• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 جولائی 2018ء کو ہونیوالے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک کے اندر کوئی بڑی کیفیتی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بھی ’’ آئین نو سے ڈرنا اور طرز کہن پر اڑنا ‘‘ والی سیاست ہو رہی ہے ۔ اگرچہ کچھ نئی یا پرانی اور مذہبی جماعتیں پہلے سے مختلف پوزیشن کے ساتھ عام انتخابات میں موجود ہیں مگر ان میں بھی وہی لوگ ہیں ، جو پہلے کسی اور سیاسی یامذہبی جماعت میں تھے غیر سیاسی قوتوں کی روش اور ان کے اہداف بھی پہلے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ عوامی سطح پر بھی کوئی ایسی بے چینی نہیں ہے ، جو کسی بڑی تبدیلی یا کایاپلٹ کا سبب بنتی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ 13مئی 2013ءکے عام انتخابات کے مقابلے میں حالات بہت حد تک مختلف ہیں ۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ میاں محمد نواز شریف پاکستان کے حقیقی مقتدر حلقوں کی ’’ گڈ بک ‘‘ ( Good Book ) میں نہیں رہے اور انہوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف وہ سخت سیاسی بیانیہ اختیار کر لیا ہے ، جو ذوالفقار علی بھٹو سمیت کسی بھی حقیقی عوامی لیڈر نے اب تک اختیار نہیں کیا ۔ یہ شاید 1960 ء سے 1980 ء تک کے تین عشروں میں ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کا مقبول بیانیہ ہوتا ، جو بوجوہ رائج نہ ہو سکا ۔ میاں محمد نواز شریف 2013ء کے عام انتخابات میں جس صف میں کھڑے تھے ، آج اس کی مخالف صف میں کھڑے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے میاں محمد نواز شریف کی پہلے والی جگہ لے لی ہے ۔ تحریک انصاف نے گزشتہ 5سال میں جتنے جلسہ ہائے عام ، اجتماعات ، احتجاجی دھرنے اور عوامی طاقت کے مظاہرے کئے ۔ انکی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ 2013 ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں بہت زیادہ مقبول سیاسی جماعت بن گئی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں بھی وہی لوگ غالب آ گئے ہیں ، جو پہلے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور دیگر روایتی سیاسی جماعتوں میں تھے اور جنہیں ’’ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنیوالے ( Electables ) قرار دیا جاتا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کا ان لوگوں پر انحصار اس امرکی دلالت کرتا ہے کہ زمین پر کیفیتی تبدیلی کے کوئی آثار نہیں ہیں ، ورنہ تحریک انصاف نئے لوگوں کو اس طرح لیکر آتی ، جس طرح 1970ء میں پیپلز پارٹی لے کر آئی تھی یا 1988ءمیں محترمہ بینظیر بھٹو نئے نئے لوگوں کو انتخابات میں لیکر آئیں تھیں۔گزشتہ عام انتخابات تک متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی مقبول سیاسی جماعت تھی ۔ کراچی اور حیدر آباد میں وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں لے کر آتی تھی ۔ جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم پہلے والی پوزیشن میں نہیں ہے اور وہ کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔ یہ اگرچہ بہت بڑی تبدیلی ہے لیکن ملکی سیاست میں کیفیتی تبدیلی لانے یا ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ ختم کرنے کا سبب نہیں بن سکتی ۔ کراچی کو چار عشروں سے زیادہ جس سیاسی انتظام ( Political Arrangement ) کے تحت چلایا گیا ، اب وہ شاید چلانے والوں کی ضرورت نہیں رہا ۔ کراچی کی سیاست کے ذریعے سندھ سمیت پورے ملک کی سیاست کو چلایاگیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں کراچی کا ملکی سیاست میں پہلے والا کردار رہتا ہے یا نہیں لیکن ملکی سیاست میں کوئی کایا پلٹ نظر نہیں آتی ۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے مرکب میں نئے عناصر شامل ہوئے ہیں ۔ تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ ابھر کر سامنے آئی ہیں ۔ اب تک دیوبندی اور وہابی مسلک کی نمائندہ جماعتیں سیاست میں اہم کردار کی حامل تھیں اور اب مذکورہ بالا دو مذہبی جماعتوں کے ذریعہ سنی یا بریلوی اور اہلحدیث مسلک کے ووٹ بینک کو بھی سیاسی طور پر متحرک کیا گیا ہے ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں نیا ’’ سیاسی انتظام ‘‘ ہے لیکن اس سے بھی ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کے لئے کوئی چیلنج نہیں ہے ۔ نیا سیاسی انتظام علاقائی اور عالمی حالات کا تقاضا بھی ہو سکتا ہے ۔ دنیا تبدیلی کی طرف جا رہی ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان ایک فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہا ہے ۔ پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ، 1970 ء کے عام انتخابات کے بعد یہ سب سے اہم الیکشن ہے ، جو پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرے گا کہ آئندہ کا پاکستان کیاہو گا ۔ کیا یہی اسٹیٹس کو رہے گا یا اسے توڑ دیا جائے گا ۔ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ سیاست کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی کھلاڑی ’’ میچ فکسنگ ‘‘ میں لگے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ کچھ ٹیمیں تبدیل ہوئی ہیں لیکن کھلاڑی سب وہی ہیں ۔ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے اپنا منشور نہیں دیا ۔ صرف تحریک انصاف نے اپنا 100 دن کا ایجنڈا دیا ہے ۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات اور انٹرویوز سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے یا تو باخبر نہیں ہیں اور اگر باخبر ہیں تو انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ تبدیلیاں پاکستان کی سیاست پر کس طرح منطبق ہوں گی ۔ علاقائی اور عالمی سطح پر نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ روایتی اسلحہ کی جنگ کے ساتھ ساتھ معاشی جنگ کا ایک نیا عہد شروع ہو چکا ہے ۔ ہم روایتی جنگ کی دلدل میں سب سے زیادہ پھنسے ہوئے ہیں ، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی صورت میں عالمی سامراجی ضرورت کے طور پر دنیا پر مسلط ہے ۔ دوسری طرف ہم غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کی اتھاہ گہرائیوں میں جا رہے ہیں اور عالمی سطح پر معاشی جنگ میں ہماری پوزیشن بہت کمزور ہے ۔ ہم ب ’’ سی پیک ‘‘ پر انحصار کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس دوسرا راستہ وہی پرانا ہے کہ روایتی جنگ کی دلدل میں مزید اندر تک چلے جائیں اور بیرونی فوجی امداد یا بحالی فنڈ کے نام پربھیگ مانگیں ۔ عام انتخابات میں اس صورت حال کو تبدیل کرنے والی قوتیں موجود نہیں ہیں ۔
اس کے باوجود مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ قوموں کی زندگی میں کٹھن مرحلے آتے ہیں ۔ جمہوری عمل کو جاری و ساری رہنا چاہئے ۔ جمہوری عمل سے بتدریج تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور غیر جمہوری ادوار میں سست یا بتدریج تبدیلیوں کا عمل بھی رک جاتا ہے ۔ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں ۔ انتخابات کا التواء ملک کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ نئی جمہوری حکومتوں کو داخلی سطح پر بیڈ گورننس ، کرپشن ، میرٹ کی خلاف ورزیوں ، غربت اور بیروزگاری سے پیداہونے والے مسائل ، پانی کی شدید قلت ، ماحولیاتی تباہی ، بجلی اور گیس کے بحران ، تعلیم کے گرتے ہوئے معیار اور صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی جیسے سنگین معاملات سے نمٹنا ہو گا ۔ یہ ایسے معاملات ہیں ، جنہوں نے ریاستی اداروں کے نظم اور عمل داری کو متاثر کیا ہے اور سماج کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں ۔
خارجی سطح پر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں اور نئی صف بندیاں بہت بڑا چیلنج ہیں ۔ اب تک کی ہماری خارجہ پالیسی ناکام اور غیر موثر ہے ۔ اس نے پاکستان کو عالمی برادری میں اپنے مقام سے بہت نیچے کر دیا ہے ۔ پاکستان ایک زمانے میں تیسری دنیا اور عالم اسلام کی قیادت کرنے والا ملک تھا ۔ اگر انتخابات میں حصہ لینے والے پرانے کھلاڑی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی روایتی کھینچا تانی میں کامیاب ہو کر نئی حکومت تشکیل دیتے ہیں اور ان چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسٹیٹس کو تبدریج ختم ہونے کا عمل شروع ہو سکتا ہے اور دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا حصہ بنا جا سکتا ہے ۔ اسٹیٹس کو اگر ان تبدیلیوں کی راہ میں حائل ہوا تو پھرہم اس کے لئے تیار رہیں جوتاریخ میں ایسی قوموں کے لئے ناگزیر ہوتا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین