• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں پچھلے ہفتے ہی پتہ چلا ہے کہ ہم ایلیٹ کلاس کے کسی مغرب زدہ گھرانے کے چشم وچراغ ہیں ،جو لعولعب کی محفلیں سجانے اور فحاشی و عریانی کا دلدادہ ہے۔ ہماری دلچسپیوں اور بودوباش کے متعلق یہ ’’نیک تمنائیں‘‘ گزشتہ کالم’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئیں ۔ پہلے آپ لاحول پڑھ لیں ، پھر ہم اپنے موقف کی آسان فہم انداز میں وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
پیارے برادران و ہمشیرگان ! جھوک فنا دی ، ہمارا تعلق ایک روایتی دیہاتی مذہبی گھرانے سے ہے ۔ ہم خود لاکھ گناہ گار سہی مگر ہمارے خاندان کے افراد نماز پنجگانہ بھی ادا کرتے ہیں اور اس گھر سے تلاوتِ کلام پاک کی صدائیں بھی بلا ناغہ سنائی دیتی ہیں ۔ پہلے بھی کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ یار لوگ علاقے میں ’’جماعت والے‘‘ کے نام سے موسوم ہیں ۔ ہم اپنے مہمانوں کو غریب خانے کا پتہ یوں سمجھاتے ہیں کہ گائوں پہنچ کر مین روڈ کے ساتھ جس رستے پر ’’خوش آمدید ، جماعت اسلامی ‘‘ کا بورڈ جگمگا رہا ہو گا ،وہ سیدھا ہمارے ڈیرے کی طرف آتا ہے ( یعنی ہمارے گھر کے رستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے ) جماعت کے ساتھ ہماری خاندانی پریت نصف صدی پر محیط ہے جو ابوالاعلیٰ سید مودودی ؒ سے لے کر جناب سراج الحق کے دور تک پھیلی ہوئی ہے ۔ مقام فخرو مباہات ہے کہ ہمارے معمولی سے مہمان خانے کو قبلہ سراج الحق ، مکرمی لیاقت بلوچ ، محترم حافظ ادریس اور جناب جاوید قصوری سمیت کتنے ہی اکابرین جماعت کے سجل پائوں نصیب ہوئے ۔ ہمارے بے تکلف اور محبوب مہمانوں میں ضلعی امیر جماعت ڈاکٹر حمیداللہ بھی شامل ہیں ۔ البتہ کوئی بھی مغرب زدہ مہمان یہاں شاذو نادر ہی پھٹکتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ہماری زندگی معروف معنوں میں کافی ’’ خشک‘‘ ہے اور ہم اس پر خوش ہیں ۔ تاہم ہم نے پچھلے کالم میں یہ عرض کرنے کی سعی کی تھی کہ ہمارے لائف اسٹائل کے برعکس اگر کسی دوسرے کی زندگی ’’تر‘‘ ہے اور ریاست کی منتخب پارلیمان کے بنائے گئے قوانین کے تحت خلافِ قانون ہے تو پھر ریاست ہی کو اس کے تدارک کا اختیار ہے۔ ’’طوافِ آرزو‘‘ میں ذاتی یا گروہی طور پر ہمارے سمیت کسی کو حق نہیں کہ وہ دوسروں کے خلاف ڈانگ اٹھا لے ۔ جنگل نہیں ، آخر جیسا بھی ہے یہ ملک ہے اور پھر ہمیں تو مہذب ہونے کا دعویٰ بھی ہے ۔ تو کیا یہ مثبت اور مہذب رویہ ہے کہ مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کو کافر اور قابل گردن زنی قرار دیا جائے ؟ اسی موقف کے حق میں ہم نے قاضی حسین احمد صاحب کے کالم کا اقتباس نقل کیا تھا کہ ’’مذہبی طبقے کو بھی تشدد کی بجائے ترغیب و تلقین کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی ترویج کی کوشش کرنی چاہئے ‘‘ ۔ اپنی بات کو مزید آسان بنانے کے لئے ذاتی مشاہدے کی ایک مثال زیر نظر ہے ۔ برادر اسلامی ملک ملائیشیا ہم سے بعد میں آزاد ہوا لیکن جس سرعت سے اس نے تعمیرو ترقی کی منازل سر کی ہیں ، وہ ترقی پذیر ممالک خصوصاً ہم ایسے امہ کی قیادت کے دعویداروں کے لئے مثال ہے ۔ ہم نے قریباً ایک ماہ تک ملائیشیا میں رہ کر ان کے ’’طریقہ واردات‘‘ کا مشاہدہ کیا۔ ان کی مضبوط معیشت ، خوشحالی ، فی کس آمدنی ،شرح خواندگی ، شہروں کی صفائی ، بلندوبانگ عمارتیں ،منظم ٹریفک ، قانون کی حکمرانی اور لوگوں کے صحت مند رویے دیکھ کر رشک آتا ہے ۔ زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پورے جوبن پر ہے ۔شہروں میں پر شکوہ مساجد بھی ہیں اور کلچرل سینٹرز بھی ۔ روحانی محافل بھی ہیں اور نائٹ کلب بھی۔ وعظ و تبلیغ بھی ہے اور تفریح کے ذرائع بھی ۔ کسی پر کوئی قدغن نہیں ، جو جہاں چاہے آزادی سے جا سکتا ہے ۔ کلب جانے والے کو کسی پرہیز گار پر اعتراض ہے ، نہ اہل مدرسہ کو ثقافتی مراکز کی سرگرمیوں پر۔ شیخ جی معتبر شہری ہیں اور رند بھی ۔ اگر کوئی معتوب ہے تو فقط قانون کی خلاف ورزی پر۔مذہبی رحجان کی حامل خواتین پردے میں مصروفِ عمل ہیں اور بہت سی مغربی تہذیب میں آسودگی محسوس کرتی ہے ۔ شام کے اوقات میں جہاں مساجد آباد ہوتی ہیں ،وہاں ثقافتی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کسی کی اخلاقیات کو متلی ہوتی ہے ، نہ کسی کا ’’ مذہب‘‘ خطرے میں پڑتا ہے ۔ کہیں کوئی تہذیبی تصادم ہے نہ لسانی فساد۔ مذہبی اقدار سے انتہا پسندی وجود میں آئی ہے ، نہ لبرل ازم سے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہوئی ہیں۔ روایت پسندی نے ملائیشیا کو نقصان پہنچایا ہے ، نہ نوجوان نسل کا کچھ بگاڑا ہے ۔ مسلمانوںکے تمام طبقے اور اقلیتیں اپنے اپنے نظریات پر قائم رہ کر بھرپور معاشرتی کردار ادا کر ر ہی ہیں۔ علماء وعظ و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو بھلائی کی طرف راغب کرتے ہیں مگر کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا کوئی رواج نہیں ۔ اپنی تمام تر ’’خرافات‘‘ کے باوجود ان لوگوں کا ایمان بہرحا ل ہم سے مضبوط ہے کہ کسی کو اپنے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ درکار ہے ، نہ بات بہ بات تجدید نکاح کی ضرورت۔ وائے حسرتا ! ہم غربت و افلاس کے ڈھیروں پر کھڑے وطن عزیز کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بڑھکیں مارتے کشکول بدست رہ گئے اور ملائیشین ترقی کا راز پا کر خاموشی سے ایشین ٹائیگر بن بھی گئے ۔
ہم اپنے نقطہ نظر کو ذرا اور بھی آسان کرتے ہیں ۔ فرزندان و دخترانِ ملت ! ہم ذاتی طور پر ان مورکھوں میں سے ہیں ، جس نے کبھی جھوٹے منہ بھی کسی کو ’’ہیپی ویلنٹائن ڈے ‘‘ نہیں کہا اور نہ کبھی ’’حیا ڈے ‘‘ منایا ہے ۔ البتہ دل سے دعا نکلتی ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی خیر اور حیا ڈے منانے والوں کا بھی بھلا۔ اگر کوئی دوسروں کی پرائیویسی متاثر کئے بغیر نئے سال کو خوش آمدید کہنے کےلئے رات بھر جاگتا ہے تو اسے مبارک اور اگر کوئی عبادت کے لئے شب بیداری کرتا ہے تو اسے صد مبارک۔ جو اپنی حدود میں رہ کر بسنت مناتا ہے اسے سلام اور جو کسی روحانی محفل میں سکون پاتا ہے اسے دو سلام۔ جس نے ٹریفک کو ڈسٹرب کئے بنا عورتوں کے حقوق کے لئے جلوس نکالا اسے صد آفریں اور جس نے کسی نیک عمل کے لئے ایسا کیا اسے ہزار آفریں ۔ جو فقط اپنے کمرے تک آواز محدود کر کے موسیقی سے دل بہلاتا ہے اسے آداب اور جو صرف ہال کا منی اسپیکر کھول کر وعظ و تبلیغ کرتا ہے اسے سر جھکا کر آداب۔ ہمارے ناقص فہم میں مذہبی رحجان رکھنا جرم ہے نہ لبرل تہذیب اپنانا۔ قابل مذمت اور قابل گرفت جرائم اپنی قانونی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرنا ، جبر و تشدد کے ذریعے مخلوق خدا پر اپنے نظریات ٹھونسنا، ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنا ، دوسروں کے حقوق غصب کرنا ، ٹیکس چوری کرنا اور خیانت ہیں، چاہے وہ کوئی طبقہ بھی کرے ۔ اگر کوئی محدود سی اقلیت پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھی تو اس نے کوئی جرم نہیں کیا کہ شخصی آزادیوں کے تحت اسے یہ حق تھا لیکن اگر کوئی اقلیت چاہے وہ مذہبی ہو یا لبرل ،اکیسویں صدی کے مسلمہ جمہوری اصولوں کو روندتے ہوئے محمد علی جناحؒ کے اس ’’ گناہ ‘‘ میں شریک غالب اکثریت کو بھیڑ بکریاں تصورکر کے ان کا گڈریا بن بیٹھے یا ہمارے بچوں کے قاتلوں سے ہمدردی رکھے تو یہ ضرور قابل گرفت ہے ۔ تاہم اس پر بھی ریاست ہی کو بروئے کار آنا چاہئے ۔
بس صاحب ! اب اس سے زیادہ ہم اپنے موقف کو آسان فہم نہیں بنا سکتے کہ جس دن ہم نے خدا اور بندے کے درمیان تعلق میں دخل اندازی چھوڑ د ی اور جس دن ہم نے دوسروں کے افعال اور ایمان کا مشاہدہ کرنے کی خو ترک کر کے اپنے گریبان میں جھانکنے کی روش اپنا لی ،ہمارے ہاں کوئی تصادم نہیں رہے گا۔
تازہ ترین