• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید الفطر....ذِکر، شکر اور تفریحات کا موقع

حامد فیاض، اسلام آباد

عموماً ہر عید کے موقعے پر یہی پڑھنے اور سُننے کو ملتا ہے کہ ’’یومِ عید پر مرغّن غذاؤں سے اجتناب برتا جائے، تاکہ معالج، طبیب سے رجوع کی ضرورت نہ پیش آئے۔‘‘عید کے تہوار کی معاشرتی و دینی حیثیت جانے بغیر اور ان مواقع پر صحیح رویّے کا ادراک کیے بغیر اس موضوع سے انصاف ممکن نہیں۔انسانی معاشرت کا کوئی دَور ایسا نہیں، جو کبھی تہوار کے بغیر گزرا ہو۔ الہامی مذاہب میں بھی ہم انھیں عمومی دستور کی حیثیت سے یک ساں جاری دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے عید الفطر اور عیدالاضحی کے تہوار ذکر، شُکر اور تفریحات کے لیے خاص ہیں۔ عید الفطر رمضان کے فوراً بعد یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ روزہ، پروردگار کی بے پایاں رحمتوں کی برسات کے ساتھ ساتھ ایک مقررہ وقت تک کھانے پینے سے رُکنے اور کچھ پابندیوں کا نام ہے۔ اس کے اختتام کا مطلب یہ ہواکہ اب مذکورہ پابندیاں ہٹا دی گئیں، اس لیے معمول کے مطابق زندگی گزارو، اللہ کا شُکر بجا لائو اور کچھ تفریح کا اہتمام بھی کرو۔تمام مسلمان اسی لیے عید کے دِن صُبح سویرے نمازِعید کا اہتمام کرتے ہیں۔ بلاشبہ عید بہت ہی پُر مسرت تہوار ہے، اس روز ہم سب سے ملتے ملاتے، خوش ہوتے اور اگر کوئی روٹھا ہو،تو اُس سے ناراضی دُور کرتے ہیں۔نیز، خوشی کے اظہار کے طور پراہلِ خانہ اور عزیز اقارب کے لیے عام روٹین سے ہٹ کر کھانے پینے کے لوازمات کابھی لازماًاہتمام کیا جاتا ہے۔خوشی منانا ایک فطری تقاضا ہے،جس کا اظہار انسان مختلف تفریحات کی صورت بھی کرتا آیا ہے۔چوں کہ عید کا یہ موقع تفریحات کا بھی متقاضی ہے، اس لیے اپنی اپنی ثقافت کے مطابق چھوٹے، بڑے تفریحِ طبع کا بھی کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کرتے ہیں۔رسولِ مہربان محمّدﷺ جب مدینہ تشریف لائے، تو فرمایا، ’’تم سال میں دو خوشیاں منایا کرتے تھے، اب اللہ نے تمھیں ان سے بہتر دو دِن عطا فرمائے ہیں۔ یعنی عید الفطر اور عید الاضحی۔نبیِ کریمﷺکا ارشاد ہے،’’یہ ایّام کھانے پینے، باہم خوشی کا لطف اُٹھانے اور اللہ کو یاد کرنے کے ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،’’عید کا دِن تھا، کچھ لونڈیاں بیٹھی وہ اشعار گارہی تھیں،جو جنگ بعاث سے متعلق انصار نے کہے تھے کہ اسی دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے اور بولے،’’ نبیِ کریمﷺ کے گھر میں گانا بجانا؟‘‘ رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا،’’ابو بکرؓرہنے دو ، ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دِن ہے اور آج ہماری عید کا دِن ہے۔‘‘ایک بار عید کے دِن کچھ حبشی بازی گر کرتب دکھا رہے تھے ۔ آپﷺنے یہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہ ؓ کو بھی دکھائے ۔

تقریباً سب ہی یہ بات جانتےہیں کہ ہر رشتہ و تعلق جذبات کے باطنی ظہور کے ساتھ ساتھ خارجی ظہور کا بھی تقاضا کرتا ہے،جس کا اظہار ملنے ملانے، مل بیٹھ کر کھانے پینے سے کیا جاتا ہے۔ اوریہی وہ فطری طریقہ ہے، جس سے رشتوں اور ان جذبوں کی آب یاری کی جا سکتی ہے۔ چوں کہ خوشی و انبساط کے اس موقعے پرعموماً پُرتکلف کھانوں سے ایک دوسرے کی خاطر مدارات کی جاتی ہے، تو عموماً اپنی اور دوسروں کی خاطرکچھ اضافی کھانا، کھانا ہی پڑجاتا ہے۔آنحضرت محمّدﷺکے دستر خوان پر کوئی مہمان آتا، تو آپ بار بار اُس سے فرماتے، ’’کھائیے اور کھائیے۔‘‘ جب مہمان خُوب سیر ہو جاتا اور بے حد انکار کرتا، تو تب آپ ﷺ اصرار نہ کرتے۔ایک فرد ،عمومی حالات میںاپنی جسمانی ضرورت و عادت کے مطابق ہی کھا تا ہے اور بہت کم افراد بسیار خوری کا شکار ہوتے ہیں ۔ خوشیوں بَھرے اس موقعے پر ہر گھر میں مختلف اقسام کے میٹھے اور نمکین پکوان بنائے جاتے ہیں۔وہ افراد، جوبالعموم حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھاتے پیتے ہیں، انھیںاس پُر مسرت موقعےپربداحتیاطی برتنے کے باوجود طبّی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ عید کے موقعے پر مرغّن کھانے مثلاً کڑاہی گوشت، فاسٹ فوڈز، بروسٹ، کباب، بریانی، حلوا پوری، سویّاں اور دیگر میٹھی اشیاء کے استعمال کی زیادتی اور مضراثرات کی عمومی ہدایت سے قطع نظر یہ بات جان لینی چاہیے کہ چند دِنوں کی بدپرہیزی سے زیادہ سے زیادہ معدے میں گرانی تو ہو سکتی ہے،لیکن اس بے اعتدالی کواگر معمول نہ بنایا جائے، تو زندگی بَھر کے لیے ایسے مواقع سے ہم خُوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔عمومی مشاہدہ بھی یہی ہے کہ پریشانی، اُداسی اور محرومی میں معدہ معمول کا کام چھوڑ دیتا ہے، جب کہ خوشی کے مواقع پر جسمانی توانائیاں بحال ہی نہیں، بہت حد تک بڑھ بھی جاتی ہیں اور معدے کوبھی معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتاہے۔ عید پر مرغوبُ الطبع ایک ساتھ دیکھ کربھوک بڑھ جاتی ہے۔ اس موقعے پر بالعموم اطباء اورحکما ء کی جانب سے دی جانے والی ہدایات و تحدیدکی پابندی اپنے گھر توممکن ہے، لیکن دیگر جگہوں ، اعزیزو اقارب کے یہاں ممکن نہیں کہ ان کے اصرار پر کچھ نہ کچھ اضافی کھانا ہی پڑجاتاہے۔بے وقت کی پابندیوں اور ان مواقع پر ہمارے معاشرتی رویّے دیکھتے ہوئے مستنصر حسین تاڑر کا کہنا ہے کہ،’’ہمارے ہاں خوشی پر مکمل طور پر پابندی ہے ۔ خوشی کو’’ مضرِ صحت‘‘ سمجھا جاتا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے ہم نفسیاتی طور پر زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔خوش ہوتے بھی ہیں، تو ساتھ میں خود کو مجرم بھی محسوس کرنے لگتے ہیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جنھیںاچھی صحت سے نوازا ہے ، وہ اس عید پرخود بھی کھائیں، پئیں اوردوستوں، عزیزوں کو بھی کھلائیں کہ یہ عمل محبّت کے اظہاراور اسے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔اور سب سے بڑھ کر ہمارے نبیﷺکا اسوہ ہے۔ ان کھانوں میںپڑوسیوں اور غریبوں کو بھی ضرور شریک کریں۔بس،ایک بات کا خیال رکھیں کہ اسراف اور تفاخر سے بچیں اور کھانوں کو ضایع ہونے سے بچائیں۔نیز، عمومی ہدایت کے مطابق شکم کو اتنا بَھرنے کی کوشش کریں کہ پانی پینے اور سانس لینے میں کوئی دشواری محسوس نہ ہو۔ اس موقعے پر اللہ کی دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ صحت جیسی گراں مایہ نعمت کا بھی شُکر ادا کریں۔دینِ اسلام کو اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے، تو یوں کہا جاسکتا ہے،’’اللہ کی عبادت اور مخلوق کی ضیافت۔‘‘ مہمانوں کی عمدہ ضیافت کرنا اوراُنھیں سیر ہوکر کھلاناہمارے پیارے نبیﷺ کا اسوہ ہے۔لہٰذا اس موقعے پر تمام عزیزوں، رفقا و احباب کو مدعو کریں اور ان کی جانب سے دی جانے والی دعوتِ طعام بھی قبول کریں کہ یہ مسرت سے بھرپور موقع اپنی روایات، تہذیب و ثقافت کو زندہ کرنے کا بھی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ آج کل ہمارے یہاں دیگر مُمالک کے پکوان بڑی رغبت سے کھائے جاتے ہیں، لہٰذا صرف کھانوں کو نہیں، بلکہ پاکستان کے روایتی کھانوں کو ترجیح دیں۔پھر چوں کہ ہمارا علمی سرمایہ ہی نہیں، تہذیبی و ثقافتی سرمایہ بھی گردو پیش سے متاثر ہونے کے باعث آخری سانسیں لے رہا ہے، تواس موقعے پر اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھیں ، ان کی رہنمائی میں اپنی تہذیبی روایات کو زندہ کرنے کی کوشش کریں ۔ یقین جانیں، یہ تہذیبی روایات ہی انسانیت کاحُسن، اُس کے چہرے کا جمال ہیں۔

عموماً عید الفطر کے موقعے پر معالجین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ’’ اگرماہِ صیام کا تسلسل درکار ہے، تو شکم کی نہیں، معالج کی مانیں۔‘‘حالاں کہ یہ موقع رب العالمین نے ذکر، شُکر اور تفریحات کے لیے مخصوص کیا ہے۔ اگرخالق کو صیام کے بعد بھی اس کا تسلسل برقرار رکھنا ہوتا، تو عید کا یہ دِن کسی اور مہینے میں مقرر فرمادیتے۔مزید یہ کہ ذرا اس قوم کے سحر و افطار پر بھی غور کیا جائے۔اس ضمن میں سوشل میڈیا میں بہت مقبول ہونے والا ایک فقرہ ملاحظہ کریں،’’روزے دار ہر افطاری کو ولیمہ سمجھ کر یا زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر کھا رہے ہوتے ہیں۔‘‘ اس فقرے میں مزاح کا عنصر شامل کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ مبالغےسے کام لیا گیا ہو، لیکن مجموعی طور پریہ فقرہ ہمارے معاشرتی رویّے کی درست عکّاسی کر رہا ہے۔ صحت مند افراد کو زیادہ سے زیادہ اعتدال ہی کی طرف توجّہ دلائی جاسکتی ہے کہ وہ اس پُرمسرت موقعے پراپنے یا کسی کے گھر یا پھرہوٹل وغیرہ میں کھاتے ہوئے، اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ معدے میں مزید کھانے کی گنجایش باقی رہے، تاکہ کھانے کے لیے کسی کا اصرار، محبّت کی بجائے زحمت و اذیّت میں شمار نہ ہو۔علاوہ ازیں، معمولی نوعیت کے امراض میں بھی اس موقعے پر معمول سے ہٹ کر کچھ زیادہ کھانا یا معمولی مقدار میں مرغّن اشیاء استعمال کرنا کچھ خاص تکلیف کا سبب نہیں بنتا۔ تاہم، مریضوں کو اعتدال ہی سے کام لینا چاہیے، مگر اس اعتدال کو پرہیز نہ سمجھا جائے۔ تاہم، وہ بیمار افراد، جو کسی نہ کسی دائمی مرض میں مبتلا ہیں، اس موقعے پر کھانے پینے میں اعتدال کے ساتھ ساتھ احتیاط سے بھی کام لیں، بالخصوص بُلند فشارِ خون، ذیابطیس اور معدے کے السر سے متاثرہ افراد کہ ان عوارض کا براہِ راست تعلق غذا سے ہے۔ یہ مریض عموماً پرہیز کرکے، زبان کی لذّت اور کھانوں کے ذائقوں کو بھی تقریباً بھول چکے ہوتے ہیں، لہٰذا جہاں تک ان کی صحت اور معالج اجازت دے، کھائیں، پئیں اور خوشیوں میں شریک ہوں۔ تاہم، ان مریضوں کے لیے بعض عمومی ہدایات ضرور ہیں۔ مثلاً ذیابطیس کے مریض کھانے کی مقدار کنٹرول کرکے زیادہ تعداد میں اپنی پسندیدہ غذائیں کھا سکتے ہیں، البتہ میٹھی اشیاء کے استعمال میں اعتدال کا اصول اپنایا جائے، تو بہتر ہے۔تاہم،بلڈ شوگر لیول کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ میٹھا کھایا جاسکتا ہے،جب کہ دیگر غذائیں معمول کے مطابق استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔پانی کا استعمال زیادہ کریں۔اگر کھانے میں زیادتی ہوجائے، تو کچھ دیر کے لیے تیز رفتاری سے چلیں۔معدے کے السر میں مبتلا افراد زیادہ تلی ہوئی اور مرغّن اشیاء زائد مقدار میں استعمال نہ کریں،جب کہ زیادہ ٹھنڈی اور زیادہ گرم چیزوں کا استعمال نہ کیا جائے۔ سویّاں، حلوا، سلاد، چنا چاٹ اور معمولی مقدار میں عید کے پکوان کھاسکتے ہیں۔بُلند فشارِ خون کے مریض نمک کا استعمال کم سے کم کریں۔مرغّن غذائیں کم مقدار میں کھائیں،البتہ دیگر کھانے جن میں نمک کی مقدار کم ہو، کھا سکتے ہیں۔سلاد اور پانی کا استعمال زیادہ کریں اور کچھ دیر کے لیے آرام بھی ضرور کریں۔

(مضمون نگار،علومِ اسلامیہ اور علمِ نفس کے طالب علم ہیں)

تازہ ترین