• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جنرل الیکشن کا بخار چڑھنا شروع ہوچکا ہے، مرکز اور صوبوں میں عبوری حکومتیں قائم ہوچکی ہیں، مرکز اور ایک صوبے میں جج حضرات نگراں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنا دیئے گئے ہیں، سندھ میں ایک بیورو کریٹ، بلوچستان میں ایک تاجر اور پنجاب میں ایک دانشور پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کو نگراں وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز کردیا گیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دانشور اور ایک استاد کو سخت تنقید کا سامنا ہے، اگرچہ اُن کا مزاج عاجزانہ اور ایک منصف مزاج شخصیت کے مالک ہیں، ہردلعزیز ہیں مگر مسلم لیگ (ن) نے اُن کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، اگرچہ ساری حکومتوں پر تنقید ہوتی رہی ہے، جہاں جہاں جس پارٹی کی حکومت تھی وہاں وہاں وہ پارٹی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے، مثال کے طور پر سندھ میں پیپلزپارٹی پر تنقید کے تیروں کی بارش ہورہی ہے مگر وہ اپنے آپ کو محفوظ اور مطمئن پاتی ہے کیونکہ وہاں جو بیوروکریٹ نگراںوزیر اعلیٰ مقرر ہوا، وہ حکومتی اور اپوزیشن دونوں کا پسندیدہ نمائندہ ہے وہ دونوں کو خوش رکھے گا، اس لئے اُن پر بھی سخت تنقید ہورہی ہے مگر وہ قانون کے عین مطابق نگراں وزیراعلیٰ بنے ہیں اور کسی نے اُن کے وزیراعلیٰ بننے کے معاملے میں مداخلت نہیں کی، اسی طرح مرکز میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے جس کو نگراں وزیراعظم بنایا اُن کو ذرا کم تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ مگر جہاں فیصلہ کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن میں آیا تو انکے نامزد کردہ فرد پر تنقید ہوئی یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اپوزیشن اور حکمراں جماعت کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکیں تو الیکشن کمیشن اُن ناموں میں سے جو کہ اپوزیشن اور حکمران نے دیئے ہوتے ہیں اُن میں کسی ایک کو جس کو الیکشن کمیشن بہتر سمجھتا ہے نگراں وزیراعلیٰ بنا دیتا ہے۔ چاہے وہ حکمراں جماعت سے ہو یا اپوزیشن کا دیا ہوا نمائندہ ہو جیسے خیبرپختونخوا میں حکمراں مخالف جماعت کا نامزد کردہ وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور پنجاب میں بھی اپوزیشن کے دیئے گئے شخص کو نگراں وزیراعلیٰ بنا دیا گیا جو اگر دیکھا جائے تو ایک اچھا انتخاب ہے۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کی تنقید کا جواز نہیں بنتا، ویسے بھی ایک جج اور ایک دانشور کو حکمرانی کا تجربہ نہیں ہوتا اس لئے بھی اُن سے الیکشن کے نتائج اور ووٹنگ میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اگر اُن میں کوئی ایک بھی بیوروکریسی، پولیس، مختارکار اور پٹواری کو نہیں سنبھال سکا تو کسی بھی علاقہ کا بااثر شخص اپنا کام دکھا جائے گا اور جن کو یہ کہا جاتا ہے کہ جیتنے والے امیدوار ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کا جہاں اپنے حلقے میں اثرورسوخ ہے وہاں وہ بیورو کریسی اور انتخابی عملے کا بندوبست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ ووٹروں کو جمع کرنے اور اپنے ووٹوں کو انتخابی ڈبے میں ڈلوانے کا بھی تجربہ بھی انکے پاس ہوتا ہے، اب ہو یہ رہا ہے کہ تقریباً بیس سے پچاس ایسے اشخاص جو پہلے منتخب ہوچکے ہیں اور اب بھی منتخب ہونے کی بھرپور توقع رکھتے ہیں وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں وہ اگر جیت جاتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کی اکثریت کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا اور اگر پنجاب میں یہی بیوروکریسی رہی تو مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کے امکانات روشن رہیں گے اور اگر دانشور نگراں وزیراعلیٰ نے بیوروکریسی تبدیل کرلی اور اُن کو غیرجانبدار بنا دیا تو پھر مسلم لیگ (ن) کو دھچکا لگ جائے گا، کیونکہ 2013ء کے الیکشن میں بیوروکریسی ان سے ہدایت لیتی تھی، اس کا اعتراف اسوقت کے پنجاب کے نگراںوزیر اعلیٰ نجم سیٹھی نے برملا کیا کہ اُن کے دور میں اُن کی تمام کوششوں کے باوجود وہ بیورو کریسی کو نیوٹرل نہیں کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ پروفیسر حسن عسکری صاحب کس قدر صلاحیت کے مالک ہیں کہ وہ بیوروکریسی جو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پچھلے تیس سال سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے وہ کیونکر اپنا انداز ِفکر تبدیل کرسکتی ہے اور کہاں تک پروفیسر صاحب انقلابی اقدامات اٹھانے کے اہل ہیں، دانشور حضرات ویسے بھی حکمرانی کا تجربہ نہ رکھنے کہ وجہ سے گنجائش کے دائرہ میں رہتے ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لاسکیں گے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اتنی پریشان ہے، البتہ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ اُن کو کہیں سے رہنمائی حاصل ہو خود اُن کے شاگردوں کی بڑی تعداد ایسی ہوسکتی ہے جو اُن کی مدد کو آئے اور بتائے کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے اور کس بیوروکریٹ کا رخ کس طرف ہے تاہم وقت بہت کم ہے زیادہ تبدیلیاں ویسے بھی الیکشن رول کے تحت نہیں کی جاسکتیں۔
سندھ میں پی پی پی کو ایک جمی جمائی بیوروکریسی دستیاب ہے، بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ اُن کو مخالفت کا سامنا تو ہے مگر اُن کو فی الحال خطرے کے دائرہ سے باہر دیکھا جارہا ہے اور سیاسی گرو یہ توقع کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی، پی پی پی اور پھر مسلم لیگ (ن) میں سے نمبرز گیم میں تیسری جماعت ہوگی، ویسے لگتا ہے کہ کسی پارٹی کی بھی اکثریت نہ آئے اور لٹکی ہوئی پارلیمنٹ معرضِ وجود میں آجائے تاہم متحدہ مجلس عمل بھی چوتھے یا تیسرے پر کھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس طرح جو پارلیمنٹ معرضِ وجود میں آئےگی اس کی وجہ سے کوئی اتحادہی حکومت بنا سکے۔ اب ایسے اتحاد بنانے کی صلاحیت ان پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف میں تو نہیں دکھائی دیتی، شاید وہ اس صلاحیت کا اظہار از خود نہ کر سکیں۔ عمران خان کو اُن کی سابقہ بیوی ریحام خان شاید اپنی کتاب سے نقصان پہنچا دے، مگرلگتا تو یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب عمران خان کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکے کہ جتنا کہ اُن کا خیال ہے کیونکہ حالات و واقعات اس طرف جارہے ہیں جو عمران خان کے خلاف کسی عمل کو دبا دیں، اگرچہ اُن کے جملے شدید ہیںان کےالزامات شاید ریحام خان کو زیادہ نقصان پہنچا دیں یا کسی ابتلا میں مبتلا کردیں، سندھ کے شہری علاقے کی جماعت ایم کیو ایم کا اب بھی یہ خیال ہے کہ لوگ پتنگ کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اگرچہ پی پی پی اور جماعت اسلامی اُن کے ووٹ بینک میں دراڑ ضرور ڈالیں گی، خیبرپختونخوا میں کیا صورتِ حال بنتی ہے وہ دیکھنے کی بات ہے کہ وہاں نگراں وزیراعلیٰ ایک جج ہیں اور وہاں پی ٹی آئی کی مخالفت میں سب لوگ یکجا ہوگئے تو پی ٹی آئی کو شکست ہو سکتی ہے۔ بلوچستان میں اگرچہ سابق وزیراعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ وہ اکثریت حاصل کرلیں گے مگر وہ ایسا کر پاتے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کی بات ہے۔ البتہ جمعیت علمائے اسلام وہاں اچھا خاصا اثرورسوخ رکھتی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ وہ بلوچستان یا خیبرپختونخوا میں سے کسی ایک صوبے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا ڈالے۔ بہرحال سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی ، یہ وقت ہی بتائے گا کہ صورتِ حال کیا بنتی ہے الیکشن کی گہماگہمی ابھی شروع نہیں ہوئی اور معرکہ ابھی دور ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین