کمائی میں جُت گئے اور حقائق کو توڑنے مروڑنے میں ایک مقام پایا۔ ویسے بھی جب سیاستدانوں کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر اغیار کے بینکوں میں۔ اس پر مستزاد امریکی قانونPATRIOT ACT-2001، جو ایسی رقوم پر سیاستدانوں کے پورے قبیلے کو کسی بھی وقت حوالہ زنداں کر سکتا ہے ایسے میں امریکہ کے خلاف جہاد نہ کرنے کا شرعی عذر موجود اور لازم ہے کہ غصہ عمران خان پر ہی نکلے کہ وہ ٹوٹے پھوٹے انداز میں امت کے اجتماعی شعور کا ترجمان کیوں بن بیٹھا۔ ڈرون حملوں کے خلاف جدوجہد کا مذاق، مضحکہ خیز تحریروں میں ایسی تضحیک اور ایسی تحقیرکیوں؟
میرے محترم ڈاکٹر سعید الٰہی جو اخلاق کا درس دیتے دیتے ایسی بدزبانی اور بدکلامی جو (ن) لیگ کا ہی شعار رہی ہے ان کی ہی بحر پر مصرعہ عرض ہے کہ 18 کروڑ لوگوں نے کنویں سے گند کو نکالنے کا عزم کر رکھا ہے اور وطن عزیزکو پاکیزہ کرنے کا بھی۔حیرت کہ اپنی قیادت کی موجودگی میں کوڑنے مارنے نکلے ہیں حضور دور کی کوڑی لانے کی کیا ضرورت۔ آپ کی قیادت کی داستانیں ہر زبانِ خاص و عام ہیں۔ قصے بین الاقوامی کتابوں کی زینت۔ اس سے زیادہ میں متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاستدانوں سے جب بھی ملک کو پہنچنے والے نقصان کا حساب مانگا جاتا ہے تو ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ قوم شادیوں اور دوستیوں کا نہیں اپنے ساتھ ہونیوالے جرائم کا حساب چاہتی ہے۔
کان کھول کر سن لیں قوم اپنا مقد ر PPP اور ن لیگ کی پنگ پانگ کی مزید نذر نہیں کر سکتی۔حضور لیپ ٹاپ، یوتھ فیسٹیول اور عدلِ جہانگیری کے ڈراموں کا وقت لد گیا۔ ایک سوال جواب طلب، اقتدار کے ان 4 سالوں میں جب شریف زرداری ایک دوسرے کو جپھی ڈالے ہوئے تھے تو ہماری یوتھ لیپ ٹاپ اور فیسٹیول سے کس مد میں محروم رہی۔ جھوٹ کا ڈھنڈورااس طرح پیٹا جا رہا ہے کہ ڈھنگ کے کسی موضوع پر بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں بن پا رہی۔کیا قومی رہنما اور ان کے مقلد گونگے اور بہرے ہی رہیں گے اور اب سیاسی جنونیت بھی ایک مسلک ہو گی۔
حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں نواز شریف صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے ایجنسیوں سے یا کسی بھی مد میں رقم پکڑی جبکہ چند ماہ پہلے محترم قاسمی صاحب نے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں شامی صاحب اور چند دیگر صحافی شریک تھے موقع اور مناسبت کے عین مطابق موضوعِ گفتگو عمران خان تھے اور میاں صاحب پوری شدومد سے ان کو ایجنسیوں کا کل پرزہ بنانے پہ تلے تھے ۔ایک دانشور نے سوال داغا حضور آپ اتنے اعتماد سے یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں، میاں صاحب نے جواب دیا ہم سے یہ کام لیا جاتا رہا ہے اور رقوم بھی خود چل کر آتی رہیں،گو کہ حقیر۔ ایک سینئر صحافی اپنے اخبار میں یہ واقعہ لکھ چکے ہیں اور اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ مطالبہ جائز نہیں کہ تحقیقاتی ایجنسیاں اس دعوت ِشیراز کے تمام شرکاء سے بیانِ حلفی لیں؟
میاں صاحب اپنے چاہنے والوں کو بتا دیں کہ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا تھا۔ یاد رہے کہ عمران خان کا کھلے عام چیلنج موجود ہے کہ اگر آپ ان کی سیاست میں ایجنسیوں کے رول یا پیسے کی آمد ثابت کر دیں تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ چونکہ خان صاحب کی سیاست آپ کے لئے اور آپ کے لکھاریوں کے لئے سوہانِ روح بن چکی ہے بہترین موقع ہے ان کے مکو ٹھپنے کا اور اپنے اخلاق و کردار کو مزید داؤ پر نہ لگانے کا ۔جہاں ن لیگ عمران خان کی اصلیت کو سامنے لائے وہاں اپنے لئے ایسا ہی چیلنج تجویز کرے کہ سچ قاسمی صاحب کے دفتر والا تھا یا جھوٹ کیپٹل ٹاک میں بولا گیا۔ مولانا رومی سے کسی نے پوچھا کہ قومیں کیسے تباہ ہوتی ہیں انہوں نے جواب دیا جب اچھے اور برے کی تمیز ختم کر بیٹھیں۔ یہ اصغر خان کیس ن لیگ کے لئے جان لیوا ثابت ہوچکا اور لواحقین کی زیست پر بھاری۔ ایسی پکڑائی کو حسنِ اتفاق ہی کہئے وگرنہ میں اپنے سے شرط ہار چکا تھا کہ ہمارے سیاستدان اس جہاں میں نہیں پکڑے جا سکتے۔
مجھے ایک شریف کے کالم میں ن لیگ کیلئے تعریفی نوٹ اچھا لگا کہ جب سپریم کورٹ کے فیصلے کو چوہدری نثار نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایف آئی اے سے تحقیق کے عدالتی حکم کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا اور لیگی ترجمان کے یو این سے تفتیش کے نعرہ مستانہ کے بعد حسب ِمعمول یوٹرن واقعی ن لیگ کی پرکاری اور بہترین منصوبہ بندی ہی کے زمرے میں آئے گا۔ایک صلاحیت عیاں ہوئی عوامی ردعمل اور شوروغوغا کے نتیجے میں جاں بلب ہو تو رائے عامہ کی رو اور سمت میں بہنا شروع کر دو۔ وگرنہ نقارخانے میں تو عوام بیچارے کی آواز طوطی سے کچھ زیادہ ہی نحیف۔ ہمیں اعتراف چاہئے،آپ اپنی سیاست کیلئے ISI سے پیسے پکڑتے رہے؟ویسے توہر گل اورسارا باغ واقفِ حال ہے سچ اور اعتراف آپ کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ اس پیسے کے عوض آپ نے جتنی خدمت کرنی تھی کر لی آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو چکے اب قوم سچ سننے کی آرزومند۔ ایسی ایک خواہش کو پذیرائی بخشیں۔ پیسے لئے تھے،جی ہاں!
یا اہل ِسیاست !آپکے ہاتھ کی لکیریں مٹ چکیں آپ تقدیرکی آہنی گرفت میں آ چکے۔ ملک بچتا ہے تو آپ نہیں بچتے آپ بچتے ہیں تو ملک نہیں بچتا۔اب اقتدار آپ کے قریب پھٹکنے کا نہیں۔رحم، رحم ،جاتے جاتے معمولی رقومات کا حساب دیتے جائیں۔ فخرو بھائی بھی کراہ رہے ہیں۔ اصغرخان کیس فیصلہ‘ آپ کے سروں پر لٹکتی ننگی تلوار ۔
تازہ ترین