• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل یہ بحث جاری ہے کہ ’’مدارس کی رجسٹریشن کون کرے،ریاست یا تنظیماتِ مدارس؟‘‘۔حالانکہ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے یہ مقولہ دیکھ لینا چاہئے کہ ’’کوّا تمہارا کان لے اڑا‘‘،تو کوّے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے اپنے کان کو ہاتھ لگا کر دیکھ تولیاکروکہ آیا کان اپنی جگہ پر موجود ہے یا نہیں؟‘‘سو یہاں بھی دانائے روزگار لوگ اپنے کان کو چھو کر دیکھنے کی بجائے کوّے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اپنی دانش وفہم کے موتی لٹارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ’’ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان‘‘ نے کب یہ مطالبہ کیا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن ریاست نہیں کرے گی ،ہم کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ دانشوروں کا کام لوگوں میں کسی مسئلے کے بارے میں آگہی اور شعورپیدا کرنا ہوتا ہے یا قوم کو ذہنی اور فکری انتشار اور کنفیوژن میں مبتلا کرنا ہوتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس بحث سے پہلے اتحادتنظیمات مدارس پاکستان کے موقف کو جانا جاتا ناکہ اندھیرے میں تیر پھینک دیا جاتا۔
حکومت جب کسی طبقے کے بارے میں قانون بناتی ہے اور وہ طبقہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ اس قانون سے اس کی حق تلفی ہورہی ہے ،تو وہ احتجاج کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ایسی دفعات کو ،جن سے ہمارے حقوق پامال ہوں گے، اس مسوّدۂ قانون سے نکالا جائے ۔آئے دن تاجر احتجاج کرتے ہیں ،کبھی مزدور احتجاج کرتے ہیں اورکبھی دیگر طبقات احتجاج کرتے ہیں،جیسے حال ہی میں پی آئے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے احتجاج کیا ۔فرض کریں اگر آج حکومت الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے لئے ایسا قانون بنائے ،جس کے بارے میں صحافی حضرات کو تحفظات ہوں کہ اس سے اُن کی آزادی پامال ہوگی اور وہ اس پر احتجاج کریں ،تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ریاست کے قانون سازی کے حق کی نفی کر رہے ہیں؟
دینی مدارس وجامعات کے بارے میں ہر ایک کواپنے تعصبات پالنے کا حق ہے ،لیکن اگر دینی مدارس وجامعات اپنے حقوق کے لئے پر امن طریقے سے کوئی احتجاج کریں یا کوئی مطالبہ کریں یا جانبدارانہ مسوّدۂ قانون کو واپس لے کر اس کو منصفانہ بنانے کا مطالبہ کریں ،تو کیا اسے ریاست اور اس کے اقتدار یا ریاست کے حقِ قانون سازی کی نفی سمجھنا منصفانہ بات ہے یا کسی کے موقف کی غلط تعبیر کر کے قوم کو حقائق سے اندھیرے میں رکھنا جائز بات ہے؟،کیا میڈیا کی آزادی کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے سوا اس ملک کے کسی شہری کا کوئی حق نہیں ہے ؟قارئین کی معلومات کے لئے یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے عہدِ حکومت میں سوسائٹیز ایکٹ میں دفعہ 21کا اضافہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لئے کیا گیا تھااور پھر مدارس اس کے مطابق رجسٹریشن کراتے رہے ،یہاں تک کہ حکومت نے خود اسے روک دیا۔کیونکہ وقتاً فوقتاً ہمارے بعض مہربانوں کے دلوں میں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ زنجیریں مزید جکڑ دی جائیں اور مدارس اور اہلِ مدارس کو کچل کر فنا کردیا جائے ،لیکن یہ خواہش شایدکبھی پوری نہ ہو۔ہم بارہا کہہ چکے ہیںکہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بتدریج اصلاح کی کوشش کریں اور بلاوجہ تصادم کے حالات نہ پیدا کئے جائیں۔
