• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں عام انتخابات کیلئے طبل بج چکا ہے اور تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتار دیا ہے ۔ آنے والے عام انتخابات پنجاب اور بالخصوص لاہور کو بے حد اہمیت دی جارہی ہے یہ شہر گزشتہ 30برسوں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے اسی لیے پاکستان تحریک انصاف بھی اپنی تمام تر توجہ لاہور پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی قومی و صوبائی اسمبلیوں کیلئے جن امیدواروں کی فہرست جاری کی ہے اسے متنازع قرار دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی لاہور میں کوئی معرکہ نہیں سر کرپائے گی۔۔
پاکستان تحریک انصاف نے لاہور کے حلقہ این اے 123 سے مہر واجد کو ٹکٹ دیا ہے جن کا مقابلہ (ن) لیگ کے مضبوط ترین امیدوار ملک ریاض سے ہوگا۔ ملک ریاض اس حلقہ سے (ن) لیگ کے ٹکٹ پر دو مرتبہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔ حلقہ این اے 124 میں پی ٹی آئی نے قبل ازیں ولید اقبال کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تھا مگر ان کے انکار کے بعد اب اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نعمان قیصر (ن) لیگ کے اہم ترین رہنما میاں حمزہ شہباز کے مد مقابل ہوں گے۔ حلقہ این اے 125 کیلئے پی ٹی آئی نے حسب سابق ڈاکٹر یاسمین راشد کو ٹکٹ جاری کی ہے جو اس حلقہ سے دو مرتبہ شکست کھا چکی ہیں۔اس بار ان کا جوڑ مسلم لیگ (ن)کی اہم ترین رہنما مریم نواز سے ہوگا لیکن عین ممکن ہے کہ (ن)لیگ اس حلقہ سے یاسمین راشد کے مقابلہ میں مریم نواز کے بجائے سردار ایاز صادق کو میدان میں اتارے۔ایسی صورت میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز این اے 127 میں طبع آزمائی کرتی نظر آئیں گی۔ این اے 126 میں پی ٹی آئی نے ایک بار پھر میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ (ن) لیگ کے ٹکٹ پر انہیں اس بار بھی مہر اشتیاق کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیگی امیدوار مہر اشتیاق پی ٹی آئی کے امیدوار حماد اظہر کو 2013ء کے انتخابات میں بھی بڑے مارجن کے ساتھ شکست دے چکے ہیں۔ این اے 127 میں پی ٹی آئی نے جمشید اقبال چیمہ کو میدان میں اتارا ہے ۔ جمشید اقبال چیمہ کو مسلم لیگ (ن) کے مضبوط ترین امیدوار ملک پرویز سے مقابلے کا سامنا ہے۔ لاہور کی سیاست پر ملک پرویز کی مضبوط گرفت کی بنا پر پی ٹی آئی کے امیدوار کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ این اے 128 میں پی ٹی آئی نے اعجاز ڈیال کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جنہیں اس حلقہ سے (ن) لیگ کے شیخ روحیل اصغر سے مقابلے کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہاں بھی پی ٹی آئی کی کامیابی ناممکن نظر آتی ہے۔ این اے 129 کا انتخاب پی ٹی آئی کے اہم رہنماعبدالعلیم خان نے خود کیا ہے غالباً ان کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے 2013ء اور اس کے بعد ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق کو ٹف ٹائم دیا تھا اس لیے انہیں اس بار ضرور کامیابی حاصل ہوگی، علیم خان کسی حد تک درست سوچ رہے ہیں۔ این اے 130 میں پی ٹی آئی کے امیدوار شفقت محمود مسلم لیگ (ن) کے خواجہ احمدحسان کا مقابلہ کریں گے 2013ء کے انتخابات میں شفقت محمود اس حلقہ سے حادثاتی طور پر کامیاب ہوئے تھے تاہم اس مرتبہ انہیں خواجہ احمد حسان جیسے مضبوط لیگی امیدوار کا سامنا ہے جو لاہور کے مقبول ترین ’’شہردار‘‘ ہیں۔ سب سے دلچسپ مقابلہ این اے 131 میں دیکھنے کو ملے گا جہاں پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا سامنا (ن ) لیگ کے مضبوط ترین امیدوار خواجہ سعد رفیق سے ہوگا۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کم و بیش اسی حلقہ سے خواجہ سعد رفیق کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ این اے 132 سے پی ٹی آئی کے چودھری منشا سندھو میدان میں اتریں گے اور ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چودھری عبدالغفور ہوں گے این اے 133 سے پی ٹی آئی نے اعجاز چودھری کو ٹکٹ دیا ہے، اعجاز چودھری پنجاب میں اپنی پارٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں ان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے زعیم قادری کریں گے اور یہ بھی ایک دلچسپ مقابلہ ہوگا۔ این اے 134 میں پی ٹی آئی کے ظہیر عباس کھوکھر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کا مقابلہ کریں گے یہاں پر یکطرفہ نتائج کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔ این اے 135 میں پی ٹی آئی کے کرامت کھوکھر کا مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سیف الملوک کھوکھر سے سامنا ہوگا گو کہ کھوکھر برادری کا ووٹ تقسیم ہونے کا امکان ہے مگر سیف الملوک کھوکھر اپنے حلقہ کے ووٹرز سے دلی وابستگی کی وجہ سے پسندیدہ ترین شخصیت قرار دیے جاتے ہیں۔ این اے 136 میں پی ٹی آئی نے خالد گجر کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے افضل کھوکھر ہوں گے ۔ افضل کھوکھر زبردست سیاسی ساکھ کے مالک ہیں اسی بنا پر ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
اس تمام تر صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں غیر منصفانہ فیصلے کیے جس کا اندازہ انہیں 25 جولائی کی رات کو یا 26 جولائی کی صبح تک ہوجائے گا۔ پی ٹی آئی نے ہمیشہ نظریاتی سیاست کا نعرہ لگایا نئے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عہد دہرایامگر ٹکٹوں کی حالیہ تقسیم میں پی ٹی آئی نے گزشتہ دو دہائیوں سے ساتھ چلنے والے اور قربانیاں دینے والے کارکنوں اوررہنمائوں کو نظرانداز کرنے کی حماقت کرڈالی۔ میں اپنے سیاسی اور صحافتی تجربہ کی بنا پر یہی کہوں گا کہ کپتان کی ’’امید‘‘اور ’’وار‘‘ ملیامیٹ ہونے کو ہیں بعض ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کپتان نے لاہور سمیت ملک بھر میں جہاں کہیں سے بھی اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں انہیں ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کہیں اور ہوا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین