• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

22مئی کے ’’آئین نو‘‘۔ ’’امل تاس کے پیلے پھولوں کا پیغام‘‘ میں امل تاسی پیڑوں سے نکلتی بکھرتی سحر انگیز خوشبو میں بسی نئی رت کے پڑھے پیغام کو عام کیا گیا، احتسابی عمل میں نیب کی کچہریاں بھگتتے خواص کی اسیری میں آئے نئے چھوٹے بیچارے پریشان ہوگئے لیکن جھڑے پھولوں کے بعد اب ’’تریاق‘‘ کی تیاری کا ارتقاء تو ہوگا۔ روک سکو تو روک لو۔ یہ روکنے کا نہیں پڑھنے اور سمجھنے کا ساماں ہے، جس کے لئے ذہن کی وسعت اور سکت درکار ہے جو دربار میں ہدایت سے نہیں درختوں سے باتیں کرتے ملتی ہے۔ بیچارہ سادہ جاٹ تو جھڑے پھولوں کو عارضی بہار سمجھ کر سال بھر درختوں پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ حالانکہ گرتے پیلے پھول ان گنت ہلکے ہرے بال پیچھے چھوڑ گئے جو گہرے سبز ہو کر کتھئی اور پھر سیاہی مائل پھلیاں بنیں گے۔ جن میں میٹھا تریاق اور بیج ہوں گے۔ املتاسی تریاق میں درجنوں امراض کا علاج اور بیج پھر مٹی میں مل کر گل و گلزار ہوگا۔ نئے نکور درخت، پھول اورپھل، خوشبو اور تریاق دیں گے۔ ہے نا امل تاس میڈیسن ٹری اس پر لپٹا کیسا سرکل ہے۔ سبحان اللہ عقل و ایمان والوں کے لئے ایک درخت کے ہی اس ارتقائی عمل میں کتنی نشانیاں ہیں کہ وہ شان خالق کو سمجھ پائیں اور دیکھا نہیں۔ کیسے ؟ پاکستان کی بدترین جمہوریت میں سے بھی حقیقی جمہوریت کا لازمہ، قارون بنے حکام کا بے رحم احتسابی عمل نکلا۔ قدرت کی تدبیر کی کیسی علامت ہے؟
واہ واہ! پیر ادب و صحافت، حضرت محمود شام نے درختوں کے حسن و جمال، ان کے سکون بخش دیدار، پھر تہذیب و امن و ترقی سے ان (درختوں) کے گہرے رشتوں پر کتنا حسین زاویہ نگاہ پیش کیا ہے۔ اتنا کہ اسٹیٹس کو (نظام بد) پر مسلسل کدال چلاتے قلم مزدوروں کی تھکان دور ہوگئی۔ ان کا 7جون کو جنگ میں ’’بزرگوں کا سایہ درختوں کی چھائوں‘‘ کے عنوان سے درختوں کی اہمیت کو واضح کرتی قرآنی آیت (سورۃ النخل) سے شروع ہونے والا مانند شجر یہ کالم اشجار اور ایسے ہی دوسرے سامان ہائے فطرت پر لکھی کتنی تحریروں پر حاوی ہے۔ حوالے بھی اتنے ہی حسین۔ مجھے ولیم بلیک کا خواب لگا۔ جو کہتا ہے۔
’’ایک احمق پیڑ کو اس طرح نہیں دیکھتا، جس طرح ایک دانا دیکھتا ہے‘‘۔ ہزاروں برس کی انسانی زندگی کا ایک بڑا حاصل راز ہائے فطرت کو پانے کی جستجو کا حاصل ہوتا ہے، جو انسان کی مطلوب فلاح کا ذریعہ بنتا ہے۔ گہرا مطالعہ و مشاہدہ، تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) منزل انسانیت کا حسین روڈ میپ ہے۔ سو، دنیاوی جھمیلوں سے آزادی کی آرزو کے شاعرانہ اظہار میں بھی اقبال گل و شجر کی رفاقت سے باز نہیں آئے۔
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
اقبال اسی فطری ماحول سے آفاقیت تلاش کرنے کا ماہر ٹھہرا ہے، جیسے بلھے شاہ مچھلیوں اور مینڈکوں تک میں خدا کی قدرت پاتا ہے۔ گمان غالب ہے اور دل کی صدا بھی کہ اگر پاکستانی قوم جنگلات، باغات، پارکس، کیاریوں اور ذخیرہ ہائے آب سے دوستی کرلے تو یہ کرپشن، ہوس اقتدار، علاقائی تعصبات اور معاشرے میں بلاحاصل نمایاں ہونے کے عذاب العظیم سے نجات پا لے گی۔ شام صاحب نے درخت کی شان اور انسان دوستی کے جتنے اور جتنے خوبصورت حوالے نکالے ہیں، ہمارے بنجر ہوتے معاشرے کے مختلف النوع ابلاغ میں ان کی تکرار تواتر سے ہوتی رہنی چاہئے تاآنکہ ہمارے بچے درختوں کے عشق میں مبتلا ہوجائیں۔ وقت دور نہیں ان شاء اللہ ان کا جنون ہی پاکستان کو سرسبز و شاداب،اور جیسا آباد مطلوب ہے، کرے گا۔
ادھر عمران خان سیاسی و سماجی اور حکومتی رت تبدیل کرنے پر ہی نہیں تلے ہوئے، تحریک انصاف نے الیکشن 13میں ملک بھر میں ایک ارب درخت لگانے کا جو سیاسی عزم باندھا تھا، ملک گیر سطح پر تو بوجوہ حقیقی عمل میں نہ ڈھل پایا لیکن خیبرپختونخوا میں اس کا آغازبلند حوصلہ اور بمطابق کمٹمینٹ ہوا تو سہی،۔ لیکن کہیں بڑھ کر تنقید اور پروپیگنڈہ۔ پھر بھی ’’عمران ٹری مشن‘‘ ان شاء اللہ Sustainableہوئے ہوئے۔ اگر ہونے والے الیکشن میں دوسری جماعتوں کے منشور میں شجر کاری کے حوالے سے کچھ شامل ہوا تو آغاز خیر کے ساتھ ساتھ تقلید کا پورا نہیں تو نصف کریڈٹ تو خان صاحب ہی لیں گے کہ تحریک انصاف کے منشور میں ’’ٹری مشن‘‘ کا نکتہ خالصتاً ان کے اپنے ذہن کی اختراع اور پرسنل کمٹمینٹ ہے جو قومی ایجنڈا بننے کو ہے، جسے روبہ عمل لانے کے لئے کالا باغ او ربڑے چھوٹے ڈیمز اور مزید نہری سلسلے اور زراعت میںملک گیر سطح پر سپرنگلر (فواروں سے فصلوں پر شاور) ٹیکنالوجی کی اختیاریت لازم ہوگی۔
امر واقعہ یہ نہیں؟ کہ، بظاہر آج کی جادو بھری باکمال ترقی کے ساتھ ساڑھے سات ارب کی عالمی آبادی میں ساڑھے تین ارب کی آبادی غربت کا شکار ہے۔ 3ارب غرباء پر مشتمل آبادی کی فی کس آمدن 2.50ڈالر یومیہ جبکہ 1.3ارب غریب ترین آبادی کی فی کس یومیہ اوسط آمدن فقط 1.25ڈالر ہے۔
بندوق، نیشن اسٹیٹ، جدید حکومت و سیاست، اقوام متحدہ جمہوریت کے ٹرمپ اور مودی ماڈلز اور برصغیر میں سیاسی خاندانوں کی اقتدار پر اجارہ داری کے زور پر قائم جمہوریتیں انسانیت کے دکھ سمیٹنے میں بری طرح ناکام نہیں ہوئیں؟ اب کھوئے اور کھوئے چلے جاتے فطری ماحول کی بحالی اور نگہبانی سے حاصل دانش ہی دکھوں کا علاج معلوم نہیں دیتی؟ صرف نگہبانی نہیں، اس کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ اس سے حاصل دانش اور اس کی جلاء اور غلبہ۔ بیمار پاکستان میں امل تاس کے پھولوں کی مسحور کن مہک اور اس سے تیار شیریں تریاق سے وحشت میں تبدیل ہوتی جو مایوسی پھیلی ہے، وہ پتہ دے رہی ہے کہ سیاست و حکومت کے تاجروں کی تیار کردہ سماجی و سیاسی پسماندگی کا بت پاش پاش ہونے کو ہے، جیسے دیوار برلن کے انہدام سے پہلے کا کلاس لیس سوسائٹی کے فریب میں لاکھوں مکاروں اور کروڑہا سادہ، بے گناہوں اور مظلوموں کو مبتلا کرنے والی کشور کشائی ڈھیر ہوگئی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانو! اللہ کی شان ملاحظہ ہو، ہمارے جو ترقی پسند، سرد جنگ کے 4عشروں میںآئرن کرٹن کے جس جہنم کو ترقی و انصاف کے مرکز و محور ہونے کا یقین دلاتے رہے، اب وہ فسطائیت کا مفہوم سمجھنے کے لئے اسی دور میں اسیران اشتراکیت کی صورت وہاں کے مظلوم و مقہور شاعروں اور ادیبوں پر طاری جبر و خوف کی کہانیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا تو کب اوڑھا جب بھارت کے سیکولرازم کو مودی کے ’’ہندوتوا‘‘ نے ٹھکانے لگا دیا اور آکوپائی وال اسٹریٹ موومنٹ، چلی سپرے کر کر کے کرش کردی گئی۔ اپنے انقلابی تحریر و کلام کو کیسے بھلا کر انہوں نے ملوکیت کے دفاع میں اپنی تلواریں کیسے سونت لیں؟ لیکن پاکستان امل تاس میں بس کر بحالی صحت کے عمل میں آگیا۔ روک سکو تو روک لو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین