• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک میں ٹکٹوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں میں کم و بیش ایک جیسی صورت حال ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن چھوٹی جماعتیں قدرے سکون میں ہیں بلکہ وہ اس آس امید پر ہیں کہ کہیں سے کوئی آجائے اور ان کی پارٹی کا ٹکٹ لےکر ٹکٹوں کی عددی اکثریت میں اضافہ کرے۔ اس مرتبہ ٹکٹوںکے حصول کے لئے سب سے زیادہ رش کا سامنا پی ٹی آئی کو کرنا پڑا ہے۔ پچھلا ہفتہ دراصل پی ٹی آئی کے لئے کھڑکی توڑ ہفتہ ثابت ہوا۔ پی ٹی آئی کے بہت سے ٹکٹ ابھی جاری ہونا باقی ہیں۔ کئی جگہوں پر کارکنوں کو نظرانداز کئے جانے پر شور بپا ہے۔ دوسرے نمبر پر جو جماعت ہے اس کا نام ن لیگ ہے۔ ن لیگ کے اندر بھی افراتفری کا ماحول ہے۔ وہاں اکیلے چوہدری نثار کے ٹکٹ نے ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے۔ بیان بازی کا بازار گرم ہے۔ پیپلزپارٹی کا بڑا مسئلہ سندھ کے ٹکٹوں کے حوالے سے تھا۔ آصف علی زرداری نے اپنی جادوگری سے پارٹی کو تماشا بننے سے روکا ہے۔ سنا ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ٹکٹ لینے کےلئے بہت کم لوگ تیار ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو تھپکی کی ضرورت ہے شاید اسی لئے آصف زرداری نے لاہور کا رخ کر لیا ہے۔ ایک اہم جماعت تحریک لبیک بھی ہے اس کے ٹکٹوں کے حصول کے لئے بھی خاصا رش ہے۔ پی ٹی آئی سے مایوس ہونے والے اپنے ٹکٹ کا آخری سہارا تحریک لبیک ہی کو تصورکرتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کا ٹریکٹر آرام سکون سے چل رہا ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس افتخارچوہدری نے جمعہ بازار میں اپنا اسٹال خالی دیکھ کر عمران خان پر الزامات لگانا شروع کردیئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان الزامات کے باعث شاید لوگ ان کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ شاید انہیں یہ خبر نہ ہو کہ اس سلسلے میں ’’ریحامی‘‘ کتاب بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈوں کے اجلاس، ان کے اندر باہر کی صورتحال اور پھر ایسے میں سفارشوں کی بھرمار نے اس سارے منظر کو ’’جمعہ بازار‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر پاکستانی سیاست کے اس دلچسپ منظر پر غور کیاجائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے دولت مند طبقے نے کیسا تماشاشروع کر رکھا ہے۔ ٹکٹوں کے حصول کے لئے قلابازیاں لگانےوالوں سمیت پارٹی فنڈ دینے والے سارے امیر لوگ ہیں۔ پاکستان کے اکثریتی عوام کاٹکٹوں کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض ایک فیصد طبقہ ہے جو اس سارے کھیل کا حصہ ہے۔ دولت مندوں کی یہی اقلیت ملکی اکثریت پر حکومت کرے گی۔ یہی مغربی طرز ِ جمہوریت کا برا ’’چہرہ‘‘ ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم میں پارٹی فنڈ، تعلقات، کوششیں، جعلی سروے اور خاص ہمدردیاں کارفرما رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دو تین ہفتے تحریک ِ انصاف نے اسلام آباد میں ’’ٹکٹ میلہ‘‘ لگائےرکھا۔ اگرچہ پی ٹی آئی بہت سے ٹکٹ جاری کرچکی ہے مگر ہنوز بہت سا کام باقی ہے۔ تحریک ِ انصاف میں فاٹا کے ٹکٹ آرام سے تقسیم ہوگئے تھے۔ اس کی بڑی وجہ پیر نور الحق قادری تھے۔ نورالحق قادری نے یہ کام بڑے احسن انداز میں کیا۔ کے پی میں جگہ جگہ رولے نظر آئے اور پنجاب میںتو معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ تحریک ِ انصاف نے پنجاب کو چار ریجنوں میں تقسیم کر رکھا ہے کوئی ایک ریجن بھی ایسا نہیں جہاں مشکلات نہ ہوں۔ شمالی پنجاب کے صدر عامر کیانی کوپہلے اسلام آباد اتارا گیا پھر پنڈی بھیج دیا گیا۔ دونوںسیٹوں پر کارکنوں نےخوب شورمچایا۔ اسلام آبادمیںپی ٹی آئی نے اپنے طاقتور ترین امیدوارچوہدری الیاس مہربان کو نظرانداز کر دیا۔ اسی طرح پنڈی میں ایک ایم پی اے کو نظرانداز کیاجارہا ہے۔ شمالی ریجن کے سیکرٹری جنرل عطا اللہ شادی خیل کو ٹکٹ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔وہاں سے ببلی خان کو اتار دیا گیا ہے۔ کالاباغ کی عائلہ ملک نے پی ٹی آئی کےلئے دن رات ایک کررکھا تھا مگر ان کے داماد ملک امیر محمد خان کو بھی ٹکٹ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ خوشاب میں سمیرا ملک خوش قسمت ثابت ہوئی ہیں۔ ان پر نااہلی کی تلوار ختم ہوگئی ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک ِ انصاف کا پرانا امیدوار ملک عمراسلم ہی ہے۔ سمیرا ملک کے لئے یہ مقابلہ کافی آسان ہوگا۔ سرگودھا میں قومی نشستوں پر اتنا مسئلہ نہیں بنا مگر ایک صوبائی نشست مسئلہ بنی ہوئی ہے جہاں سے تین چار اہم امیدوار ہیں۔ جہلم میں مشکلات تھیں مگر وہاں فرخ الطااف اور چوہدری ثقلین نے سمجھوتہ کرکے میدان صاف کرلیا ہے۔ ضلع گوجرانوالہ میں مسائل ہیں۔ پی ٹی آئی نے پہلے کئی امیدواروں کو نظرانداز کیااور پھر کچھ پہ نظرثانی کرلی، اس نظرثانی کا فائدہ چوہدری بلال اعجاز کو تو ہوا ہے لیکن امتیاز صفدر وڑائچ کامیابی پانے میں ابھی تک لگے ہوئے ہیں۔ خرم دستگیر کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے کمزور امیدوار کوٹکٹ جاری کیا ہے۔ اسی طرح احسن اقبال کے مقابلے میں بھی کمزور امیدوار دیا ہے۔ نارووال سے کرنل کاہلوں اور فیصل آباد سے بریگیڈیئر کاہلوں کوٹکٹ نہیں دیا گیا حالانکہ کرنل جاوید صفدر کاہلوں سے عمران خان نے خصوصی ملاقات بھی کی تھی۔ لاہور میں بھی کئی بنیادی کارکن ٹکٹ سے محروم رہے ہیں۔ فیصل آباد میں تقسیم بہت غلط ہوئی ہے اسی لئے وہاں سے پریس کانفرنس بھی ہوگئی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ٹکٹوں کی تقسیم پر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی میں کئی جگہوں پراختلافات ہیں مثلاً ملتان کے حلقہ این اے 154کے لئے کوئی ایک صاحب اسکندر بوسن کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اسکندربوسن نے اگر پی ٹی آئی کی طرف قدم بڑھایا تو ان کا حال فاروق بندیال جیسا ہوگا کیونکہ اسکندر بوسن پر بھی اسی طرز کے کئی مقدمات ہیں۔ اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے خواہش مند ملک احمد حسین ڈیہڑ ہیں جو کئی سالوں سے تحریک ِ انصاف کی جنگ ملتان میں لڑ رہے ہیں۔
شکایتوں کے انبار لگنے کے بعد عمران خان نے کارکنوں سے کہا ہے کہ جہاں کہیں غلطی ہوئی ہےیا کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا ہے اس کی تلافی کے لئے نشاندہی کی جائے، درخواست دی جائے، وہ خود ان درخواستوں کا جائزہ لیں گے۔
ن لیگ نے ابھی تک فہرست جاری نہیں کی مگر ان کے کئی امیدوار ہار کے خوف سے حلقے تبدیل کر رہے ہیں۔ کبھی کہیں سے لڑنے کا اعلان کرتے ہیں پھر اعلان واپس لیتے ہیں۔ن لیگ میں بھی پسند ناپسند کا چکر ہے۔ ن لیگ کے لئے اصل چکر عید کے بعد شروع ہونے والا ہے جس سے ن لیگ کے امیدوار چکرا جائیں گے۔
حافظ حسین احمد اپنی جملہ بازی کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں دس سال بعد پارٹی نے اس قابل سمجھا ہے کہ وہ ٹکٹ کے اہل ہو گئے ہیں ورنہ وہ دس سال تو مولانا فضل الرحمٰن کی کرشماتی نگاہوں کا حصہ نہ بن سکے تھے۔
ٹکٹوں کے حصول کی خاطر گھمسان کی اس جنگ میں نہ کسی کو اصول یاد ہے نہ ہی کسی کو نظریہ یاد ہے نہ ہی کوئی اخلاقیات کا مظاہرہ کر رہاہے۔جس پارٹی سے بھی پوچھو عوامی خدمت کا گیت سناتی ہے۔ کوئی مضبوط پاکستان بنارہا ہے، کوئی پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کی باتیں کر رہا ہے تو کوئی نیا پاکستان بنانے کی باتیں کر رہا ہے مگر یاد رکھو کہ اس وقت تک بہتر اورعظیم پاکستان نہیں بن سکے گا جب تک قانون کی عملداری نہیں ہوگی کیونکہ قانون کی عملداری کے بغیرمعاشرے میں عدل و انصاف ممکن نہیں اور جہاں عدل و انصاف نہ ہو، وہاں ظلم ہوتا ہے اور ظلم کا نظام زیادہ عرصہ چل نہیں سکتا۔ شاید اسی لئے پاکستان کے سنجیدہ لوگوں کی اکثریت پکاررہی ہے کہ ہمیں وہ گمشدہ پاکستان لادو جو اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کا پاکستان تھا، جس میں مساوات تھی، جس میں اقلیتوں کا بھی احترام تھا، جس میںرشوت نہیں تھی، جس میں لوگ لوٹ مار کے لئے نہیں خدمت کے لئے سیاست میں آتے تھے، جہاں لوگوں نے سیاست کو کاروبار نہیں سمجھ رکھا تھا، میں یہاں اس گمشدہ پاکستان کے دو واقعات آپ کو سنا رہا ہو، سن لیجئے اور پھرفیصلہ کیجئے۔ پہلا واقعہ گورنر جنرل قائداعظمؒ کا ہے جب ان کی خاطر بند ریلوے پھاٹک کو کھلوایا جاتا ہے تو وہ سخت نارا ض ہوتے ہیں اور پھرپھاٹک بند کروا دیتے ہیں، ساتھ ہی سخت لہجے میں اپنے اے ڈی سی جی سے کہتے ہیں ’’اگر میں ہی قانون پر عمل نہیں کروںگاتو پھرباقی کون کرےگا۔‘‘ دوسرا واقعہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا ہے۔ کراچی سے ایک ٹرین ساڑھے چار بجے روانہ ہونا تھی۔ اس ٹرین کو محض پانچ منٹ کے لئے روکا گیا کہ وزیر اعظم آرہےہیں۔ جب چاربج کر پینتیس منٹ پر لیاقت علی خان پہنچے تو انہوں نے پوچھا کہ ٹرین کا ٹائم کیا تھا؟ بتایاگیا کہ ساڑھے چار۔ لیاقت علی خان نے پوچھا تو یہ پانچ منٹ لیٹ کیوں ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ جناب وزیر اعظم اس ٹرین کو آپ کے لئے روکا گیا ہے۔ قانون کی اس خلاف ورزی پر لیاقت علی خان ناخوش ہوئے اور انہوں نے اس ٹرین کے ذریعے جانے سے انکارکردیا۔ کیا آج کے سیاستدان ایسا سوچتے ہیں؟ اس جمعہ بازار میں محسن نقوی کا شعر یاد آرہا ہے کہ؎
محسن میرے وجود کو سنگسار کرتے وقت
شامل تھا سارا شہر اِک تہوار کی طرح
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین