• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی یومِ والد، خصوصی اہتمام

تحریر: نرجس ملک

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

’’رہا پا برہنہ وہ خُود مگر، نیا بُوٹ مجھ کو دِلا دیا… میرے باپ کے اِسی رُوپ نے مجھے باپ جیسا بنا دیا… جو گلاب تازہ تھے، رکھ دیئے کسی ٹوٹی پھوٹی سی قبر پر… وہ جو خار دار سی بیل تھی، اُسے راستے سے ہٹا دیا…کسی خالی طاق میں روشنی کی لکیر لمبی سی کھینچ دی… کہیں اِک شکستہ فصیل پر کوئی موڑ اُجلا بنادیا… مَیں تماشا دیکھنا چاہتا تھا، سَروں کی اونچی قطار سے… مِرے پیر کاندھے پہ رکھ دیئے، مجھے دوسروں سے بڑھادیا… جو گلہ کیا کبھی دھوپ میں کہ یہ سفر تو ہے بڑا کٹھن… تو رَدا میں مجھ کو چُھپا لیا، کڑی دھوپ، لُو سے بچالیا… کبھی سردیوں میں ہوا چلی، تو ٹھٹھرتی رات کو فرش پر… مِرا باپ چُپکے سے سوگیا، مجھے اپنا کھیس اُڑھادیا‘‘۔ باپ تو سارے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کل کے سخت گیر، بہ ظاہر اپنے خول میں بند، حّدِفاصل رکھنے والے باپ ہوں یا آج کے بے حد نرم و شفیق، حد درجہ فرینڈلی، دوست نُما باپ۔ وہ باپ گھر میں داخل ہوتے تھے، تو سارا شور، ہنگامہ یک دَم سکوت میں ڈھل جاتا۔ یہ گھر آتے ہیں، تو چھوٹے بچّے دروازے ہی سے ٹانگوں سے لپٹ کر ضدیں، فرمایشیں کرنے لگتے ہیں، جب کہ بڑوں کی سرگرمیاں بدستور جاری رہتی ہیں۔ وہ باپ صرف غصیلی نگاہ، کڑے تیوروں ہی سے دیکھ لیتے، تو اولاد کا خون خشک ہو جاتا۔ یہ باپ ’’بیٹا ! بُری بات، ایسے نہیں کرتے‘‘ ہی کہتے رہ جاتے ہیں اور بچّے مَن مانیاں کرتے پھرتے ہیں۔ اُن باپوں کے ڈراوے، مائیں سارا دن دیتے نہیں تھکتی تھیں کہ ’’ذرا باپ کو آلینے دو، وہی آکر تمہیں ٹھیک کریں گے‘‘ اِن باپوں کو ڈرانے، اپنی بات منوانے کے لیے ’’ماما‘‘ کے نام کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ ’’تمہاری ماما نے دیکھ لیا ناں… تمہاری ماما کو پتا چل گیاناں… تمہاری ماما نے سختی سے منع کیا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ وہ باپ نوالہ، سونے کا کھِلاتے، تو نگاہ شیر کی رکھتے۔ یہ باپ نوالہ تو سونے بلکہ ہیرے کا بھی کِھلاتے ہیں، لیکن نگاہ گیدڑ کی بھی نہیں رکھتے۔ وہ باپ کسی بڑی کام یابی پر کاندھا تھپتھپاتے، شاباشی دیتے، عید تیوہار پر سینے سے لگاکے بھینچتے، رات گئے سوتے میں چادر، کمبل درست کرکے ماتھا چوم جاتے۔ یہ باپ ہمہ وقت کاندھوں پہ اُٹھائے، گلوں، بانہوں میں بانہیں ڈالے پھرتے، گال، سر، منہ چوم کے اظہارِ محبت کرتے رہتے ہیں۔ وہ باپ جائز ضروریات، خواہشات بھی پوری کرتے تو کچھ تحفّظات، شرائط کے ساتھ۔ یہ باپ ضروریات و خواہشات تو ایک طرف، تعیشّات کا ڈھیر لگا کے بھی شُکرگزاری و ممنونیت کے الفاظ تو دور، اِک نگاہِ تشکّر تک کے منتظر ہی رہتے ہیں۔

عالمی یومِ والد، خصوصی اہتمام

ویسے بہت حیرت انگیز بات ہے کہ محض چند دہائیوں میں باپ اور اولاد کے رشتے کا تصوّر یک سَر تبدیل ہوکے رہ گیا ہے۔ ابھی وہ نسل بقیدِ حیات ہے کہ جس نے گھر میں اپنے باپ کو باقاعدہ ولی، اوتار، سربراہ و نگراں ایک ’’دیوتا‘‘ کے روپ میں دیکھا اور اِک آج کا باپ ہے، جس پر ’’شعلے‘‘ فلم کا ڈائیلاگ سو فی صد صادق آتا ہے کہ ’’بہو و و ت یارانہ لگتا ہے‘‘ اولاد کے ساتھ، باپ کی بے باکی کی حد تک بے تکلّفی، یاری دوستی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر، بات وہیں آکے ختم ہوتی ہے، جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ بہرحال، باپ سارے ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ رشتوں کے روپ سروپ، رنگ ڈھنگ ضرور بدل گئے ہیں، مگر بنیادی اجزاء، فطرت و سرشت (Basic ingredients/Components, Mother nature) وہی ہے۔ ازل سے آج تک ماں کی ممتا، دُعا کا وہی انداز کہ ؎ تیرے پیار کا ساون ایسا برسا ماں.....ٹھنڈا لگتا ہے، اب ہراِک صحرا ماں اور ؎ اُٹھائے ہاتھ ماں نے جب کبھی دُعا کے لیے… تو رَبّ نے سارے درِ مستجاب کھول دیئے۔ اور باپ کی محبّت و شفقت، احساسِ ذمّے داری کا وہی عالم کہ ؎ مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ… میرے بچّے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے اور ؎ اُن کے سائے میں بخت ہوتے ہیں… باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں۔

عالمی یومِ والد، خصوصی اہتمام

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ’’پروفیسر‘‘، محمّد حفیظ کی ٹیم کے لیے خدمات ہی اتنا مضبوط حوالہ ہے کہ مزید کسی لمبے چوڑے تعارف کی ضرورت نہیں، بس ’’نام ہی کافی ہے‘‘۔ آل رائونڈر کی حیثیت سے تو اچھی پرفارمینس دیتے ہی رہے کہ جارحانہ بیٹنگ، متوازن بائولنگ کے ساتھ ذمّے دارانہ اننگز کھیلنے میں شہرت رکھتے ہیں، ساتھ ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ 50ٹیسٹ، 197ون ڈے انٹرنیشنل، 78ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے والے ’’پروفیسر آف سرگودھا‘‘ گرچہ اپنے بائولنگ ایکشن کے متنازع ہونے کے سبب 2017ء میں ٹیم سے باہر ہوئے، لیکن اِن دنوں کلیئرینس کے بعد دن رات نیٹ پریکٹس میں مصروف ہیں۔ سخت محنت اور فارم میں آنے کے بعد بہت پراُمید ہیں کہ جلد ہی پاکستانی ٹیم کا حصّہ ہوں گے۔

عالمی یومِ والد، خصوصی اہتمام

17؍اکتوبر1980ء میں سرگودھا میں جنم لینے اور 20؍اگست 2003ء میں اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے، سات بہن بھائیوں (4بھائی، 3بہنیں) کے سب سے چھوٹے، لاڈلے بھائی، محمّد حفیظ، تین بہت پیارے پیارے بچّوں کے باپ بھی ہیں۔ 11سالہ بیٹا روشان حفیظ، باپ کی آنکھوں کا تارا ہے، تو 8سالہ ایمان حفیظ اور ڈھائی سالہ امل حفیظ بھی گویا انوارالعین (آنکھوں کی روشنیاں) ہیں۔ محمّد حفیظ کی پروفیشنل لائف کی ساری کام یابیاں، کامرانیاں ایک طرف، مگر تین مَن موہنے جگر گوشوں کا باپ ہونے کی سرخوشی اپنی جگہ ہے۔ حفیظ کہتے ہیں ’’میرے خیال میں تو میری زندگی کی بیسٹ انویسٹمنٹ میرے بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ میری بھرپور کوشش ہے کہ میں اپنے بچّوں کی صُورت اس معاشرے کو بہترین انسان دوں۔ اسی لیے میں دنیا میں کہیں بھی ہوں، اپنی اولاد سے غفلت کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ بلکہ میں ہی کیا، شاید دُنیا کا ہر باپ یہی خواہش رکھتا ہے کہ ا ُس کی اولاد کا مستقبل انتہائی روشن و شان دار ہو اور اس کے لیے ہر باپ ہی حتی الامکان جتن و جدوجہد بھی کرتا ہے۔ میرے والد نے کی، اُن کے والد نے کی، اُن کے والد کے والد نے کی۔ یہ سلسلہ تو ازل سے جاری ہے اور یقیناً ابد تک رہے گا۔ وقت و حالات، مواقع، وسائل میں فرق ہوسکتا ہے، لیکن کسی بھی باپ کے احساسِ ذمّے داری، شفقتِ پدری، پر کسی صورت ڈائوٹ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اوصاف تو ربّ ِکریم کی طرف سے ودیعت کیے جاتے ہیں۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جنم لیتے، پروان چڑھتے ہیں۔ یہ بندے کے اپنے اختیار کا معاملہ ہی نہیں ہے کہ ایک مرد کے باپ بنتے ہی، یہ اُس کی سرشت و فطرت کا حصّہ، خاصّہ بن جاتے ہیں۔ جیسے ممتا، عورت کی جینز میں شامل ہے، ایسے ہی اولاد کے لیے سائبان ہونےکا احساس، شفقت و ایثار کا جذبہ، گویا باپ کے لہو میں رواں دواں رہتا ہے۔ جب تک مَیں خود باپ نہیں بنا تھا، میرے یہ احساسات و جذبات بھی نہیں تھے، لیکن روشان کے میری گود میں آتے ہی جیسے پَل بھر میں میری کائنات ہی بدل گئی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ والدین سے اولاد کی ذرا سی تکلیف بھی کیوں نہیں دیکھی جاتی۔ کوئی بھی خواہش کیسے نہیں ٹالی جاتی۔ اولاد کی خوشی، کام یابی کے لیے تن مَن دھن وارنے، سر دھڑ کی بازی لگانے کو ہمہ وقت کیسے تیار رہا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ اللہ پاک کی اپنے بندوں سے محبت و مؤدت کے اظہار ہی کا ایک طریقہ ہے کہ اُس نے والدین کے رُوپ میں ایک انتہائی بے غرض و بے لوث، بے مثل و اَن مول رشتہ تخلیق کردیا، وگرنہ اس دُنیا میں ایسا کون ہوسکتا ہے، جو اپنی ذات یک سَر پسِ پشت ڈال کر، اپنے وجودکی مکمل نفی کرکے، اِک دوسرے وجود کو پالنے پوسنے، پروان چڑھانے میں اپنی پوری حیاتی وقف کردے اور پھر یہ کہ اتنا لمبا عرصہ، طویل پراسس کسی تکلیف، آزار کا باعث بھی نہیں بنتا۔ اولاد کے لیے سخت سے سخت تکلیف اٹھانے، بڑی سے بڑی قربانی دینے میں بھی اِک عجب مسّرت و خُوشی، راحت و سُکون کا سا احساس غالب رہتا ہے‘‘۔

