• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں دوستوں سے کھیلتے ہوئے مقابلہ اچھے کھلونوں کا ہوتا تھا، اس وقت کھلونوں میں بیٹری کی بجائے چابی کا استعمال ہوتا تھا، جس کھلونے کو زیادہ چابی بھری جاتی تھی وہ اتنی پھرتی اور تیزی کیساتھ چلتا، بھاگتا، دوڑتا اور کرتب بھی دکھاتا تھا اور جیت بھی اسی دوست کی ہوتی تھی۔ ہم بڑے ہوگئے اور چابی بھرنے والے کھلونے بھی متروک لیکن ہمارے ہاں کئی ایک شعبے اپنی مہارت میں اضافے یا ترقی کے خواہشمند نہیں ان میں سیاست سرفہرست ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی کھیل تماشوں کے طور اطوار بدلے نہ اقدار میں بہتری آئی۔ عوامی خدمت کی بجائے اقتدار کی محدود سوچ کے دائرے میں قید یہ بیچارے، ہر کچھ سال بعد وفا کی منڈی لگاتے ہیں جو اچھا مول دے اس کے ہوجاتے ہیں، چابی بھرنے والے کی منشا کے مطابق اسی جانب چل پڑتے ہیں جس کا راستہ انہیں دکھایا جاتا ہے، تماشہ دکھاتے اور خود بنتے بھی ہیں، چابی والے کھلونے.....!
ملکی سیاست میں انتخابی معرکے کا طبل بج چکا ہے، وفاق اور صوبوں میں نگراں حکومتیں آچکی ہیں، اب 25 جولائی کو سیاسی میدان سجے گا۔ متروک نعروں، غیرحقیقی دعوئوں اور جھوٹے وعدوں کی سیاسی بازی گری جاری ہے، جوڑ توڑ کی کارگری کا تو حال نہ پوچھیں، چابی والے کھلونوں کی ہوش ربا پرفارمنس اور آنیوں جانیوں سے لوٹے اور کھوٹے بھی انگشت بدنداں ہیں، گویا چابی والے کِھلونوں نےمارکیٹ میں بھونچال برپا کردیا ہے۔ راقم نےگزشتہ کالم میں نشاندہی کی تھی کہ مسٹرخان کیلئے عام انتخابات نہیں بلکہ جوق در جوق پردیسیوں کی آمد پریشانی کا باعث بنے گی اور ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہی پارٹی کے مستقبل کا کسی حد تک تعین بھی کردے گا، وہی ہو رہاہے جس کا ڈر تھا خان نے عام انتخابات سے پہلے ہی اپنے بڑے بڑے مخلص اور دیرینہ برج خود ہی الٹ دیئے ہیں اور اب پی ٹی آئی کی محبت میں گرفتار کارکن اپنی قیادت کے خلاف سراپا احتجاج اور دھرنوں پر ہیں۔ معترض حلقوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کی جانب سے اپنے امیدواروں کےانتخاب کا فیصلہ صوابدید ضرور ہےلیکن ذاتی پسند ناپسند، دبائو اور چابی سےکام خراب ہورہا ہے، یوٹرن کا الزام لگانے والوں کی نظر میں خان صاحب کو ٹکٹ کی تقسیم کے معاملے پر خود فیصلے تبدیل اور واپس بھی لینا پڑرہے ہیں، جانے الیکشن تک کیا کچھ ہوگا لیکن بہی خواہوں کی تمنا ہے کہ مسٹر خان اس مرتبہ سرخرو ہو ہی جائے تاکہ سیاسی بھونچال میں کم ازکم کچھ تو کمی آئے اور قوم سکھ کا سانس تو لے ورنہ پھر دھرنے اور جانے کیا کچھ ہوگا۔ مسٹر خان کے ’’بااثر‘‘ فیصلے ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی اختلافات کا شکار ن لیگ اور دیگر مخالفین کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ میاں صاحب نے بھی2013کے عام انتخابات میں وفادار کارکنوں کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر انہی الیکٹبلز کو سینے سے لگایا تھا، وزارتوں اور نوازشات کی بارش بھی کی وہ پھر بھی نیا پاکستان بنانے کیلئے راستہ بدل گئے۔ نئےپاکستان کی تعمیر میں مسٹر خان کا فولادی بازو بننے کا دعویٰ کرنے والے زیادہ تر پہلوان2008اور 2013میں بری طرح چاروں شانےچت ہوچکے ہیں، ان کی نئی قلابازی اور کامیابی کا اندازہ تبدیلی کی بجائے روایتی سیاست کے نرغے میں آنیوالے مسٹرخان کو 25جولائی کی رات کو ہوگا۔ ن لیگ اور خود میاں صاحب ووٹوں کی بجائے نوٹوں کی اصول پرست سیاست کی راہ و رسم اور داو پیچ سےخوب واقف ہیں۔ وہ خود بھی کبھی چابی بھرنے والوں کی نظروں کا ہلال تھے۔ سیاست میں قدم رکھنے سے لے کر تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا سفر بھی اسی کمال کیساتھ طے کیا، موجودہ کھیل کو سمجھنا ان کیلئے پیچیدہ بالکل نہیں، ہاں اب کی بار میاں صاحب کیلئے افتادیہ ہے کہ وہ کھیل کو ذرا ایزی لےگئے اور پھر راہ نہ نکلی تو باغی بن گئے جو اب خود ان کے لئے اور پارٹی کیلئے بھی مشکل امتحان بن چکاہے، ایک نتیجہ یہ ہے کہ میاں صاحب کیساتھ جیل، جلاوطنی اور مشکل وقت کے چند ساتھی تو اب بھی کھڑے ہیں تاہم پارٹی کے اندرونی ذرائع پریشان ہیں کہ ٹکٹ کی تقسیم انتخابی عمل سے پہلے ہی بڑا چیلنج بن گیا ہے، گو کہ جیسے تیسے قومی اسمبلی اور صوبائی حلقوں سے نئے پرانے امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ہے لیکن تین ہفتوں کے مسلسل اجلاسوں میں اہم حلقوں سے تگڑا اور کام کابندہ نہیں ملا۔ گو کہ میاں صاحب کو سزا سمیت انتخابی عمل سے پہلے کےحالات الیکشن کے رزلٹ کا پتہ دے رہےہیں لیکن ن لیگ کو اب بھی امید ہے کہ وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت نہ بھی بناسکی تو اپوزیشن کو لیڈ کرنے کی حیثیت سے مضبوط عددی پوزیشن حاصل کرلے گی، تاہم بعض طاقتور حلقوں کا دعویٰ ہے کہ جیسے2013میں فیورٹ پی ٹی آئی کو شکست کے بعد اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن بھی نہیں دی گئی تھی اسی طرح اب ن لیگ اپوزیشن میں تو ہوگی لیکن اپوزیشن لیڈر کی نشست نہیں ملے گی۔ اس معاملےمیں سب سے بڑا فیکٹر پارٹی کے سینئر ترین رہنما چوہدری نثار ہوسکتےہیں جنہوں نے پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست دینے سے انکار کرتے ہوئے آزاد انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کی قیادت میں پارٹی کے اندر بھی ایک آزاد گروپ بن سکتا ہے جبکہ بڑے اور چھوٹے بھائی کے درمیان خلیج بڑھ سکتی ہے جو انتخابات کے بعد ن لیگ کیلئے مزید مشکل کا باعث بنے گا۔ دوسری طرف برا حال پیپلزپارٹی (زرداری گروپ) کا بھی ہے جو امیدواروں کے انتخاب کے پل صراط سے کچھ گزر رہی ہے، انتخابات کے لئے سیاسی مہم سازی شروع ہونےکو ہے۔ سیاسی طاقتوں کو طے کرنا ہوگا کہ کیا چابی والے کھلونوں سے ہی کام چلانا ہے یا نئے وژن اور سمجھدار سیاسی قیادت کو پروان چڑھا کر پاکستان کو کامیاب بنانا ہے، اب بھی وقت ہے کہ پارٹی و ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر جمہوری اصولوں پر یکجا اور یکتا ہوکر سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کیا جائے، خود فیصلے کرنے کی سوجھ بوجھ پیدا کرکے چابی والے کھلونے کی گنجائش ختم کی جائے، ملکی مفاد کیلئے عظیم الجثہ سیاسی مفاہمتی حکمت عملی پر آمادہ ہوا جائے، عوام اور ملک کی بھلائی کا سوچا جائے کیونکہ محض اقتدار آپ کی منزل نہیں ہوسکتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین