• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ادوار سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ ایک حکومت کے سبکدوش ہونے کے بعد آنے والی سرکار کو گردشی قرضوں کاسامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے بجلی کے شعبے میں ہر بار ایک نیا بحران سراٹھاتا ہے 2013میں مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالتے ہی صارفین کو ریلیف دینے کےلئے سابقہ گردشی قرضے ختم کئےلیکن 2018میں پھر انہی حالات کاسامنا ہے اوراس مرتبہ ان قرضوں کاحجم تقریباً دوگنا ہے۔لوڈشیڈنگ کی حالیہ صورتحال میں بڑا عنصر اسی کیفیت کے باعث پیدا ہوا اس وقت گردشی قرضوں کاحجم10اعشاریہ004کھرب ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔حکام کے بقول اگر ان حالات میں بجلی کی پیداوار بڑھائی جاتی ہے تو یہ قرضے مزید بڑھیں گے دوسری صورت میں بجلی کے بحران کی موجودہ کیفیت نہ صرف برقرار رہ سکتی ہے بلکہ جولائی اگست میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔تیسری صورت یہ بتائی جارہی ہے کہ یہ قرضے صارفین سے 150ارب روپے ماہانہ کے حساب سے بجلی کے بلوں کی مد میں وصول کئے جائیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق بجلی کے بلوں کی وصولی میں ناقص کارکردگی کے سبب113ارب روپے سالانہ کاخسارہ ہورہاہے۔واپڈا حکام کے مطابق رمضان المبارک میں سحروافطار کے اوقات میں سخت خسارے والے فیڈروں سے بھی صارفین کو بجلی فراہم کرنا پڑی جس کے سبب آنے والے دنوں میں یہ قرضے مزید بڑھیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال18-2017جو30جون کو اپنی معیاد پوری کررہا ہے اس کے ابتدائی 9ماہ میں60ارب روپے کی بجلی چوری کی گئی اور30جون تک یہ خسارہ85سے90ارب روپے تک پہنچ جائے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان خامیوں کاپتہ لگایا جائے جن کی وجہ سے قانون کے نفاذ میں مشکل پیش آرہی ہے اگر ضرورت پڑے توقانون میں تبدیلی بھی لائی جاسکتی ہے۔باقاعدگی اورایمانداری کے ساتھ بجلی استعمال کرکے بل ادا کرنے والے تنخواہ دار اورمہنگائی کے مارے عوام پر دوسروں کی غلطیوں کابوجھ نہ ڈالا جائے۔

تازہ ترین