حال ہی میں ہم نے امریکہ سے سوال کیا تھا کہ کئی سوارب ڈالرخرچ کرنے ،اپنی افواج دوسرے ممالک میں اتارنے اور کم وبیش ایک ملین انسانوں کی جانیں لینے کے بعد کیا اب دنیا میں امن قائم ہوگیا ہے یا صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہے،دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑ دیا گیا ہے یا اس کی افزائش ہورہی ہے ،کیا امریکی یلغار کے بعد کا عراق صدام کے عراق سے زیادہ پرامن اور پرسکون ہے ،آج کا لیبیا قذافی کے لیبیا سے زیادہ امن کی آماجگاہ بن چکا ہے ،آج کا افغانستان طالبان کے افغانستان سے زیادہ پرسکون ہے ۔اگر ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو کیا اس امر کی ضرورت نہیں ہے کہ پوری پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اور دیگر طبقات ایسا انداز اختیار نہ کریں کہ جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ بطور خاص مدارس اور اہل مدارس سے تعصب برتا جارہا ہے اور جانب دارانہ سلوک کیا جارہا ہے ،آپ مدارس کی اصلاح کا عنوان چھوڑ کر ایجوکیشن ریفارمز کی بات کیوں نہیں کرتے، جس کا سب پر اطلاق یکساں ہو ۔سندھ اسمبلی میں پیش کئے گئے جس مسوّدۂ قانون (Bill)پر ہم نے اعتراض کیا، وہ یہ ہے کہ مدرسے کی رجسٹریشن سے پہلے ہوم سیکرٹری اور سندھ بلڈنگ کنٹرول سے این او سی لی جائے گی ۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ ایک ایجوکیشنل سوسائٹی قانون کے مطابق پہلے رجسٹریشن کراتی ہے اور اس کے مقاصد میں تعلیمی ادارہ (اسکول یا کالج یا مدرسہ) قائم کرنا مقصود ہوتا ہے اور پھر وہ انجمن یا سوسائٹی جب ادارہ قائم کرتی ہے تو اس کاقانون کے مطابق حکومت کے متعلقہ ڈائریکٹریٹ یاکسی تعلیمی بورڈ یا کسی یونیورسٹی سے الحاق کرتی ہے اور جو بھی اس کے قانونی تقاضے ہوتے ہیں ،اسے پورا کرتی ہے۔
پاکستان میں عام سطح کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات تو چھوڑیئے،سٹی اسکول سسٹم، بیکن ہائوس اسکول سسٹم اور دیگر اعلیٰ معیار کے انگریزی تعلیمی ادارے پرائیویٹ بنگلوں میں قائم ہیں ،نہ تو اُن کے بارے میں بلڈنگ کنٹرول سے این او سی لیا گیا ہے اور نہ ہی ان عمارات کوقانونی طریقے سے کمرشلائز کرکے سرکاری واجبات ادا کئے گئے ہیں ،بیشتر میرج گارڈنز /لانز کی صورت حال بھی یہی ہے ۔اگر یہ قانون ان سب پر لاگو کیا جائے تو اگلی صبح 80سے 90فیصد پرائیویٹ اسکول اور کالج بند ہوجائیں گے۔ مانا کہ بعض دوستوں کے نزدیک اسلامی ریاست میں دینی تعلیمی ادارے قائم کرنا جرم ہے ، لیکن بقول غالب :
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہیں، کافر نہیں ہم
اور
تمہاری زلف میں پہنچی، تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی ،جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
صوبۂ سندھ کی اسمبلی میں یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی جب کہ وفاق کی سطح پر مدارس کی رجسٹریشن ،ڈیٹا فارم حتیٰ کہ ’’قومی بیانیہ ‘‘مرتب کرنے میں ہم نے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور اس کا بنیادی مسوّدہ ہم نے تیار کرنے میں مکمل تعاون کیا اور تمام مدارس کی تنظیمات سے اس کی منظوری لے کر حکومت کے کام کو آسان بنایا اور ان سارے امور میں وفاق نے صوبوں کو اعتماد میں(On Board)لیا ،البتہ چند امور پر کام جاری ہے اور اس کی تاخیر کا سبب حکومت کے متعلقہ ادارے ہیں ،اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نہیں ہے۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہمارے دفاعی اور حسّاس اداروں کے سربراہان بھی اس پیش رفت سے آگاہ ہیں ۔ہم جب میڈیا پر ماہرین کو مفروضوں کی بنیاد پر طویل بحثیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ،تو خبر دینے والوں کی بے خبری پر افسوس ہوتا ہے کہ جنہیں ہم ابلاغ کا سلطان سمجھتے ہیں ،وہ ہم سے بھی زیادہ سہل پسند ہیں ،صرف سرِ شام اسٹوڈیوز میں بزم سجانا ہی کافی ہے ۔ہم نے مفصل پریس کانفرنس کی ،اُسی کے متن کو ہی پڑھ لیا ہوتا تو داستان اتنی طویل نہ ہوتی اورہمارے ماہر تجزیہ کار ہم جیسے خاکسارانِ جہاں پر مشقِ ناز کرنے کی بجائے کسی اعلیٰ موضوع پر اپنی دانش کی سوغات لٹاتے اور ہم بھی اس سے فیض یاب ہوتے،سراج اورنگ آبادی نے کہا تھا:
خبرے تَحَیُّرِعشق سن،نہ جنوں رہا ،نہ پری رہی
نہ تو تُورہا، نہ تو مَیں رہا،جو رہی سو بے خبری رہی
تازہ ترین