• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے

ہمار ے ایک بزرگ نصیحت کیا کرتے تھے کہ عید کے دن کسی غم کو قریب نہ پھٹکنے دو، چنانچہ وہ اُس روز اپنی بیگم سے دور دور رہتے تھے۔ ہم نے بھی یہ معمول بنا لیا ہے کہ نمازِ عید سے فراغت کے بعد کچھ دیر گھر پر ملاقاتیوں کو شرفِ زیارت بخشتے ہیں اور پھر دوستوں سے ملنے کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ بیگم کو ہمارے اس طرز عمل پر اعتراض ہوتا ہے لیکن ہم ان سے بر ملا کہہ دیتے ہیں’’اگر عید کا دن بھی تمہارے ساتھ گزاروں تو مجھے بتائو کہ ’’روزِعید‘‘ اور ’’یوم ِعاشور‘‘ میں کیا فرق رہ جائے گا ؟‘‘ وہ کہتی ہیں’’بچوں کو عیدی تو دیتے جاؤں۔‘‘ہمارا جواب ہوتا ہے’’چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟پینشن کی رقم سے بچوں کو عیدی دوں گا،یا کے۔ الیکٹرک کو لوڈشیڈنگ کا بل دوں گا؟‘‘

گذشتہ عید پر صبح گیارہ بجے کے قریب ہم اپنے گھر سے نکل کر سب سے پہلے جس دوست کے پاس پہنچے وہ کہیں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ’’باس کو سلام کرنے جارہے ہو؟‘‘ ہم نے خیال ظاہر کیا ۔ بولے ’’ہاں، مگر اس سے پہلے قبرستان جائوں گا تاکہ تھوڑی سی ویرانی آنکھوں میں بس جائے اور باس کا چہر ہ کسی حد تک قابلِ برداشت لگے ۔‘‘ قبل اس کے کہ ہم اس آدم بیزار فلسفے پر کچھ تبصرہ کرتے ان کے ایک ماتحت افسر انھیں سلامی پیش کرنے کی غرض سے آپہنچے۔ آنے والے کے چہرے پر بے رونقی کے آثار نمایاں تھے۔ ہم نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ جو ڈیڑھ دو منٹ ان صاحب نے وہاں گزارے ان میں ایک دفعہ بھی نظر بھر کے اپنے باس کو نہ دیکھا، بس گردن جھکائے ہوئے بے دلی سے ایک سندھی معانقہ کیا، پھر کچھ دیر بیٹھ کر رخصت ہوگئے۔ جاتے وقت البتہ ان کے چہرے پر بشاشت صاف ظاہر تھی۔ ہمیں مشتاق یوسفی یاد آگئے ’’چراغ تلے‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’(تبادلے کی) اس تقریب میں یادگار کے طور پر آغا نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ گروپ فوٹو بھی کھنچوایا جس میں آغا کے علاوہ ہر شخص نہایت مطمئن و مسرور نظر آتا تھا ۔‘‘

ہماری اگلی منزل ماضی کے ایک کلاس فیلو تھے جو اَب ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ ان کے پاس دو چار حضرات پہلے سے موجود تھے۔ ان میں سے ایک صاحب حکومت کی تجارتی پالیسی کو کوس رہے تھے۔ دوسرے روپے کی گرتی ہوئی قدر پر چراغ پا تھے اور تیسرے اسٹاک ایکسچینج میں مندی کے رجحان کا ماتم کر رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہم کسی گھر میں نہیں بلکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑی کے دفتر میں آگئے ہیں۔ ہمارے دوست نے رسمی تواضع کی اور ہماری ادبی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا۔ ہم نے کہا ’’وہاں بھی مندی کا رجحان ہے۔ آج کل ایک ہی کتاب بازار میں چل رہی ہے جو خصوصاً کاروباری حلقوں میں بہت مقبول ہے۔‘‘ سب نے بے تابی سے یک زبان ہوکر پوچھا ’’کو ن سی کتاب؟‘‘ ہم نے کہا ’’ چیک بک۔‘‘ اس پر ایک میمن بھائی نے اعتراف کیا ’’بھائی ،یہ بات تم نے بروبر (درست) بولی ہے۔‘‘

ہم اس گھٹن کے ماحول سے نکلنا چاہتے تھے، مگر اچانک کسی بات پر وہ سب (بشمول ہمارے دوست) اتنے جوش اور اشتعال کے عالم میں ایک دوسرے کے ’’مالی دلائل‘‘ کاٹنے لگے کہ لگتا تھا ابھی گتھم گتھا ہوجائیں گے، انھیں قطعاً اس بات کا احساس نہیں تھا کہ ایک غیر کاروباری شخص بھی محفل میں موجود جس کی مال میں دلچسپی بال جتنی تھی۔ جب ایک صاحب چلاتے چلاتے کھڑے ہوگئے اور دوسرے انھیں بٹھانے کے لیے آگے بڑھے تو ہم اس ہڑبونگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاموشی سے کھسک لیے۔

ہمارا اگلا پڑائو ایک سابق رفیقِ کار کا گھر تھا۔ ریٹائر منٹ کے بعد انھوں نے ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ہے، چوںکہ وہ پچھلے تین سال میں چار پارٹیاں بدل چکے ہیں اس لیے عید ملنے کے بعد ہم نے ان سے سوال کیا ’’آج کل کس پارٹی کے ڈھنڈورچی ہو؟‘‘ انھوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ’’چلو تمہیں اپنے نئے لیڈر سے ملاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے ڈرائیور کو گاڑی تیار کرنے کا حکم دیا۔ ہم نے معذرت کی کہ ابھی اور جگہ جانا ہے۔ لیکن انھوں نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمارے گلے میں اپنے بازو کا پٹا ڈال کر ڈرائنگ روم سے باہر لائے۔ جب وہ ہمیں اپنی گاڑی میں دھکیلنے لگے تو ہم نے ان سے استدعا کی ’’میری گاڑی موجود ہے میں آپ کو ’’فولو‘‘ (Follow) کروں گا۔‘‘ تاہم انھیں ڈر تھا کہ ہم کسی موڑ پر ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے، لہٰذا اپنی گاڑی میں ساتھ ہی بٹھا لیا اور ہماری گاڑی اپنے گیراج میں لگوادی۔ اب تک ہم پر جو گزری تھی اسے ذہن میں لاکر سوچا کہ اپنے گھر کی خواری اس خرکاری سے بہتر تھی۔ وہ اپنی پارٹی کے ضلعی صدر کے پاس جارہے تھے۔ راستے میں ایک پھول والے کی دکان نظر آئی تو ڈرائیور عیدو سے گاڑی رکوائی اور اُسے پانچ ہزار کا نوٹ دیا۔ ہم نے سوچا یہ بھی پہلے قبرستان میں حاضری دیں گے مگر عیدو تربیت یافتہ تھا۔ وہ ایک بڑا سا رِبن والا گلدستہ خرید لایا، پھر عیدو نے ایک مخصوص بیکری کے سامنے گاڑی روکی اور وہاں سے فروٹ کیک لا کر ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔

اب جو ہم ان کی پارٹی کے ضلعی صدر کے ڈیرے پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں لوگوں کا جم غفیر تھا جو لان میں لگی ہوئی کرسیوں پر شامیانے کے سایے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چائے کا دور چل رہا تھا۔ میلے کا سماں تھا۔ لیڈر مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سب سے مل رہا تھا۔ اس کا ایک ملازم گلدستے لے کر ایک بغلی میز پر رکھتا جارہا تھا، جبکہ دوسرا مٹھائی، کیک اور پھل وصول کرکے اندر پہنچا رہا تھا۔ ہمارے دوست چونکہ ’’بھاری بھر کم‘‘ گئے تھے لہٰذا وہ دوسری طرف سے خصوصی گرم جوشی کی توقع کر رہے تھے لیکن لیڈر نے جو مسلسل اپنے موبائل فون پر بات کر رہا تھا انہیں ہلکا سا کندھا ’’دے کر‘‘بھگتا دیا۔

لیڈر بلا تکان اپنے پارٹی رہنما کی عظمت، جرأت اور دیانت کا راگ الاپ رہا تھا، حالانکہ عوام پر اس رہنما کا ماضی پیراکی کے لباس کی طرح عیاں ہے۔ ہمارے دوست شامیانے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ انھیں امید تھی کہ ان کا کیک اور گلدستہ رائیگاں نہیں جائے گا، مگر لیڈر کسی کی طرف بھی متوجہ نہیں تھا۔ سیلفی لینے والے اسے اپنی قید سے آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے جبکہ ہمارے دوست باقاعدہ تصویر بنوانا چاہتے تھے۔ خاصی دیر بعد ہم نے ان پر واضح کر دیا کہ اگر وہ اس انتشار اور خلفشار کے ماحول سے باہر نہیں نکلیں گے تو ہم ٹیکسی پکڑ کر ان کے گھر پہنچ جائیں گے __اپنی گاڑی لینے کی خاطر، یہ دھمکی کام کر گئی اور ہمارے دوست فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، نہ ان کی آمد کا کسی نے نوٹس لیا تھا اور نہ روانگی کا۔ لیکن وہ بالکل نارمل انداز میں ہم سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی ناقدری ہمیں شاق گزری تھی ۔

چند منٹ کے سفر میں ہمارا، اپنے دوست سے جو مکالمہ ہوا وہ کچھ یوں تھا__

ہم : معاف کرنا، تمہاری محبت کا جواب تمہارے لیڈر کی طرف سے حوصلہ افزا نہیں تھا۔

وہ : (قہقہہ مار کر ) تمہارا خیال ہے میں وہاں اظہار محبت کرنے گیا تھا؟ میں تو اسے

نفرت کے قابل بھی نہیں سمجھتا ۔

ہم : تو پھر کیوں یہ خواری مول لی؟

وہ: (سنجیدہ لہجے میں) تم جسے خواری سمجھتے ہو وہ دراصل سرمایہ کاری تھی، نہ جاتا تو پارٹی

میں رسوا ہوتا ۔ میں کوئی عام کارکن نہیں کہ میری غیر حاضری کا نوٹس نہ لیا جاتا ۔ ہوسکتا

ہے مجھے شوکاز نوٹس جاری کردیا جاتا ۔

ہم: جے آئی ٹی تو نہیں بنادی جاتی ؟

وہ: تم یہ بات نہیں سمجھو گے میرے عزیز! مجھے اگلے انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ لینا ہے اور وہ اس کی سفارش کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاست میں ہر قسم کی مصلحت آمیز سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور وہ بھی طویل المیعاد۔ یہ کوئی حصص کا کاروبار نہیں کہ آدمی ایک منٹ میں عرش پر اور دوسرے میں فرش پر ہوتا ہے۔ یہ خوشامد کی سرمایہ کاری تھی۔ جو لازماً رنگ لائے گی۔ تم نے ایک کیک اور ایک گلدستہ دیکھا ہے۔ یہ عیدو گواہ ہے۔ میں تو بہانے بہانے سے اس پر تحائف کی شیلنگ کرتا رہتا ہوں۔ لنچ اور ڈنر پارٹیاں الگ ہیں۔ میں کیا پورے ضلع کے متوقع امیدوار اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ اسی لیے تو اس کا یہ حال ہے۔ تم نے اس کا پیٹ نہیں دیکھا، ڈھول بنا ہوا ہے۔ ذیابیطس کا مریض پہلے سے ہے۔ مگر نہ یہ کھانے سے باز آتا ہے اور نہ ہم لوگ کھلانے سے!

ہم نے اقبال ؔ کا یہ شعر پڑھ کر اس لایعنی بحث کا خاتمہ کیا ؎

یہ فیصلے ہیں نازک جو تری رضا ہو تُو کر

کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی

وہ بھلا کہاں خاموش رہنے والے تھے۔ جھٹ جواباً اقبالؔ کے استاد کا یہ شعر پڑھا ؎

ایک دن مان ہی جاؤ گے ہمارا کہنا

تم کہے جاؤ ’’تیری حقیقت کیا ہے‘‘

(داغ)

اس تمام ’’کھجل خواری‘‘ کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ہم نے گھر آکر بچوں کو عیدی دی اور بیگم کو وہی پرانا شعر پڑھ کر راضی کرلیا جو ہر شوہر کی مشکل میں کام آتا ہے یعنی ؎

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم

رسمِ دنیا بھی ہے ،موقع بھی ہے ، دستور بھی ہے

رہی کے ۔ الیکٹرک، تو حکومت کا کہنا ہے،بل نہیں تو بجلی نہیں۔ ہم کہتے ہیں، بجلی نہیں تو بل نہیں۔ یہ بات بھی ’’بروبر‘‘ ہوئی نا!

تازہ ترین