• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سردار اختر مینگل نے بلوچستان کا بحران حل کرنے کیلئے جو چھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس میں ایک ساتواں نکتہ بھی شامل کر لیتے یا نکات چھ ہی رکھنے تھے تو پانچویں نکتے میں یہ مطالبہ بھی شامل کر لیتے کہ بلوچستان میں آبادکاروں کے قتل اور ایک لاکھ سے زائد کو اپنی جائیدادیں اونے پونے داموں بیچ کر وہاں سے چلے جانے پر مجبور کرنے کے ذمہ دار افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ کیونکہ قتل کسی کا بھی ہو قتل ہی ہوتا ہے اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی شہید سمیت تمام انسان دوست بلوچ رہنماؤں بزرگوں اور سیاسی پارٹیوں نے اس کی مذمت کی اور اسے بلوچستان اور اس کے کاز کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔ دنیا کے ہر ملک میں دوسری جگہوں سے آنے والے آبادکار موجود اور اس کے سودو زیاں میں شریک ہیں۔ امریکہ تو سارے کا سارا یورپی آباد کاروں کا ملک ہے۔ برصغیر میں وسط ایشیا افغانستان ایران ترکی اور عرب ممالک سے جنگی مہم جوئی تجارت یا تبلیغ کیلئے آنے والے لشکروں اور قافلوں میں شامل کتنے ہی لوگ تھے جو مستقل طور پر یہیں آباد ہو گئے۔بلوچ محققین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ بلوچوں کے آباؤ اجداد شام کے پہاڑوں یا بابل کے رہگزاروں سے نکل کر اپنے اور مال مویشیوں کے رزق کے بہتر وسائل کی تلاش میں ایران سے ہوتے ہوئے اس خطے میں پہنچے جو آج بلوچستان کے نام سے پہچانا جاتا ہے یہاں کے مقامی کول اور درادڑ باشندے ان کے مقابلے کی تاب نہ لا کر جنوبی ہندوستان کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ ہزاروں سال یہاں رہنے کی وجہ سے اب یہ سرزمین بلا شرکت غیرے بلوچوں کی ہے اوراس پر حکمرانی اور اس کے ساحل و وسائل پر اختیار بھی بلوچوں ہی کا ہے۔ آبادکاروں کا جو خود کو پنجابی سندھی یا کسی دوسری قومیت کی بجائے خود کو بلوچستانی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں بلوچوں سے کوئی جھگڑا نہیں۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بلوچستان میں آپس کی لڑائیوں یا بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کے دوران اپنے گھروں سے بے دخل ہونے یا بودوباش کے بہتر مواقع کی تلاش میں نکلنے والے بلوچوں نے بھی پنجاب سندھ یا دوسرے علاقوں کا رخ کیا تو وہیں کے ہو کر رہ گئے، ایک اندازے کے مطابق آج صرف پنجاب میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد بلوچ موجود ہیں۔ یہ صرف ڈیرہ غازی خان بھکر کشمور اور ان علاقوں میں نہیں رہتے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بلوچستان کا حصہ ہیں بلکہ ان دور دراز قصبوں اور دیہات میں بھی آباد ہیں جو خالصتاً دوسری نسلی اکائیوں کے علاقے ہیں انہیں نہ صرف وہاں مکمل سماجی تحفظ حاصل ہے بلکہ وہ تجارت اور سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں عزت اور وقار کے ساتھ اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔بلوچ قومی ہیرو میر چاکر رند کا مقبرہ ست گڑھ (اوکاڑہ) میں ہے اور محکمہ اوقاف پنجاب اس کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ سندھ میں بھی تقریباً 80لاکھ بلوچ آباد ہیں۔پنجاب سندھ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر سے روزگار کیلئے یا تقسیم ہند کے وقت بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے اردو دان تہذیب و معاشرت کے ایسے دور میں بلوچستان پہنچے جب مقامی آبادی پر باہر سے آئے ہوئے آباد کاروں کے غلبے کا ہزاروں سال پرانا نظریہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ شعور و آگہی کے اس دور میں اب کوئی نسلی یا لسانی گروہ کسی دوسرے کی سرزمین پر زور زبردستی سے اپنا سکہ نہیں جما سکتا۔ کوئٹہ اور اندرون بلوچستان زیادہ تر سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین ڈاکٹر انجینئر اور اساتذہ تعینات تھے یا تجارت پیشہ لوگ ٹھیکیدار مستری مزدور بیکری ورکرز کان کن حجام دھوبی تندورچی اور موچی وغیرہ لوگوں کی خدمت کر کے اپنے اور بیوی بچوں کیلئے روزی کما رہے تھے۔ ان میں سے بعض کے آباؤ اجداد سوڈیڑھ سو سال یا اس سے بھی پہلے یہاں آئے اور رفتہ رفتہ مقامی لوگوں میں گھل مل گئے۔ ان سے ان کی رشتہ داریاں بھی قائم ہو گئیں۔ حقوق و اختیارات کے حصول کی جدوجہد میں انہوں نے ہمیشہ بلوچوں اور پشتونوں کا ساتھ دیا اور انہی کی مدد اور حمایت سے اپنے مسائل بھی حل کراتے رہے۔ کبھی اپنا الگ تشخص قائم کرنے کی خواہش نہیں کی۔ بعض ان کی سیاسی پارٹیوں میں بھی شامل ہوئے اور ان کے ٹکٹ پر سینٹ اور اسمبلیوں تک پہنچے۔ ان میں سینیٹرزمرد حسین مرحوم سینیٹر سعید ہاشمی سینیٹر سید فصیح اقبال ایم اپی اے سیف اللہ پراچہ شفیق احمد خان طاہر محمود اور اسماعیل گجر کے نام نمایاں ہیں۔ سینٹ اور اسمبلیوں میں ان حضرات نے ہمیشہ بلوچستان کا مسئلہ اٹھایا اور بلوچستان ہی کی سیاست کی۔ آبادکاروں کے سیاسی لیڈر اور کارکن بلوچ قوم پرست پارٹیوں میں بھی شامل رہے۔ اور بعض ا ب بھی انہی کا حصہ ہیں۔بلوچ مزاحمت کاروں نے نواب اکبر بگٹی کی شہادت سے بہت پہلے کوئٹہ میں آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ابتداء میں ان کا نشانہ صرف پنجابی تھے۔ مقصد یقینااسلام آباد کی مقتدرہ جس پر پنجابی اشرافیہ کا غلبہ ہے کی توجہ بلوچستان کے مسائل عوام کے حقوق اور محرومیوں کی طرف دلانا تھا۔ کیونکہ حکمرانوں پر پرامن سیاسی جدوجہد کا خاطر خواہ اثر نہیں ہو رہا تھا۔ بعد میں دوسرے آباد کار سکیورٹی فورسز اور حساس تنصیبات کو بھی انہوں نے اپنی ہٹ لسٹ میں شامل کر لیا اور اپنی مہم کا دائرہ کار اندرونی بلوچ علاقوں تک پھیلا دیا۔ اس کے نتیجے میں اساتذہ ڈاکٹر کاروباری لوگ اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہنرمند اپنی ملازمتیں یا کام چھوڑ کر چلے گئے۔ اس سے بلوچستان کو خصوصاً تعلیم صحت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں شدید نقصان پہنچا۔ جس کا ذکر قوم پرست سیاسی قائدین خود بھی اکثر کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان سے چلے جانیوالوں میں سے بیشتر کو اب اپنے آبائی علاقوں کی پہچان بھی نہیں بعض کے رشتہ دار انہیں اپناتے نہیں۔ اپنالیں تو بھی اجڑے گھرانوں کو کاروبار زندگی نئے سرے سے استوار کرنے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جنکا کوئی آگے ہے نہ پیچھے وہ کوئٹہ اور بعض دوسرے علاقوں میں ہی ٹھہر گئے ہیں اور بے یقینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ البتہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ جہاں کچھ لوگ ان کی تاک میں بیٹھے ہیں وہاں بلوچوں کی بڑی اکثریت انہیں تحفظ بھی دے رہی ہے۔ پشتون بھی ان کے خیرخواہ ہیں اسلئے انہوں نے اپنا مستقبل بلوچستان سے ہی وابستہ کر لیا ہے۔ اب ان کا جینا اور مرنا بلوچستان کے ساتھ ہے۔
تازہ ترین