حال ہی میں امریکا میں اسلام مخالف فلم بنائی گئی، جس میں حضرت محمد کی شان میں گستاخی کی گئی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس واقعے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اس واقعے کے خلاف احتجاج کے دوران کئی افراد مارے گئے مگر اس سب کے باوجود اپنی طاقت کے نشہ میں مست امریکا نے دنیا بھر میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور نبی کی حرمت پر اس حملے کو نام نہاد آزادی رائے کا حق گردانا۔ مسلمانوں کو اپنے امریکا نواز حکمرانوں سے توقع تھی اور نہ ہی او آئی سی (Organisation of Islamic countries ) سے کوئی امید کہ وہ اس معاملہ پر کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں گے تا کہ مغربی دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلمان اپنے نبی کی شان میں گستاخی کو کسی بھی صورت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور یہ کہ ہولوکاسٹ کی طرح اسلامی عقائد اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات بالخصوص تمام انبیائے کرام کے بارے میں کسی بھی نوعیت کی گستاخی کو جرم قرار دیا جائے۔ مگر یہ سب کچھ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔ کئی مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے احتجاجی بیانات جاری کئے، اوآئی سی نے بھی اپنی کارروائی ڈالی مگر اسلامی دنیا کا وہ مشترکہ لائحہ عمل نہ بن سکا جس سے امریکا و مغرب کوایسی اسلام مخالف گستاخانہ سازشوں سے روکا جاتا۔ یہ سب ایک عام مسلمان کے لیے انتہائی مایوس کن صورتحال تھی۔ مگر میرے اللہ کی اپنی ہی پلاننگ ہوتی ہے۔ ہم مسلمان تو اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے مگر اپنے پیارے نبی کی حرمت پر حملہ پر ربّ العالمین کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ میرے رب کی طاقت کے سامنے کسی دنیاوی سپر پاور کی کیا حیثیت؟۔ نبی کی حرمت پر امریکی حملہ کے ہفتوں بعد ہی ”طاقت ور“ امریکا کو ایک ایسے سمندری طوفان نے آ لیا کہ کل تک فرعونیت کے نشہ میں دھت امریکا آج بے بسی اور لاچاری کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ چند دنوں میں بپھرے پانی اور ہوا نے امریکا کی وہ حالت کر دی کہ کوئی انسانی دماغ سوچ نہیں سکتا۔ تباہی ایسی ہولناک کہ کم از کم تیرہ امریکی ریاستوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے، زیر زمین ریلوے سسٹم اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گیا، کروڑوں افراد بجلی کی سہولت سے محروم ، بڑی تعداد اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئی جب کہ کھانے پینے کی اشیا کی کئی علاقوں میں شدید قلت ہو چکی۔ چار میٹر اونچی سمندری لہریں نیو یارک میں داخل ہوئیں، سینکڑوں مکانات تباہ اور درجنوں جل کر خاکستر ہو گئے۔ لا تعداد گاڑیاں، کشتیاں اور دوسری املاک کو شدید نقصان پہنچا جب کہ ایک درجن کے قریب ایٹمی پاور پلانٹ بند ہو گئے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق ”سینڈی“ طوفان سے امریکا کو تقریباً 60 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ کسی کو کوئی خبر نہیں کہ بحالی کے کام مین کتنا وقت لگے کا اور بے گھر افراد کب اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔پانی اور ہوا کے حملے نے امریکا کو ایسے بے بس کر دیا کہ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اس حملہ کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ امریکا کا ”بہترین“ دفاعی نظام، اس کی ”باصلاحیت“ فوج، اسلحہ کے انبار اوردنیا کے تمام ممکنہ اسباب کے باوجود کوئی پانی کو روک سکا نہ تیز ہوا کو۔ یہ بے بسی دیکھ کر ہی انسانی ہمدردی کی خاطر جماعة دعوة کے امیر حافظ محمد سعید نے امریکا کو مدد کی پیش کش کی ۔ حافظ صاحب جن کے سر کی قیمت خود امریکا نے کروڑوں ڈالر مقرر کی ہے اور جنہیں امریکا دہشتگرد سمجھتا ہے، نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکی حکومت اجازت دے تو وہ اپنے رضا کار، ڈاکٹرز، خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان امریکا بھجوانے کے لیے تیار ہیں ۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ نبیرحمت کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مصیبت میں پھنسے امریکیوں کی مدد کرنا اپنا اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ حافظ صاحب کے اس بیان کو مذاق یا طنز کے طور پر لے رہے ہیں مگر حافظ صاحب نے وہ کام کیا جس کی ہمیں اسلام تعلیم دیتا ہے۔اپنے بیان میں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی تنظیم نے 2004میں آنے والے سونامی کے موقع پر بھی انڈونیشیا اور سری لنکا میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔
انسانی ہمدردی کی خاطر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے دین کی تعلیمات کی روشنی میں مصیبت میں گھرے امریکیوں کی مدد کرنی چاہیے مگر کاش اس ”سینڈی“ طوفان کے سبق سے امریکا بھی کچھ سیکھ لے۔ اُس کے لیے تو آزادی رائے کی بہت اہمیت ہے مگر تمام جہانوں کے مالک کا وعدہ ہے کہ جس کسی نے بھی اللہ اور اُس کے پیارے رسول کو تکلیف دی ، وہ اللہ کے عذاب کا مستحق ٹھہرا ۔اپنے اُس نبی کریم کی شان میں گستاخی کو وہ ربّ العالمین کیسے برداشت کر سکتا ہے جس پر وہ (اللہ تعالٰی) خود اور اُس کے فرشتے درود اور سلام بھیجتے ہوں ۔ اللہ تعالٰی نے تو ہمیں قرآن کے ذریعے یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنے زمانوں کی طاقت ور مگر نافرمان قوموں کو سیلاب، تیز آندھیوں، زلزلوں اور پتھروں کی بارش سے تباہ و برباد کر کے دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔ کاش امریکا یہ سب سمجھ سکے۔