• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس وقت الیکشن 2018ء کی گرما گرمی شروع ہوچکی ہے، جس کی مدت اور شدت عیدالفطر کے بعد مزید بڑھ جائے گی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے لیکر ہر قومی ادارہ 25جولائی کو عام انتخابات کرانے کیلئے پرعزم ہے جبکہ ہماری کچھ سیاسی جماعتیں روایتی حربے کے طور پر انتخابی سرگرمیوں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے میں مصروف ہیں، آئندہ انتخابات سے چند ہفتے قبل غیر متوقع طور پرنجانے کہاں سے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک طرف کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور دوسری طرف ریحام خان کی کتاب کا شور اٹھ گیا۔ اس میں ایک ایشو کا تعلق قوم کی خوشحالی اور یکجہتی سے وابستہ ہے اور دوسرا ایشو پاکستان میں ذاتیات اور الزام تراشی یا کردار کشی کی سیاست سے متعلق ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ریحام خان کی کتاب میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے ، اس کے پیچھے کون ہے اور کون نہیں، اس معاملے کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔ اس سے ہمارے معاشرے کے اخلاقی رویوں کی پردہ داری بھی رہے گی، خواتین اور بچیوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کا عمل بھی متاثر نہیں ہوگا۔جہاں تک کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ایشو ہے ہم40سال سے اس کے حق میں اسلئے ہیں کہ پہلے سے زیادہ اب یہ ڈیم ہماری زیادہ ضرورت بن گیا ہے۔ دس پندرہ سال تک معاملات پانی کی قلت اور آبپاشی کے حوالے سے کافی حد تک قابل کنٹرول تھے، مگر اب تو ہاتھ گردن سے بھی اوپر جاچکا ہے۔ اس ایشو کو فنی ماہرین کی سطح پر حل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کے لئے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جسٹس حلیم کمیشن کی رپورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے 2013میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کئے جانیوالے احکامات کو ری وزٹ کرنے سے مسئلہ حل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ یہ کام نگراں حکومت کے بس میں نہیں ہے، تاہم اس سے پہلے تمام اداروں کے تعاون سے سیاسی تنازعات حل کرنے اور ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ ماہرین کے اندازے کے مطابق اس ڈیم کے بننے سے مجموعی طور پر ایک کروڑ 25لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوسکتی ہے جس میں کے پی کے 30لاکھ ایکڑ ، سندھ 36لاکھ ایکڑ، بلوچستان 16لاکھ ایکڑ اور پنجاب کا 43لاکھ ایکڑ رقبہ شامل ہے۔ اس منصوبے سے20سال پہلے کے اندازے کے مطابق 36سو میگا واٹ بجلی حاصل ہوسکے گی، جو تھرمل اور دیگر قسم کی بجلی سے کئی گنا سستی ہوگی۔ اس ڈیم کے بارے میں سوشل میڈیا پر بڑا کچھ کہا جارہا ہے، مثال کے طور پر جیسے صدر ایوب خان کے دور میں کہا گیا تھا کہ نئے ٹینک خریدنے کے لئے قوم کا ہر فرد ایک ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کراسکتا ہے۔ اس طرحKBDکی تعمیر کے لئے100روپے فی بندہ لینے اور دینے کا فیصلہ کرلیا جائے تو اس سے21کروڑ روپے سے زائد افراد کی شراکت سے کافی وسائل اکھٹے ہوسکتے ہیں، جس کا25فیصد صد ڈیم کی مخالفت کرنے والے عناصر کو آفیشل طریقے سے دے دیا جائے تاکہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے پاکستان سے ڈیم مخالف افراد یا شخصیات خریدنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ سوشل میڈیا کی یہ مہملگتی ہے کہ پہلی بار ہر گھر میں زیر بحث آرہی ہے۔ اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ تمام اعلیٰ ادارے مل بیٹھ کر سیاسی قائدین کی کانفرنس بھی بلاسکتے ہیں اور سب کے آنے والے پریشان دنوں کے حالات سے آگاہ کرسکتے ہیں، جب خدانخواستہ کئی افریقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پانی کی قلت بڑھ سکتی ہے۔ پانی کی قلت ایک طرف پینے کے پانی کی ہے اور دوسری طرف زرعی ضروریات کیلئے۔ یہ دونوں ہی اپنی اپنی سطح پر سنگین مسائل ہیں، جن سے نپٹنا ازحد ضروری ہے۔ اسلئے اب قومی سطح پر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ’’کالا باغ ڈیم ابھی نہیں، تو کبھی نہیں‘‘ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔ پانی کی قلت کا مسئلہ یقینی طور پر ہماری قومی سلامتی اور یکجہتی سے وابستہ ہے۔ اس لئے بڑی احتیاط کے ساتھ اقدامات کئے جائیں اس کیلئے بہترین فورم پاکستان کے انجینئرز کا فورم ہے جس میں چاروں صوبوں کے ماہرین کو جسٹس حلیم کمیشن رپورٹ کی روشنی میں کوئی مثبت کام کرنے کا ٹاسک دیا جاسکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین