• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانے بھی دیں!
چوہدری نثار:ان کے ٹکٹ کا محتاج نہیں، نہ دینے کے لئے ڈرامے کئے جا رہے ہیں۔ کوئی ایسی بات تو ہے کہ بڑے بھائی جان چوہدری صاحب کو ٹکٹ نہیں دے رہے اور چھوٹے بھائی جان پورا زور لگا رہے ہیں کہ ٹکٹ دے دیں۔ پارٹی کا جان نثار، نثار ہے، غیروں نے دعوت بھی دی تاحال قبول نہیں کی۔ وہ ہماری ضرورت بھی ہیں اور ان کی وفائوں کا صلہ بھی کہ بھائی جان میرے یار چوہدری نثار کو ٹکٹ دے دیں، دوسری جانب چوہدری صاحب بھی سیاست کے چوہدری ہیں اور اپنے گائوں کے بھی، وہ بن مانگے ملنے پر یقین رکھتے ہیں، ویسے یار تو وہ میاں شہباز کے علاوہ عمران خان کے بھی ہیں، اور آپس میں میسج کا سلسلہ بھی جاری ہے، ہمارا خیال ہے کہ نواز شریف کے پاس جا کر نثار علی خان ٹکٹ مانگ لیں تو ٹکٹ مل جائے گا، مگر وہ ٹکٹ مانگنے نہیں جائیں گے، اور یوں یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی، شہباز شریف اپنے بھائی جان پر یاری بھی قربان کر دیں گے، اور چوہدری صاحب آزاد امیدوار کی حیثیت سے کسی اونچی چٹان پر بسیرا کر لیں گے، بلاشبہ چوہدری نثار وفادار ہیں مگر شاید مؤدب وفادار نہیں’’گل اِتھے آ کے رُکدی اے‘‘ ہمارا مشورہ ہے کہ بڑے میاں صاحب جانے دیں، چوہدری نثار کو نہ کھوئیں وہ فصلی بٹیرے نہیں ن لیگ کے بنیرے بیٹھے رہیں گے، شہباز شریف کی بھی کبھی مان لیا کریں ایسا بھائی کب نصیب ہوتا ہے، بڑا دل کریں، پارٹی کو مستحکم رکھنے کے لئے دل کی نہیں دماغ کی ماننی پڑتی ہے، ٹکٹ نہ دے کر ن لیگ کو نقصان ہو گا، جبکہ اس ن لیگ کو پڑھے لکھے منجھے ہوئے بے داغ سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭
کیسے حسیں دبائو ہیں
ٹکٹوں کے لئے امیدواروں کا اپنی پارٹیوں پر شدید دبائو، قیادتیں مشکل میں۔ پی ٹی آئی کارکنوں کا بنی گالہ میں دھرنا، پی پی کو ایسے کسی دبائو کا سامنا نہیں، یہ تو جمہوریت کا حسن ہے، کہ پارٹی قیادتوں پر یہ دبائو ہے کہ کس کو ٹکٹ دیں کس کو نہ دیں، سب کو دے نہیں سکتے، اور کارکنوں کی محرومی دیکھ بھی نہیں سکتے، پی ٹی آئی کی کھڑکی پر بڑا رش ہے، بہرحال ٹکٹ اس کو ملنا چاہئے جو پارٹی منشور اور نظریئے پر عملدرآمد کی صلاحیت رکھتا ہو، حلقے میں بھی اثر رکھتا ہو، اور بھی بہت کچھ رکھتا ہو کیونکہ اس وقت ہمارے سیاسی مطلع پر خدماتی مالیاتی ستارے ہی طلوع ہو سکتے ہیں، پی ٹی آئی بارے نہ جانے کیوں یہ یقین کر لیا گیا ہے کہ اس کی حکومت آ رہی ہے، پی پی بارے کسی کو یقین ہو نہ ہو اس کی قیادت کے چہرے پر گھبرائی ہوئی خوشی ہے، ن لیگ کرشمہ دکھا سکتی ہے، کہ اس کا بدن زخم زخم ہے، اگر احسن اقبال ہاتھ اسی طرح گلے میں 25جولائی تک لٹکائے رہیں تو ان کی جیت یقینی ہے، خدا کرے کہ وطن عزیز میں جمہوری رونقیں اسی طرح جاری رہیں، قیادتیں کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتی رہیں تو یہاں بہت کچھ اچھا ہو سکتا ہے، کسی کے ماضی بعید میں جا کر اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ ڈھونڈنا جمہوری سفر میں رکاوٹ بن سکتا ہے، ہاں کرسی پر بیٹھ کر کوئی ہیرا پھیری کرتا پکڑا جائے تو وہ اور بات ہے، بہرصورت اگر کوئی فی الوقت ٹھیک جا رہا ہے تو اڑنگی مارنا درست نہیں، الغرض سیاست میں کیسے حسیں دبائو ہیں، کیسے دلنشیں بنائو ہیں، نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭
درخت جگائے بخت
جب تک پاکستان میں درختوں کی کثرت رہی، کڑی دھوپ میں بھی ٹھنڈک رہی، اگرچہ وطن عزیز میں رہنے کے لئے زمین کی کمی نہیں، پھر بھی درختوں کو دیس نکالا دے کر ان کے گھر گرا کر اپنے گھر بنا لئے گئے، صرف پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور ہی کو دیکھ لیں سب سے زیادہ اور بڑے اشتہار نئی رہائشی اسکیموں کے ہوتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے سارے پنجاب کے رہائشی لاہور آ رہے ہیں، اور ان کے لئے مکانات کی کالونیوں کی ضرورت ہے، اگر نئے شہر آباد کئے جاتے وہاں آئیڈیل ٹائون پلاننگ کی جاتی تو لاہور کے لاکھوں درخت نہ کٹتے، زمینوں کے ریٹ اس قدر نہ بڑھتے کہ آنگن کا تصور مٹ گیا، اب کوئی درخت لگائے تو کیا گملے میں لگائے، جب سے درخت بیدردی سے کٹے ہیں، برکت، بارش، صاف آکسیجن اور صحت مند زندگی رخصت ہو گئی ہے، پرندے درخت دھونڈتے ہیں، جس کے آنگن میں ایک بھی درخت ہو اس کے بھاگ جاگ اٹھتے ہیں، پرندوں کی چہکار ہماری سماعتوں کی ضرورت ہے، اگر دیہی علاقوں کو سلیقے سے ڈیولپ کیا جاتا وہاں روزگار ہوتا، تعلیمی ادارے ہوتے، بجلی پانی گیس ہوتی تو کوئی بھی دیہات چھوڑ کر بڑے شہروں کا رخ نہ کرتا، اور لاہور میں آج بھی انسانوں کی تعداد کا نصف درخت ہوتے، یاد کریں جب لاہور میں ابھی درخت نہیں کٹے تھے، رہائشی اسکیموں کی بھرمار نہیں تھی تو یہاں کیسے ٹوٹ کے بارشیں ہوتی تھیں، ذرا پارہ چڑھتا تو آندھی چلتی اور جل تھل ہو جاتا، عرصہ ہوا لاہور میں نیلا شفاف آسمان نہیں دیکھا۔
٭٭٭٭
سوشل میڈیا سے خبردار رہیں
....Oجے یو آئی (ف) نے دس سال بعد حافظ حسین احمد کو ٹکٹ دے دیا۔
مگر وہ پارٹی سے وابستہ رہے، اڑان نہیں بھری، فصلی بٹیروں کے لئے اس میں عبرت ہے۔
....Oمشرف :پاکستان جانا چاہتا ہوں، گرفتار نہ کرنے کی ضمانت دی جائے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی اس سے بڑی ضمانت کس کی چاہئے اس کا بھی نام بتا دیں۔
....O سعد رفیق:لاہور کا بڑا سیاسی دنگل لڑنے کیلئے تیار ہوں۔ شہید کے بیٹے ہیں، غازی بنیں گے، ان شاء اللہ۔
....Oچیف جسٹس! کچھ غیر ملکی قوتیں سوشل میڈیا کے ذریعے افراتفری پھیلا رہی ہیں۔
کوئی بات نہیں، ملکی قوتیں اپنے ملک میں ایسا نہیں ہونے دیں گی۔
....Oچیف جسٹس نے احتساب عدالت کو ایک ماہ میں فیصلے کا حکم دے دیا۔
انصاف میں اب مزید تاخیر روا نہیں، ایک ماہ کے دوران ہی فیصلہ آ جانا چاہئے، یہ نہ ہو کہ ذہنی اذیت بھی ایک مقدمہ بن جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین