• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں اپنے حکمرانوں میں تین خوبیاں چاہئیں، سادگی، ایمانداری اور اہلیت۔ ہمیں ایک ایسا حکمران چاہئے جس کے پاس شلوار قمیض کے دو جوڑے ہوں، وہ آٹھ سو سی سی کی گاڑی میں سفر کرے، راہ چلتے لوگوں کو کسی بازار میں فروٹ چاٹ کھاتا ہوا مل جائے، پانچ مرلے کے فلیٹ میں رہتا ہو، اس کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہوں، اس کا بھائی کسی پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتا ہو، ہمارا حکمران جب غیر ملکی دورے پر جائے تو غیر ملکی اخبارات اس کے پھٹے ہوئے کوٹ کی تصاویر شائع کریں اور اس کی سادگی پر ادارئیے لکھے جائیں۔ اس کی ایمانداری کا یہ عالم ہو کہ سرکاری خزانے سے چائے پینا بھی حرام سمجھتا ہو، ذاتی کام کےلئے اس کے گھر والے رکشے میں سفر کرتے ہوں، دوران کار سرکار جب کوئی ذاتی فون سننا پڑجائے تو وہ بتیاں اور پنکھے بند کر دے، وہ ہر سال پورا ٹیکس جمع کرواتا ہو، اپنے اثاثے ایمانداری سے ظاہر کرتا ہو، اس کی کوئی بیرون ملک جائیداد نہ ہو اور جب وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو تو گھر جانے کےلئے رکشے کا کرایہ بھی جیب میں نہ ہو۔ ایمانداری اور سادگی کے ساتھ ساتھ اس میں بلا کی اہلیت بھی ہو، وہ جس کام کو شروع کرے اسے بہترین انداز میں انجام تک پہنچائے، خارجہ پالیسی ایسی تشکیل دے کہ بھارت کی چیخیں نکل جائیں، امریکہ پاکستان کےلئے ویزے کی شرط ختم کر دے اور یورپین یونین ہمیں شنجن ممالک میں شامل کرلے، اقتصادی پالیسی ایسی بنائے کہ پٹرول بیس روپے لیٹر ہو جائے اور ڈالر پچاس روپے کا، کالا باغ ڈیم یوں بنائے کہ سندھی، بلوچی، پٹھان کسی کو بھی اعتراض نہ ہو، بجلی اتنی پیدا کرے کہ ہم بھارت کو ایکسپورٹ کر سکیں، انصاف کا ایسا آئیڈیل نظام بنا دے کہ تمام مقدمات تین ماہ میں ختم ہو جائیں اور جیلوں سے تمام بے گناہ باہر نکل آئیں اور قانون کی عملداری کا ملک میں یہ عالم کر دے کہ کوئی طاقتور سے طاقتور شخص بھی قانون کے شکنجے سے نہ بچ سکے ۔
دراصل یہ ہماری خواہشیں نہیں بلکہ ایک خواب ہے، قرون اولیٰ کے ایک ایسے حکمران کا خواب جو شاید کبھی ہمیں نصیب ہو جائے، گھوڑے پر سوار ایک جری جوان ہو، جس کے ہاتھ میں تلوار ہو، تمام برائیوں کا قلع قمع کرنے کے بعد وہ پیاز کے ساتھ سوکھی روٹی کھائے اور مسجد کے ننگے فرش پر سو جائے۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ ہم ایسے حکمران کا خواب تو دیکھتے ہیں جو سادگی اور ایمانداری کے پتلے ہوں مگر خود پر یہ کڑا معیار لاگو کرنے کےلئے تیار نہیں۔ دنیا کی ہر بے ایمانی ایجاد کرنے کے بعد ہماری خواہش ہے کہ ہمارے حکمران البتہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓجیسے ہوں، خود اٹھ کر اپنے لیے چائے کی پیالی بنانا ہم توہین سمجھتے ہیں مگر حکمرانوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ رکشے میں سفر کریں، بجلی کے کھمبوں پر کنڈے ڈالنے کے بعد ہم بین ڈالتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور اپنے علاقے کے ایس ایچ او کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران امریکہ کو للکار سکیں کریں گے لیکن یہ ہماری منافقت کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو اس سے بھی روشن ہے۔ ہماری سیاست میں جو دوچار لوگ سادگی کے نسخے پر عمل کرتے ہیں ان کے ساتھ ہم کیا سلوک کرتے ہیں۔ ایک صاحب کو تو میں جانتا ہوں ، کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں، سوائے تنخواہ کے کوئی ذریعہ آمدن نہیں، ایک گاڑی رکھی ہے جس میں وہ ہر جگہ آتے جاتے ہیں، کوئی ڈرائیور گن مین یا باڈی گارڈ کبھی ان کے ساتھ نہیں ہوتا، اکثر خود اپنی گاڑی چلا کر گھومتے ہیں، ایمانداری کا عالم یہ کہ سرکار کے ایک پیسے کے روادار نہیں مگر ان تمام باتوں کے باوجود کسی نے ان کے سر پر سونے کا تاج نہیںسجایا، الٹا انہوں نے وہ صعوبتیں برداشت کیں جن کا تصور کرکے کوئی فولادی شخص بھی کانپ اٹھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو یورپین لیڈران کی ویڈیوز، جن میں وہ ٹیکسی میں سفر کرتے نظر آتے ہیں اور فرش کی صفائی کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو بھیجتے ہیں کہ دیکھو ایسے ہوتے ہیں حکمران، مگر ہمارا کوئی سیاست دان اگر کہیں ٹیکسی چلاتا ’’پکڑا‘‘ جائے تو اس کا مذاق اڑانے سے نہیں چوکتے۔
دراصل ہماری سوسائٹی سادگی پسند نہیں ہے، ہم اپنے بچے کا رشتہ بھی کرتے ہیں تو ایسی فیملی میں جو دیکھنے میں بھی صاحب حیثیت نظر آئے، گھر بار ٹھیک ٹھاک ہو، اچھی گاڑی ہو، بنگلہ ہو، بہن بھائی تگڑے ہوں اور یہ کوئی ایسی معیوب بات بھی نہیں۔ اسی طرح حکمرانوں کے بارے میں ہم خواہش تو ضرور کرتے ہیں کہ وہ اینٹ کا تکیہ بنا کر مسجد کے فرش پر سویا کریں مگر حقیقت میں کوئی سادہ حکمران کبھی ہمیں پسند نہیں آیا۔ جناح صاحب جیسا ارسٹوکریٹ کسی ماں نے نہیں جنا اور وہ ہمارے قائد اعظم ہیں اور بجا طور پر ہیں۔ کچھ سادہ وزرائے اعظم اور وزیر اعلی بھی ہم نے دیکھے مگر ان سب کا ہم نے ’’توا‘‘ ہی لگایا، کبھی انہیں سیریس نہیں لیا۔ مغربی حکمرانوں کی ویڈیوز جن میں ان کی سادگی کے نمونے دکھائے ہوتے ہیں ہمیں اس لئے مسحور کرتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ یہ حکمران بھی ہمارے ہی جیسے ہیں اسی لیے یہ ویڈیوز ان ممالک میں بھی شوق سے ہی شئیر کی جاتی ہیں جہاں سادگی کا چلن عام ہے۔
ایک مغالطہ ہمیں یہ بھی ہے کہ امریکہ اور مغرب میں ارب پتی لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں اس لئے ان کے سیاست دان بھی سادگی پسند ہیں، اس مغالطے کی وجہ ان دوچار ارب پتیوں کا طرز زندگی ہے جن کے قصے ہم نے سن رکھے ہیں جیسے بل گیٹس اور وارن بفے۔ دراصل امریکہ میں امرا کے دو طبقے ہیں، ایک وہ جو دولتمند ہیں اور دوسرے وہ جو کھرب پتی ہیں، دولتمند طبقہ اچھے مہنگے گھروں میں رہتاہے، برینڈڈ چیزیں خریدتا ہے ، یہ لوگ چھٹیاں گزارنے یورپ جاتے ہیں، عالیشان ہوٹلوں میں رہتے ہیں، مگر اپنا کام خود کرتے ہیں، آپ انہیں ائیر پورٹ پر اپنا سامان خود اٹھاتے دیکھیں گے، عام آدمی کی طرح قطار میں کھڑا دیکھیں گے، اپنے گھروں میں بھی زیادہ تر کام یہ اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں، اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں، گھر کا سامان خود لاتے ہیں، مہمانوں کے لئے کھانا خود پکاتے ہیں، مگر کھرب پتی طبقے کا لائف سٹائل بالکل مختلف ہے۔ یہ لوگ امریکہ میں آپ کو کسی ریستوران میں نظر نہیں آئیںگے، کسی ہوٹل میں نظر نہیں آئیں گے، کسی ائیر پورٹ میں قطار میں کھڑے دکھائی نہیں دیں گے، کسی برینڈڈ شاپ پر نظر نہیں آئیں گے۔ ان کے اپنے محلات ہیں جہاں پارٹیاں ہوتی ہیں، وہاں صرف ان کی کلاس کے لوگ شرکت کرتے ہیں، یہ لوگ جو کپڑے پہنتے ہیں وہ برینڈڈ دکانوں پر نہیں ملتے بلکہ ان کے مخصوص ڈیزائنر ہوتے ہیں، کوئی سویٹزر لینڈ میں ان کا سوٹ ڈیزائن کرتا ہے اور کوئی اٹلی سے جہاز میں بیٹھ کر ان کے گھر آتا ہے اور ان کا جوتا ڈیزائن کرکے واپس چلا جاتا ہے، ائیر پورٹ پر ان کے پرائیویٹ جیٹ ہوتے ہیں جو ان کے ہینگر پر کھڑے ہوتے ہیں، یہ وہیں سے نکلتے ہیں اور عام آدمی کی نظروں سے اوجھل ہو کر اپنے جہاز میں سوار ہو جاتے ہیں ۔
سو اگلی مرتبہ جب آپ کو کوئی دوست کسی مغربی حکمران کی کوئی ایسی ویڈیو بھیجے جس میں وہ جھاڑو لگاتا ہوا دکھائی دے رہا ہو تو اس سے یہ ضرور پوچھیں کہ آخری مرتبہ خود اس نے اپنے گھر میں جھاڑو کب لگائی تھی اور آخری مرتبہ ایسے کسی سادگی پسند سیاست دان کو اس نے ووٹ کب دیا تھا! جواب آئے گا’’یا منافقت تیرا ہی آسرا ہے !‘

تازہ ترین