• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک ایسے مقدمے کی کہانی ہے جس میں ایک دفعہ فیصلہ نہیں آیا، بار بار فیصلے آتے رہے لیکن مقدمے کی سماعت ختم نہیں ہوتی تھی کیونکہ کبھی وفاقی حکومت اور کبھی پارلیمنٹ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تھی۔ یہ مقدمہ چھ سال تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا۔ اس مقدمے کے دوران چھ چیف جسٹس بدلے اور چھ وزرائے اعظم آئے گئے۔ مقدمہ اُس وقت انجام کو پہنچا جب ایک چیف جسٹس صاحب نگراںوزیر اعظم بنے اور انہوں نے اپنی کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں ایک آرڈی ننس جاری کرنے کی منظوری دیکر یہ مقدمہ ختم کر دیا کیونکہ یہ آرڈی ننس میڈیا کی آزادی اور انتخابات کو صاف و شفاف بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا تھا۔ سات جون 2018ء کو وفاقی سیکرٹری اطلاعات احمد جمال سکھیرا نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو بتایا کہ کل رات عدالت کے حکم پر نگراں حکومت نے پیمرا قانون میں ترمیم کا آرڈی ننس جاری کر دیا ہے تو میں نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ چھ سال سے زیر سماعت اس مقدمے کو اب نمٹا دیا جائے تو چیف جسٹس صاحب نے اثبات میں جواب دیا کیونکہ وہ خود بھی اس مقدمے کو چار ماہ سے سُن رہے تھے۔ انہوں نے مقدمے کے ایک فریق کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن سے پوچھا کہ کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ مقدمہ نمٹا دیا جائے تو انہوں نے بھی کہا کہ نمٹا دیا جائے اور یوں مقدمہ نمٹ گیا۔ میں عدالت سے باہر آیا تو ایک نہیں کئی وکلاء نے مبارکباد دی۔ کسی نے کہا اس مقدمے کی کارروائی پر کتاب لکھ دیں اور کسی نے مشورہ دیا کہ اب آپ بھی وکالت شروع کر دیں لیکن یہ مقدمہ میڈیا سےمتعلق تھا لہٰذا میں فی الحال اس کالم میں چھ سال کی کہانی کو سمیٹ کر نوجوان صحافیوں اور وکلاء سے گزارش کرونگا کہ وہ اس مقدمے کے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیں۔ یہ فیصلے 2013ء سے پی ایل ڈی (پاکستان لیگل ڈاکومنٹس) میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ یہ مقدمہ چھ سال تک میڈیا، حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان گھومتا رہا۔ عدالت عالیہ کے معزز جج صاحبان 2013ء کے انتخابات سے پہلے پہلے اس مقدمے کو انجام تک پہنچانا چاہتے تھے لیکن موجودہ چیف جسٹس کی طرف سے مسلسل سماعتوں کے بعد 2018ء کے انتخابات سے چند ہفتے قبل یہ مقدمہ نمٹا ہے۔ اس مقدمے کے فیصلوں پر عملدرآمد ہو جائے تو اُن تمام افراد اور اداروں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے جو میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق گھمانے کی کوشش میں رہتے ہیں یا میڈیا کے بازو مروڑونے کے لئے پیمرا کو استعمال کرتے ہیں۔
’’حامد میر وغیرہ بنام وفاق پاکستان‘‘ کے نام سے چھ سال سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہنے والے اس مقدمے کا آغاز 2012ءمیں ہوا۔ یہ وہ دن تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری پر ایک پراپرٹی ٹائیکون نے کچھ الزامات لگائے اور میڈیا پر چیف جسٹس کیخلاف ایک مہم شروع ہو گئی۔ چیف جسٹس نے اس مہم کا از خود نوٹس لیا اور کچھ صحافیوں کو عدالت میں طلب کیا جن میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ کچھ نامور صحافیوں نے گھما پھرا کر پراپرٹی ٹائیکون کا ساتھ دیا لیکن میرا موقف تھا کہ الزام لگانے والے صاحب کوئی ٹھوس دستاویزی ثبوت سامنے نہیں لا سکے۔ اُس وقت نواز شریف اور عمران خان بھی چیف جسٹس کی حمایت کر رہے تھے لہٰذا یہ معاملہ سیاست میں اُلجھ گیا اور اس دوران سوشل میڈیا پر مجھ سمیت کچھ صحافیوں اور اینکرز کی ایک فہرست گردش کرنے لگی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ہم نے ملک ریاض سے بحریہ ٹائون میں پلاٹ لئے ہیں اور بھاری رقوم بھی وصول کی ہیں۔ فہرست میں میرے علاوہ کامران خان، نجم سیٹھی، آفتاب اقبال، حسن نثار، مظہر عباس، سہیل وڑائچ، منیب فاروق، کاشف عباسی، مہر عباسی، ڈاکٹر شاہد مسعود، مبشر لقمان، عاصمہ شیرازی، ارشد شریف، نصرت جاوید، مشتاق منہاس وغیرہ کے نام شامل تھے۔ اس فہرست میں شامل چند اینکرز کے واقعی ملک ریاض سے قریبی تعلقات تھے لیکن اکثر اُن کو کبھی نہ ملے تھے اور میرا شمار تو اُنکے ناقدین میں ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود کچھ ٹی وی چینلز نے اس فہرست کی خبریں نشر کیں اور کراچی سے شائع ہونے والے ماہانہ جریدے ’’نیوز لائن‘‘ نے ٹائٹل اسٹوری شائع کر دی۔ یہ وہ موقع تھا جب مجھے یہ احساس ہوا کہ ہمارا میڈیا بے لگام ہے اور اگر ہم کسی ضابطہ اخلاق کے بغیر چلتے رہے تو میڈیا کی ساکھ بری طرح مجروح ہو گی۔ یہ جعلی فہرست نشر کرنے والے ایک ٹی وی چینل کے خلاف کارروائی کے لئے پیمرا سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ پیمرا کا قانون بہت کمزور ہے اور پیمرا مکمل طور پر وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے لہٰذا میں نے آئین کی دفعہ 184کی ذیلی شق تین کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے ساتھ ابصار عالم، اسد کھرل، ارشد شریف، عاصمہ شیرازی اور مظہر عباس بھی شامل ہو گئے۔ مصطفیٰ رمدے اور علی گیلانی ایڈووکیٹ نے درخواست کی تیاری میں ہماری مدد کی لیکن عدالت میں ہم اپنا مقدمہ خود لڑتے تھے کیونکہ وکلاء کی بھاری فیسیں ادا کرنا ہمارے بس سے باہر تھا۔
اس آئینی درخواست میں ہم نے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا اور وفاق پاکستان سمیت پیمرا،پی ٹی اے، ایف بی آر، ایف آئی اے اور ملک ریاض کو فریق بنایا۔ ہم نے استدعا کی کہ ہمارے سمیت تمام اہم ٹی وی اینکرز اور چینل مالکان کے اثاثوں کی انکوائری کی جائے اور ملک ریاض کے اکائونٹس سے چیک کیا جائے کہ انہوں نے کس کس کو رقم دی اور کس کو نہیں دی۔ ہم نے وزارت اطلاعات کا سیکرٹ فنڈ بند کرنے، پیمرا کے لئے ایک ضابطہ اخلاق بنانے اور پیمرا کو وفاقی حکومت کے کنٹرول سے آزاد کرنے کے لئے ایک میڈیا کمیشن بنانے کی استدعا کی۔ ہماری درخواست سماعت کے لئے منظور ہو گئی تو وفاقی وزارت اطلاعات، پیمرا اور ملک ریاض کے وکلاء نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا۔ بہرحال عدالت نے تمام فریقوں سے جواب طلب کیا۔ 23اگست 2012ء کو ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ بحریہ ٹائون نے درخواست گزار حامد میر اور فہرست میں شامل اینکرز کو کوئی پلاٹ اور رقم نہیں دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پیغام دیا کہ بحریہ ٹائون کی وضاحت آ گئی اب آپ پیچھے ہٹ جائیں لیکن ہم نے وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ کو منجمد کرنے اور میڈیا کمیشن کے قیام کا مطالبہ جاری رکھا۔ چھ ستمبر 2012ء کو جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین نے اس مقدمے کی سماعت کوئٹہ میں کی اور وزارت اطلاعات کا سیکرٹ فنڈ بند کر دیا۔ اسی روز سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں مجھ پر حملہ ہو گیا لیکن وکلاء نے مجھے اغوا کرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔ 2013کے آغاز میں میڈیا کمیشن بنا دیا گیا۔ میڈیا کمیشن کی رپورٹ مارچ میں آ گئی لیکن پیپلز پارٹی حکومت نے کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرنے سے انکار کر دیا۔ کمیشن کی اکثر سفارشات کا تعلق پارلیمنٹ کی قانون سازی سے تھا۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آ گئی تو امید بندھی کہ نئی حکومت میڈیا کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے میرے ساتھ درخواست گزار ابصار عالم کو چیئرمین پیمرا بنا دیا اور وہ درخواست گزار سے فریق بن گئے۔ 2015ء میں ہم سپریم کورٹ کی نگرانی میں الیکٹرونک میڈیا کے لئے ایک ضابطہ اخلاق بنانے میں کامیاب ہو گئے جو 19اگست 2015ء کو سپریم کورٹ کے حکم سے نافذ ہو گیا۔ اس ضابطہ اخلاق کی دفعہ تین کے تحت جمہوریت اور آئین کے خلاف سازشی بیانات نشر کرنا جرم قرارپایا، نفرت پھیلانے اور بغیر ثبوت الزامات لگانے کو بھی جرم قرار دیا گیا۔ ستمبر 2015ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پیمرا کو آزاد اور خودمختار بنانے کا وعدہ تحریری صورت میں عدالت کے سامنے پیش کیا لیکن وعدے پر عملدرآمد نہ کیا۔ 25نومبر 2017ء کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تمام ٹی وی چینلز کو بند کردیا جس کے بعد میں نے پیمرا قانون کے سیکشن پانچ اور چھ میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے براہِ راست قانون بدلنے کے بجائے کابینہ اور پارلیمنٹ کو قانون بدلنے کا موقع دیا۔ پچھلی حکومت کی کابینہ نے اپنے آخری اجلاس میں قانون بدلنے کی منظوری دی اور نگراں حکومت نے اسی قانون کو آرڈی ننس بنا دیا۔ اب وفاقی حکومت کسی ٹی وی چینل کو براہِ راست حکم سے بند نہیں کر سکتی اور پیمرا کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ پیمرا اپنے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرائے تو ٹی وی پر جھوٹا الزام لگانا ناممکن ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین