• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی طرف سے دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم بنانے پر پاکستان بھر میں تشویش پائی جارہی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ افسوسناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم بنانے پر پاکستان کے شواہد کو مسترد کردیا ۔ اس ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان کو 27فیصد پانی کی کمی سامنا کرنا پڑے گا بلکہ دیگر کئی مسائل بھی سر اٹھائیں گے۔ بھارت نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان کے پاس چونکہ کوئی آبی ذخیرہ نہیں، چنانچہ پاکستان یہ پانی ذخیرہ یا استعمال کئے بغیر ضائع کردیتا ہے، اس پر ایک بار پھر پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی جس پر کچھ لوگوں نے اعلیٰ عدلیہ سے بھی استدعا کی کہ وہ اس معاملے کو دیکھے۔ ہفتہ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے کالا باغ ڈیم پر عدالت کوئی بحث نہیں کرے گی، البتہ سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کرے گی۔ صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ پوری قوم بداعتمادی کی سزا بھگت رہی ہے، وعدہ کرتا ہوں ایسا کوئی حکم نہیں دیں گے جس سے کوئی فریق متاثر ہو اور نہ ہی خودنمائوں کو فریق بننے کی اجازت دیں گے۔ سپریم کورٹ وفاق کی علامت ہے، ہم یہاں جوڑنے کے لئے بیٹھے ہیں توڑنے کے لئے نہیں لیکن جہاں تنازع ہو اور چار بھائی متفق نہیں تو متبادل حل نکالنا ہوگا، قوم اختیار دے تو کردار ادا کرسکتے ہیں، چاہتے ہیں پانی کے بحران پر قابو پایا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے خیالات صد فیصد درست ہیں۔ یہ ہماری حرماں نصیبی ہے کہ کسی بھی اہم قومی نوعیت کے مسئلے پر سیاستدانوں میں اتفاق رائے دیکھنے میں نہیں آتا۔ آبی مسائل تو قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوگئے تھے، پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کشیدہ تر ہوئے تو ورلڈ بینک کی معاونت سے معاہدہ سندھ طاس ہوا لیکن پانی کے حوالے سے اندرونی مسائل کو در خور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ مسئلہ شدت اختیار کرتا چلا گیا اور اب صورتحال سب کے سامنے ہے کہ بھارت کشمیر سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں پر درجنوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر پاکستان کے حصے کا پانی اپنے تصرف میں لے آیاہے ۔ جہاں تک بات کالا باغ ڈیم کی ہے یہ ایک متنازع معاملہ بن چکا ہے جس پر بہت سے لوگوں کو بے شمار اعتراضات ہیں اور حق بات تو یہ ہے کہ ان تحفظات کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی گئی اور اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو معاملہ گھر کے لوگوں میں ہی حد درجے متنازع ہوجائے اس سے صرف نظر کرکے متبادل طرز عمل اپنانے میں ہی بھلائی ہے۔ دوسری صورت میں اگر مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرتے ہوئے اتفاق رائے ہوجائے تو یہ بہترین راہ عمل ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اگر اب بھی ہم نے اپنے آبی معاملات کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی تو اس کے ہمیں ایسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے جن کا تصور بھی محال ہے اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ پاکستان میں کوئی ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بھارت کو دھڑا دھڑ ڈیم بنانے کاموقع مل رہا ہے، پاکستان اس پر اعتراض کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ پاکستان خود اپنے دریائوں کا 34ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ سمندر کی نذر کردیتا ہے، آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اگر مزید بیس تیس ہزار کیوسک پانی روکنے میں کامیاب ہوگیا تو ہمارے کھیتوں کھلیانوں میں خاک اڑنے لگے گی، پینے کا پانی بہ آسانی دستیاب ہو گا نہ دیگر استعمال کا۔معاہدہ سندھ طاس کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں کی حالت ہمیں خبردار کررہی ہے کہ اس معاملے کا فوری حل نکالا جائے۔ سردست حل وہی ہے جو چیف جسٹس نے بتایا ہے کہ عدلیہ کالا باغ ڈیم پر کوئی بحث نہیں کرے گی،ڈیمز کے لئے آگے بڑھے گی۔ تجزیہ کار اور تکنیکی ماہرین کا بھی یہی موقف ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کی بجائے چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہئیں جیسا کہ دنیا بھر میں ہورہا ہے۔ متنازع معاملات پرفی الوقت بحث بھی وقت کا زیاں ہوگا، لہٰذا اب متبادل طریقے اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ قلت آب کا مسئلہ بھی حل ہو ا ور دیگر معاملات بھی۔

تازہ ترین