• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز میری ملاقات ایک عاشق زار سے ہوئی جو بیک وقت دو مجبوبوں کا ذکر کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتا تھا اور ساتھ ساتھ جیب سے کنگھی نکال کر بال سنوارتا جاتا تھا۔ان ہر دو محبوبوں کا ذکر کرتے ہوئے اس پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور پھر وہ خوشبو میں ڈوبے ہوئے رومال سے آنکھوں کو تھپتھپانے کے بعد ٹائی کی ناٹ درست کرنے لگتا تھا۔ اس کے چہرے پر عمر کی پرچھائیاں تھیں اور جوتے آئینے کی طرح صاف شفاف تھے۔ میں نے اس کی یہ کیفیت دیکھی تو کہا
’’اے برادر! اگر تیرا عشق صادق ہے تو پھر تیرا حال عاشقوں جیسا کیوں نہیں؟‘‘
اس نے رومال سے پسینہ پونچھنے کے بعد بغلوں میں(Deodorant)اسپرے کرتے ہوئے پوچھا،
’’کیا مطلب؟‘‘
میں نے کہا
’’یہی کہ کسی ایک سے دل لگا۔ اس کے بعد شیو بڑھا ، گریباں چاک کر اور سر پر خاک ڈال کر جنگلوں کی طرف نکل جا‘‘۔
یہ سن کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہا
’’اے برادر یوسف! تو صاف صاف کیوں نہیں کہتا کہ میں تیرے حق میں دستبردار ہوجائوں؟‘‘۔
میں نے اس شکی مزاج عاشق کو افسوس کی نظروں سے دیکھا اور ملامت کرتے ہوئے پوچھا کہ اس کے ذہن میں ایسی گھٹیا بات کیونکر آئی اور پھر اس نے اس قدر بدگمانی سے کام کیونکر لیا، اگر وہ ایسا کر گزرے تو میں نیکی کا بدلہ نیکی سے ادا نہیں کروں گا؟‘‘
جس پر یہ شخص مذکورہ ہنسا وان ہائوزن شرٹ کے کالر پر سے گرد جھاڑی ا ور پھر بولا
’’نہ میں نے کوئی گھٹیا بات کہی ہے اور نہ کسی بدگمانی سے کام لیا ہے اگر میں تمہارے مشورے پر عمل کرتے ہوئے شیو بڑھالوں، گریباں چاک کر بیٹھوں اور جنگلوں کی طرف نکل جائوں تو ہفتے عشرے بعد تم ہر دو کے بارے میں اخباروں میں یہ خبر پڑھو گے کہ’’بے وفا محبوبہ اپنے کسی آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی اور عاشق غل غپاڑہ کرتے ہوئے پکڑا گیا‘‘۔
جب میں نے اس دیوانے کے منہ سے یہ فرزانوں والی بات سنی تو جھک کر اس کے پائوں پکڑ لئے اور کہا
’’مرشد دنیا بھر کے عاشقوں کے لئے کوئی پیغام دیتے جائو‘‘۔
اس پر اس نے مجھے شفقت سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا
’’عاشقوں کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ وہ دوران محبت صرف ایک آنکھ بند رکھیں اور دوسری بہرصورت کھلی رہنے دیں، نیز وہ ایک متبادل محبوب کا بندوبست بھی ضرور کریں جس نے دونوں آنکھیں بند کیں یا کسی ایک کا ہو کر رہ گیا وہ ہمیشہ خون کے آنسو رویا‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی اسپورٹس ماڈل کار اسٹارٹ کی اور فل ایکسی لیٹر دیتے ہوئے ایک کوچہ جاناں کو ہولیا۔
اس ہوش مند عاشق کے جانے کے بعد میں نے اس کی باتوں پر غور کیا تو اس کی صداقت کچھ اور واضح ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے اردگرد جتنے بھی کامیاب عاشق ہیں یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی ایک آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے اور ایک متبادل محبوب کا بندوست بھی کیا ہوا ہے۔مثلاً میرا ایک دوست ہے جو انقلاب کے عشق میں ہر وقت ٹھنڈی آہیں بھرتا تھا۔ پتہ بھی کھڑکتا تو اس کی نظریں دروازے کی طرف اٹھ جاتیں کہ شاید ’’وہ‘‘ آگئے ہیں مگر اس نے اس عشق میں اپنی دونوں آنکھیں بند نہیں ہونے دیں بلکہ ایک کھلی رکھی، آج کل وہ سیکرٹری انفارمیشن ہے۔
ایک مولانا سے میری یاد اللہ ہے۔ دیندار بھی ان کے پائوں چومتے ہیں اور ایسے دنیا کے کتے بھی ان کے در پر جانے کے لئے مجبور ہیں کیونکہ ان کی خدا ا ور ’’خداوند‘‘ دونوں تک رسائی ہے۔ ایک ایسے مخیر سرمایہ دار کو بھی میں جانتا ہوں جس کا ایک ہاتھ ہمہ وقت سخاوت کرنے اور دوسرا ہاتھ ہمہ وقت یہ سخاوت واپس لینے میں لگا رہتا ہے۔ ایک ایسا حریت پسند میری نظروں میں ہے جو گفتگو حکومت وقت کے خلاف کرتا ہے اور لکھتا اس کے حق میں ہے،ایک بزرگ شاعر کو میں نے یہ کہتے سنا کہ 1965کی جنگ میں انہوں نے جو ترانے لکھے وہ اس نوع کے تھے کہ پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی مقبول ہوئے۔ حزب اختلاف سے متعلق بعض لوگ حزب اقتدار کے دلوں میں اور بلوں میں بھی جگہ اور حصہ رکھتے ہیں اور پھر ان کے علاوہ ہمارے ارد گرد پھیلتے ہوئے کامیاب عاشقوں میں وکیلوں کا گروہ شامل ہے، جو قاتل اور مقتول دونوں کا مقدمہ بڑی کامیابی سے لڑتا ہے۔ استاد ہیں جو فرعون پر لعنت بھیجتے ہیں اور کالجوں میں موسیٰ ؑکی پیدائش روکنے کافریضہ بھی پوری دیانت داری سے انجام دیتے ہیں۔
کچھ علما ءہیں جو حسینؓ کا اسوہ بیان کرتے ہیں اور ہر دور میں یزید کی صفوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ بعض لیبر لیڈر لیبر افسر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں اور کچھ صحافی ہیں جو اپنے ادارے کے لئے اور ایک حساس ادارے کے لئے بیک وقت رپورٹنگ کرتے ہیں۔ان سب عاشقوں نے متبادل محبوب کا انتظام کیا ہوا ہے یہ ایک آنکھ کھلی رکھنے والے عاشق ہیں،یہ کانے عاشق ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین