• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست اور جمہوریت نے سیاسی جماعتوں اور نظریات کو فروغ نہ دے کر خود کوبطور نظام نقصان پہنچایا اور اکثر جماعتوں نے ’موروثی سیاست‘ اور ’لوٹا کریسی‘ کےکلچرکی اس گمان پرحوصلہ افزائی کی کہ انتخابات نام نہاد’الیکٹ ایبلز‘کےبغیرنہیں جیتےجاسکتے۔آج یہ کلچر نہ صرف سیاسی پارٹیوں بلکہ سیاسی نظام میں بھی دراڑیں ڈال رہاہے۔ اسے روکا جاسکتا ہے لیکن کیسے؟ اسکےلئے محض تبدیلی کا عزم درکار ہے۔ ’لوٹوں‘یا نام نہاد الیکٹ ایبلز کا کوئی اپنانظریہ نہیں ہوتا اوریہ کسی جماعت سے مخلص نہیں ہوتے۔یہ محض ٹرانزٹ مسافرکی طرح ہوتے ہیں جنہیں صرف باہم منسلک پرو از و ں سےغرض ہوتی ہے۔ ان 50،60چہروں کودیکھیں توآپ کویہ وقتاً فوقتا ً ہر جماعت میں نظر آئیں ۔ ان میں اخلاقیات کاوجودعبث ہےلیکن عوام نے بھی عمومی طور پر انہیں مسترد نہیں کیا۔لگتا ہےکہ مرکزی دھارے کی تمام جماعتوں نے اس ’غیر اخلاقی قاعدے‘کو جمہوریت کے ہی ایک قاعد ے کے طور پرتسلیم کرلیاہےجبکہ اگر ہم رسم و رواج کےکلچر کے بجائے پارٹی کلچر کوفروغ دیں تویہ حقیقت نہیں ہے۔خاندان کسی بھی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں اور ایسا مغرب میں بھی ہوتا ہےلیکن اسےپارٹی پراسس سےگزر کر آنا چاہئے۔ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ جوکوئی ’لوٹوں‘ میں شمارہوتاہےوہ پارٹی کو نظریاتی اختلافات پریا اقتدار کےعرصےمیں چھوڑ نےوالانہیں ہوتا،’ لوٹا‘ عادی شخص ہوتا ہےاورجماعت کو اقتدارکیلئےچھوڑتا ہے۔وہ اپنے جا گیر دا رانہ پس منظر یا پیری مریدی کی بنیادپرحاصل وو ٹر و ں کویرغمال بنا کر الیکشن جیتتا ہے۔اس طرح ایک منتخب شدہ امیدواراقتدار میں تو دلاسکتا ہےلیکن وہی اقتدارہٹانےمیں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔ آپ 50،60’الیکٹ ایبلز‘کے ساتھ الیکشن تو جیت سکتےہیں لیکن پارٹی اور سیاست سے ہاتھ دھوسکتےہیں۔یہ لوٹے بڑی جماعتوں میں دراڑیں ڈال رہےہیں اور پا کستا ن پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) حتیٰ کہ متحدہ قومی موومنٹ کو نقصان پہنچانے کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کیلئے مسائل پیدا کرر ہے ہیں۔یہ جانے پہچانے چہرے بدلتے رجحانات اور سیاسی لہرپروفاداریاں بدلتےہیں ۔ ’ہوس اقتدار‘میں درا صل یہی مبتلاہیں اورکسی جماعت میں جانے کے لئےاپنی جماعت کوچھوڑنے میں ایک منٹ نہیں لگا تے ۔اگر ہماری مقتدر اشرافیہ نےآزادی کےفوری بعد جا گیر د ا ر ا نہ نظام سے جان چھڑا لی ہوتی جیسا ہمارے ہمسائےبھارت میں ہواتو جمہوریت گہری جڑپکڑ سکتی تھی۔اسکی اصل تعبیر یہ ہوتی کہ جاگیرداروں، سرداروں اورچوہدریوں کی جگہ سیاسی جما عتیں لےلیتیں۔قسمت کی خرابی کہ گزشتہ 25سال میں غیریقینی سیاسی کیفیت پھیلی اوراس دوران سیاسی جماعتیں پھل پھول نہ سکیں۔1947ءسے 1958ءتک پاکستان مسلم لیگ نہ متحد رہ پائی اور نہ اس نےسیاسی کلچر کو فروغ دیابلکہ اقتدار ’سول اورملٹری‘بیورو کریسی کے حوالے کردیا۔ جسکے نتیجےمیں1958ء کا مارشل لاء لگا۔یوں ملک سیاسی نظام کےحوالےسےبھٹکتارہااوراسی کے نتیجے میں10سالہ مارشل لاء یابنیادی جمہوریت کا مسلط کردہ نظام چلتا رہا۔1970ء میں پہلےحقیقی جنرل الیکشن میں لوگوں نے نام نہادالیکٹ ایبلز کے بجائے جماعتوں کو ووٹ دیئے۔اس وقت کےمشرقی پاکستان میں لوگوں نےقوم پرستی کےنام پرووٹ دیئے جبکہ مغربی پاکستان میں اسلامک سوشلزم کے حق میں ووٹ دیئےگئےجسکے نتیجے میں عوامی لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی و دیگرجماعتیں کامیاب ہوئیں ۔ لوگوں نےشخصیات کے بجائے پارٹی کو ووٹ دیئےاورمشرقی و مغربی پاکستان میں کئی بڑے نام الیکشن ہار گئے۔ حتیٰ کہ سانحہ سقوط ڈھاکا کے بعد بھی سیاسی منظر پر پارٹی کلچر غالب رہا۔پیپلز پارٹی کے ناقدین سمیت کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ذوالفقار بھٹو 1977ء کا الیکشن جیت سکتے تھے اگر انہوں نےیہ الیکشن ایک سال قبل نہ کرایا ہوتا اور’الیکٹ ایبلز‘ یاجاگیرداروں کےپاس جانےکےبجائے اپنے مخلص پارٹی کارکنوں پر بھروسہ کیاہوتا۔ اُنہوں نے نہ صرف اسکی قیمت چکائی اور اپنے آپ کو اور چند دیگر جاگیر دا ر وں کو’بلا مقابلہ‘بزورجتوانے کے الزامات کاسامنا کیا بلکہ مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک کوبھی مس ہینڈل کیا۔ مولانا شاہ احمدنورانی (مرحوم) اور پروفیسر غفور مرحوم نے ایک بار مجھے بتایا کہ بھٹو اپنی موت تک بلکہ اسکےبعدبھی مقبول لیڈر رہےلیکن اس نے مارشل لاء کی گنجائش فراہم کی اورجنرل ضیاء اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ’لوٹا کریسی‘ کےکلچر کو فروغ دے کر ’’تقسیم کرو اورحکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔جاگیر داروں، سرداروں، چوہدریوں اور کاروباری شخصیات کومضبوط کیا۔ لوکل باڈیزاور جنرل الیکشن دونوں سطح پر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات نے بالخصوص دیہی علاقوں میں سیاسی جماعتوں کو کمزور اور نام نہاد الیکٹ ایبلز کو قوی کیا۔چونکہ غیر جماعتی سسٹم ایک نظام نہیں بلکہ سیاسی کلچر کو نقصان پہنچانے کا ایک حربہ تھااسی لئےجنرل ضیاء نے محمدخان جونیجو کی سربراہی میں غیر جماعتی نظام سےایک نئی جماعت پاکستان مسلم لیگ بنانے کی اجازت دی تاہم 1986ء میں سیاسی نظام کی بحالی کےاعلان سے جونیجو نے ضیاء کو حیران کردیا جنہوں نے سیاسی جماعتوں سے پابندی ختم اورجلا وطن رہنما بینظیر بھٹو کو واپس آنے کی اجازت کیساتھ ملک میں آزاد ی صحافت کی یقین دہانی کرائی۔ان تمام اقدامات نے ضیاء کو پریشان کردیا۔دو سال کےاندرانہوں نے جونیجو کوبرطرف کرکےمسلم لیگ ن میں تقسیم کی بنیاد رکھ دی اور نواز شریف کی ایک متبادل لیڈر کےطورپر نشو ونماکیا۔1985ء کی بعد کی سیاست نے’الیکٹ ایبلز‘اور لوٹوں کو مضبوط کیا اور ہم مضبوط پارٹی کلچر یا اصل جمہوری نظام کی طرف واپس نہ جاسکے۔سیاسی جماعتوں کو اس نظام سے جان چھڑانے کا ایک اور موقع تب ملا جب بینظیر بھٹو 1986ء میں واپس آئیں اور 1988 ء کے الیکشن میں پارٹی کی لہراور بھٹو کے سحرنےمضبوط ’ الیکٹ ایبلز‘کوبالخصوص سندھ میں شکست دی۔ پیرپگارااورغلام مصطفیٰ جتوئی جیسے بڑے نام بالترتیب سید پرویز علی شاہ اور رحمت اللہ جیسے جیالوں سےہارگئے۔جنرل حمید گل کی سرکردگی میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ جوبینظیر کیخلاف تھی نےپہلےآئی جے آئی کی صورت میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد بنا کر سیاسی کلچر کو نقصان پہنچایااورپھر اسٹیبلشمنٹ نے1989ء میں تحریک عدم اعتماد اوربعدمیں 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعےپیپلزپارٹی کیخلاف سازش کی۔اسکےبعدپاکستانی سیاست پھرنہ سنبھل سکی اور تقریباً تمام جماعتوں نے ’لوٹوں‘ یا ’الیکٹ ایبل‘ کلچر کوتسلیم کرلیا اور یہ عمل ایک دوسرے کی حکومتوں کو ’لوٹا کلچر‘کےذریعے ہٹانے کے لئے’سیاسی انجینئرنگ‘ کاحصہ بن گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ،مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ ( ق) بن گئی جبکہ پیپلز پارٹی میں نیشنل پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ جیسے گروپوں نے دراڑیں ڈالیں۔اس سب کےنتیجےمیں پاکستان تحریک انصاف سامنےآئی جس نے طویل جدوجہد کے بعد2013ء میں تیسری سب سے بڑی جماعت کے طور پر خود کو منوایا اور ملک بھر میں80لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ تحریک انصاف کے اس قدر زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی وجہ اس کا نام نہاد الیکٹ ایبلز سے خود کو دُور رکھنےکاعزم تھا،حتیٰ کہ اس نےوفاداری تبدیل کرنے والوں کوقبول یامسترد کرنے کےلئےایک طریقہ کار بھی اختیار کیا۔ پارٹی میں شمولیت کی شرائط میں کریمنل ریکارڈ نہ ہونا، کسی کرپشن کیس میں ملوث نہ ہونا خاص طور پراگروہ وزیررہایارہی ہومزید برآں اسکی شمولیت پر پارٹی میں یاحلقےکےکارکنوں میں سےکسی کواعتراض نہ ہوشامل ہے۔تحریک انصاف نےاب اپنےبنیادی اصولوں سے انحراف کرلیاہےجن پر وہ 2011ء تک عمل پیرا رہی ۔ہوسکتاہےکہ وہ الیکٹ ایبلز یا لوٹوں کے ذریعے آئندہ الیکشن جیت جائےلیکن کیا عمران سٹیٹس کو سیاست کے50فیصدامیدواروں کے ساتھ سٹیٹس کوبدل پائیں گے۔ یہ سیاسی جماعتیں کب سیکھیں گی ، عمران خان نے خود اعتراف کیا تھا کہ اس کےکئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے سینٹ الیکشن میں پیسے لئے اور اس نے تقریباً20ایم پی ایز کے خلاف کارروائی بھی جس کی وجہ سے کے پی حکومت اپنابجٹ بھی منظور نہ کراسکی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں پر اسی کلچر پر چلنے اورپھراسی کاشکاربننےکے الزامات ہیں۔ اس کلچر کو ہرایا جاسکتا ہے اگر الیکشن کمیشن یا پارلیمنٹ تمام پارلیمنٹیرینز پر آئندہ انتخابات سے کم از کم 2سال پہلےپارٹی تبدیل کرنےپرپابندی عائد کردےاورجمہوری نظام بچانے کیلئے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردے۔

تازہ ترین