• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرکوقومی وصوبائی اسمبلیوں کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ گزرنے کے بعد انتخابی عمل کاپہلامرحلہ مکمل ہوگیاہے اورسیاسی جماعتوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے زیادہ ترحلقوں سے اپنے امیدواروں کے ناموں کااعلان کردیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے سودنوں کے پروگرام کے سواکسی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور کااعلان نہیں کیا جوکروڑوں رائے دہندگان کی رہنمائی کے لئے اشد ضروری ہے۔انتخابی مہم ابھی تک ذاتیات پر حملوں تک محدود ہے جو ہمارے ناپختہ اورغیر مستحکم سیاسی نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ اس خرابی کے مظاہر وہ احتجاجی دھرنے اورلڑائی جھگڑے ہیں جوانتخابی ٹکٹوں کی مبینہ غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ہورہے ہیں اورجن کی وجہ سے تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادتیں شدید دباؤ میں ہیں۔پی ٹی آئی کے ناراض کارکنوں نے بنی گالہ میں دھرنا دیا،پارٹی کے لیڈروں کی گاڑیاں روک دیں اورٹکٹوں کے معاملے میں ناانصافی کے خلاف نعرے بازی کی،مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ ان تینوں بڑی جماعتوں کی قیادتوں کولاہور،راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، سرگودھا، بہاولپور،نوشہرہ اوراندرون سندھ کے بعض علاقوں میں احتجاج اورپریشانی کاسامنا کرناپڑا۔اسی سبب تینوں پارٹیاں ابھی تک بعض حلقوں میں اپنے امیدواروں کے ناموں کااعلان نہیں کرسکیں۔ٹکٹ نہ ملنے پر بعض امیدواروںنے آزادحیثیت سے الیکشن لڑنے کافیصلہ بھی کرلیا ہے۔ٹکٹ سےمحرومی پر ہنگامے ہمارے سیاسی سسٹم کی کمزوریوں کانتیجہ ہیں۔ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں امیدواروں کافیصلہ صرف متعلقہ پارٹیوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ انتخابی حلقوں کے عوام خود کرتے ہیں۔خاص طورپر امریکہ اوربرطانیہ میں یہی عمومی روایت ہے۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیاں امیدواروں کو نامزد کرتی ہیں جو بعض صورتوں میں میرٹ کے خلاف بھی ہوتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتخاب جیتنے کےلئے مضبوط امیدواروں یعنی’’الیکٹ ایبلز‘‘کوترجیح دیتی ہیں اوراپنے ان کارکنوں کو نظر انداز کردیتی ہیں جو ہر مشکل وقت میں پارٹی اوراس کی قیادت کامستقل مزاجی سے ساتھ دیتے ہیں اورتوقع رکھتے ہیں کہ ان کی قیادت انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ پران کاخیال رکھیں گے۔جمہوریت کابھی یہی تقاضا ہے لیکن ہمارے ملک میںاصولوں کی بجائے اقتدار کی سیاست کا دوردورہ ہے اس لئے سیاسی پارٹیاں’الیکٹ ایبلز‘ کوترجیح دیتی ہیں اورہمیشہ ان کے تعاقب میں رہتی ہیں۔ایسے لوگ جہاں سے ملیں انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔خودیہ لوگ بھی ہواکارخ دیکھتے رہتےہیں۔جس پارٹی کاپلڑا ذرابھاری دیکھیں،اپنی سالہا سال پرانی پارٹی کوچھوڑ کراس میں شامل ہونے میں کوئی عارنہیں سمجھتے،سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا ہمارے ملک میں عام سی روایت ہے۔اور سیاسی پارٹیوں نے اس کی حوصلہ افزائی کرکے ’لوٹاکریسی‘ کوفروغ دیا ہے جو ملک اورجمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔لوٹوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔وہ صرف اپنے مفاد پرنظر رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک مستحکم اورمضبوط سیاسی کلچر قائم نہیں ہوسکا۔لیکن’ لوٹوں ‘کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی مستحکم نہیں ہوسکتی۔ہمیشہ ڈاواں ڈول رہتی ہے کیونکہ ’لوٹے‘اسے کسی وقت بھی چھوڑ سکتے ہیں۔اسی وجہ سے یہ پارٹی سٹیٹس کوبدل کر ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکتی۔سیاسی مبصرین پارٹیاں بدلنے والوں کے لئے یہ پابندی تجویز کرتے ہیں کہ انہیں دوسری پارٹی میں آنے کے بعد دوسال تک انتخابی ٹکٹ یاکوئی عہدہ نہ دیا جائے۔جمہوری نظام کے فروغ اورجاگیردارانہ سیاست کے خاتمے کےلئے اس طرح کے اقدامات ضروری ہیں۔اب جبکہ انتخابات کاعمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے سیاسی پارٹیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملک وقوم کی بہتری کےلئے اپنا اپنا منشور پیش کریں جس پرتھنک ٹینکس اوررائے عامہ کے طبقوں میں بحث مباحثہ ہو اس سے ووٹر کو یہ فیصلہ کرنےمیں آسانی ہوگی کہ وہ کس پارٹی کے حق میں ووٹ استعمال کریں۔

تازہ ترین