عالمی یومِ والد، خصوصی اہتمام

’’آج کے باپ تو کچھ الگ ہی قسم کے باپ ہیں، آپ کے والد کا رویّہ، آپ کے ساتھ کیسا تھا؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو محمّد حفیظ نے ہمارے مؤقف کی نفی کی، ’’نہیں، نہیں، آج کے باپ ہوں یا کل کے، میرے خیال میں تو باپ کی اولاد کے لیے شفقت و محبت،فکر و احساس ہر شک و شبے سے بالاتر ہے۔ میرے والد صاحب کے لیے بھی، میری خواہش، میری خوشی سب سے مقدّم تھی، تب ہی تو میں نے تعلیم اَدھوری چھوڑ کر کرکٹ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی اور انہوں نے بلا پس و پیش مان لی۔ حالاں کہ مَیں تعلیمی میدان میں اچھا خاصا تھا۔ اگر وہ بھی روایتی باپوں کی طرح ڈٹ جاتے، تو بھلا میں کیا کر سکتا تھا۔ انہوں نے میری صلاحیتوں پر بھروسا کیا۔ میں جو کرنا چاہتا تھا، کرنے دیا۔ تب ہی تو آج میری اِک شناخت ہے۔ بہ خدا، میں آج جو کچھ بھی ہوں، صرف اپنے والدین کے طفیل ہوں، اگر وہ مجھے اجازت نہ دیتے۔ میری ہمّت نہ بندھاتے، قدم قدم پر میرے ساتھ نہ کھڑے ہوتے اور اُن کی دعائیں شاملِ حال نہ ہوتیں تو کون محمّد حفیظ اور کہاں کا محمّد حفیظ۔ میں بھی لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی طرح اِک عام سا، بے نام و شناخت آدمی ہی ہوتا‘‘۔ ’’آپ کے والدین نے آپ کے ساتھ کچھ خصوصی نرمی کا برتائو کیا، یا ساری اولاد کے ساتھ یہی رویّہ رہا؟‘‘ اس سوال پر محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ ’’مَیں چوں کہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا، تو اس وجہ سے کچھ رعایت تو ضرور ملتی تھی، لیکن مجموعی طور پر ہمارے والدین، ابّو جی اور امّی جی دونوں ہی بے حد انڈراسٹینڈنگ تھے۔ ہم سب ہی بہن بھائیوں پر کوئی بے جا روک ٹوک تھی، نہ کبھی کوئی زیادہ سختی کی گئی۔ میں اپنے دل کی ہر بات ابّو جی اور امّی جی سے بے دھڑک کرلیا کرتا تھا۔ اسی طرح آج میری اولاد بھی مجھ سے اپنی اِک اِک بات بہت آسانی سے شیئر کرلیتی ہے۔ نہ ہم نے اپنے والدین سے چُھپ کر کبھی کوئی کام کیا، نہ آج میرے بچّے کرتے ہیں۔ اور میرے خیال میں تو اچھی تعلیم و تربیت، درحقیقت ایک ایسا شان دار وَرثہ، خاندانی روایت ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ آپ اگر آج اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے لیے محنت، انہیں معاشرے کے لیے کارآمد بنانے کے جتن کرتے ہیں، تو آپ کا یہ احسن عمل صرف آپ کی اولاد کے اچھے مستقبل ہی تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فیض اٹھائیں گی۔ وہ جو لوگ کہتے ہیں ناں ’’فلاں بندہ بڑا خاندانی ہے‘‘ تو یہ دراصل کئی نسلوں کی اچھی تعلیم و تربیت ہی پر ایک مُہر،ایک سند ہوتی ہے، جس کا اصل روحِ رواں تو نہ جانے کتنی نسلوں پہلے کا کوئی فرد ہوتا ہے، مگر اس کی تہذیب و پرورش، خواص و خصائل کا سلسلہ خاندان در خاندان منتقل ہوتا چلا جاتا ہے اور میری بھی بھرپور کوشش ہے کہ اپنی اولاد کی ایسی دینی، دنیاوی اور اخلاقی تربیت کروں کہ مجھے میرے بزرگوں نے جو سمجھایا، سکھایا، اس کا عکس، اِن کی شخصیات سے بھی جھلکے‘‘۔

عالمی یومِ والد، خصوصی اہتمام

’’بچّوں کا آپ سے پیار کے اظہار کا کیا طریقہ ہوتا ہے اور آپ کا اُن سے.....؟‘‘اِس سوال کے جواب میں محمّد حفیظ نے مُسکراتے ہوئے کہا ’’تینوں کے اظہارِ محبّت کے الگ الگ ہی انداز ہیں۔ امل تو خیر چھوٹی ہے، جب تک گھر پہ ہوتا ہوں، میرے ساتھ ہی چمٹی رہتی ہے۔ گھنٹے، آدھے گھنٹے کے لیے بھی اِدھر اُدھر ہوجائوں، تو بھاگ کے گلے لگتی ہے، گود ہی سے نہیں اُترتی اور اگر کسی ٹور سے واپس آئوں تو بس پھر تو مجھے چھوڑتی ہی نہیں۔ ایمان ذرا سمجھ دار ہے۔ گھر داخل ہوں تو طریقے سے بابا کو سلام کرے گی، گلے لگے گی۔ ہاں، ٹورز سے واپس آئوں تو پھر اُسے بابا کے ساتھ سونا ہوتا ہے۔ اتنےسارے دِنوں کی رُوداد جو سنانی ہوتی ہے اور روشان تو میرا یار ہے۔ اُس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ بابا سے سب سے پہلے وہ ملے۔ ہمیشہ مجھے ائرپورٹ لینے آتا ہے۔ سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے اور بڑے جوش و خروش سے ملتا ہے۔ جب کہ میرا، بچّوں سے محبّت کے اظہار کا طریقہ ویسا ہی ہے، جیسا سب باپوں کا ہوتا ہے۔ اوّلین کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ ان کی ہر جائز ضرورت، خواہش بغیر کہے پوری کردی جائے۔ ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھوں۔ اگرچہ میری مسز ایک آئیڈیل ماں ہیں، میری غیرموجودگی میں وہ بچّوں کی تعلیم و تربیت کی ذمّے داری بہ حُسن و خوبی نبھاتی ہیں، بلکہ سچ کہوں تو بچّوں کے اس قدر مودب و سمجھ دار ہونے میں زیادہ عمل دخل اُن کی سمجھ داری اور حُسن انتظام ہی کا ہے، مگر میری بھی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ جو وقت فیملی کے ساتھ ہو، وہ پورا کا پورا اُن ہی کا ہو۔ روشان کو اسپورٹس کا شوق ہے، تو مَیں اُس کے ساتھ کرکٹ، لان ٹینس، بیڈ منٹن سب بہت شوق سے کھیلتا ہوں۔ ایمان کو سوئمنگ، کرکٹ پسند ہے، تو اُسے بھی پورا وقت دیتا ہوں، سب شوق پورے کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ویسے بھی آئوٹ ڈور گیمز کو بہت سپورٹ کرتا ہوں۔ مجھے بچّوں کا اسکرینز کے آگے جمے رہنا بالکل پسند نہیں۔ مَیں فزیکل ایکٹیوٹیز کے زیادہ حق میں ہوں اور اسی لیے بچّوں کو بھی اس جانب مائل کیا ہے۔ مجھے بچّوں کا متحرک رہنا اچھا لگتا ہے۔ بے شک ان کی تعلیم پر کوئی کمپرومائز نہیں، لیکن فراغت کے اوقات میں کھیل کود پر بھی کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ میرے بچّے ہر گیم کھیلتے ہیں اور میں خود ان کے ساتھ خُوب کھیلتا، خُوب انجوائے کرتا ہوں‘‘۔ ’’بچّوں پر سختی کے تو آپ قائل نہیں، لیکن کیا زمانے کے نشیب و فراز، زندگی کی اونچ نیچ سمجھانے کو کبھی ’’نو‘‘ بھی کیا ہے یا بات منہ سے بعد میں نکلتی ہے، پوری پہلے کردیتے ہیں؟‘‘ ہمارے اس سوال پر محمّد حفیظ نے بڑی قطعیت سے کہا، ’’نہیں جی، ایسا بالکل نہیں ہے۔ اولاد سے لاڈ پیار اپنی جگہ، جہاں محسوس ہو کہ ضدیا خواہشِ بے جا ہے، تو پھر سختی سے ’’نو‘‘ ہی کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں، مَیں اور میری اہلیہ ہمیشہ یک زبان ہوتے ہیں۔ اگر وہ کسی بات سے منع کردیں تو میں حمایت نہیں کرتا۔ مَیں منع کردوں تو وہ اصرار نہیں کرتیں۔ دیکھیں ناں، اولاد تو اولاد ہی ہے، زمانہ کس قدر بھی ترقی کیوں نہ کرجائے، تجربے کا کوئی مقابل، کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ والدین جس طرح اپنے تجربات کی روشنی میں اولاد کے اچھے، بُرے کا فیصلہ کرتے ہیں، اولاد خود نہیں کرسکتی اور پھر والدین کے تجربے میں تو چوں کہ چاہت و خلوص بھی خُوب گندھا، رَچا بَسا ہوتا ہے، تو اِس تجربے کا تو کوئی مول، کوئی ثانی ہو ہی نہیں سکتا‘‘۔

چوں کہ موقع فاردرز ڈے کا تھا، شوٹ بھی اسی مناسبت سے ہوا، تو ہم نے پوچھا، ’’آپ کے بچّے فادرز ڈے سلیبریٹ کرتے ہیں.....کرتے ہیں، تو کس طرح؟‘‘ جواباً محمّد حفیظ نے خاصا چڑ کے کہا، ’’بس جی، اِک فضول سی روایت چل پڑی ہے۔ مَیں تو ایسے مغربی دِنوں، تہواروں کے حق میں بالکل بھی نہیں ہوں۔ ہماری تہذیب و ثقافت، ہمارے گھروں کی تعلیم و تربیت میں ایسی لغویات کی گنجایش بھلا کہاں ہے۔ ہمارا کیا کوئی ایک دن مائوں اور باپوں کے لیے ہوتا ہے…؟ میں نے مغربی ممالک کے بہت دورے کیے ہیں۔ اُن لوگوں کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ اُن کے یہاں تو خاندانی نظام کا سِرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں ہے۔ ذرا اولاد بڑی ہوئی تو والدین نے اُسے بے لگام چھوڑ دیا۔ والدین بوڑھے ہوئے تو انہیں اولڈ ہائوسز میں پھینک دیا، تو اُن کو تو یہ فادرز ڈے، مدرز ڈے، سُوٹ کرتے ہیں کہ سال میں ایک دن بھی جاکر اپنے والدین کو پوچھ لیں، پھول، تحائف پیش کردیں، تو بڑی بات ہے۔ ہماری تو زندگی ہماری اولاد اور والدین کے لیے وقف ہے۔ ہمیں ان نام نہاد ایّام کی بھلا کیا ضرورت۔ بہرحال، میرے بچّے بھی فادرزڈے پر مجھے کارڈز بنا کر دیتے ہیں۔ میرے لیے کیک، تحفے لاتے ہیں، تو مَیں ان کی خوشی کے لیے قبول تو کرلیتا ہوں، لیکن ایسے دِنوں، تہواروں کی حوصلہ افزائی قطعی نہیں کرتا‘‘۔

محمّد حفیظ کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ نفسانفسی افراتفری کے اس پُرفتن دَور میں بھی بہت حد تک اپنی خاندانی اقدار و روایات کے امین وپاس دار ہیں۔ بچپن کی سُنی مِثل ’’پڑھوگے، لکھوگے، تو بنوگے نواب، کھیلوگے، کودوگے، تو ہوگے خراب‘‘ اُن پر بالکل بھی صادق نہیں آتی۔ وہ ایک اچھے اسپورٹس مین تو ہیں ہی، اُس سے کہیں اچھے انسان، بہت مُشفق و مہربان باپ بھی ہیں۔ وہ ہے ناں ؎ مجھ کو چھائوں میں رکھا، دھوپ میں خود جلتا رہا.....رُوپ میں باپ کے اِک ایسا فرشتہ دیکھا۔ تو بلاشبہ وہ اپنے پھول جیسے بچّوں، تینوں شہزادے، شہزادیوں کے لیے کسی ’’فرشتے‘‘ سے کم نہیں۔

تازہ ترین