• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اے کاش میرے پاس تُو آتا، بجائے عید....

جاپان کی بھی عجیب کہانی ہے۔ گزشتہ دنوں وہاں کے حکّام کو ایک سروے میں معلوم ہوا کہ معمّر افراد کے جرائم میں ملوّث ہونے کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ معاملے کی کچھ اور کھوج لگائی گئی، تو پتا چلا کہ جاپان کی جیلوں میں تو ہر پانچواں شخص بوڑھا ہے۔ جب اُن بوڑھے قیدیوں سے تفتیش کی گئی، تو یہ حیرت انگیز اور شرم ناک انکشاف ہوا کہ وہ کوئی عادی مجرم نہیں، بلکہ محض اپنی تنہائی سے تنگ آکر چھوٹے موٹے جرائم کرتے ہیں تاکہ جیل جا کر لوگوں میں گھلنے ملنے کا موقع مل سکے۔ چوں کہ جیل میں اُن سے گپ شپ کرنے والے بہت سے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے وہ گھر کی بجائے جیل میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ رہا ہونے کے بعد، پھر کوئی جرم کرتے ہیں اور دوبارہ جیل پہنچ جاتے ہیں۔ دراصل، ریٹائرمنٹ یا پھر بڑھاپے کی حدود میں قدم رکھنا، گویا اس بات کی علامت ہے کہ اب باقی زندگی دوسروں کے سہارے بسر کرنا ہوگی۔ پھر یہ کہ بڑھاپا اپنے ساتھ مسائل کے انبار بھی لاتا ہے، جن میں بیش تر تو صحت سے متعلق ہوتے ہیں، مگر سماجی مسائل بھی کچھ کم سنگین نہیں ہوتے۔ ان ہی میں سے ایک تنہائی کا کرب بھی ہے۔ یہ روگ کسی کو لگ جائے، تو اُس کا بڑھاپا رُل جاتا ہے، کیوں کہ جب گھر کے بڑے بوڑھوں کو نظرانداز کیا جانے لگے، تو وہ خود کو کسی کونے کھدرے میں پڑی کوئی بے کار سی شئے سمجھنے لگتے ہیں اور یہ احساسِ تنہائی، اُنھیں اندر سے توڑ ڈالتا ہے۔ شاید آدمی کو بڑھتی عُمر اتنا بوڑھا نہیں کرتی، جتنا کہ آس پاس کے لوگوں کے رویّے اُس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بلاشبہ، آج کی تیز رفتار زندگی کے سب سے زیادہ متاثرہ بوڑھے افراد ہی ہیں کہ جنھیں ہم ترقّی کی دَوڑ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے خود سے پَرے دھکیل دیتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ بھی کبھی ہماری طرح جوان تھے یا ہم بھی کبھی ان کی طرح بڑھاپے کی دہلیز عبور کریں گے۔

آج عید کا دن ہے، چہرے خوشی سے تمتما رہے ہیں، ہر طرف مبارک، سلامت کی صدائیں ہیں، قہقہوں کی گونج ہے، مگر انہی قہقہوں کے بیچ، گھر کے کسی کونے سے سِسکنے، کراہنے کی آوازیں بھی سُنی جا سکتی ہیں، کسی کی آنکھوں میں نمی بھی اتری ہوئی ہے اور یہ نمی، کسی زخم، چوٹ یا بیماری کے سبب نہیں، بلکہ اس کے پیچھے تنہائی کا دُکھ اور اپنی ہی اولاد کی جانب سے نظرانداز کیے جانے کا احساس ہے۔ یہ کمرے کا قیدی، باہر اپنے بچّوں اور بچّوں کے بچّوں کو خوشیاں مناتا دیکھ کر مَن ہی منَ میں خوش ہو رہا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہی تو اس کی کُل کائنات ہے، مگر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کم از کم آج کے دن تو کوئی گھڑی، دو گھڑی اُس کے پاس بھی بیٹھتا، کچھ اپنی سُناتا، کچھ اُس کی سُنتا، لیکن لگتا یوں ہے کہ جیسے’’ بڑے میاں‘‘ کو عید کے تہوار سے عملاً بے دخل کر دیا گیا ہے۔ صبح بہو نے کپڑوں کا جوڑا لاکر دیا، جسے پہن کر بیٹوں اور پوتوں کے ہم راہ نمازِ عید ادا کی اور اُس کے بعد حسبِ معمول کمرے میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ مغرب میں تو بوڑھوں کا تنہا زندگی گزارنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی کہ وہاں تو خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ نے والدین کو بے سہارا کردیا ہے، مگر بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں بھی بوڑھوں کو رحمت کی بجائے، زحمت ہی سمجھا جانے لگا ہے۔

75 سالہ سلیم صاحب ایک سرکاری ادارے سے وابستہ تھے، وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نجی ادارے سے وابستہ ہوئے، مگر پھر صحت کے مسائل کے سبب گھر بیٹھ گئے، لیکن اب دوبارہ کسی ادارے سے منسلک ہونا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس عُمر میں ملازمت کی خواہش کا سبب پوچھا، تو اِک سرد آہ بَھری اور پھر بولے’’ بیٹے! تم جوان ہو، تمھیں کیا معلوم کہ یہ بڑھاپا آدمی کا کیسا تماشا بنا دیتا ہے۔ روپے پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں، پینشن مل جاتی ہے، پھر ایک دو مکانوں سے کرایہ بھی آجاتا ہے۔ تین بیٹے ہیں اور تینوں ہی ماشاء اللہ اچھے مقام پر ہیں۔ دو بیٹیاں تھیں، دونوں بیاہ دیں، اللہ کا شُکر ہے کہ اپنے گھروں میں راج کر رہی ہیں۔ بیوی کا تو کوئی بیس برس قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔ بیٹے اور بہویں کھانے پینے اور کپڑے، جوتوں کا بہت خیال رکھتے ہیں، مگر سارا دن گھر میں اکیلا پڑا پڑا بے زار ہو گیا ہوں۔ میرے لیے گھر کا ایک کمرا مخصوص کر دیا گیا ہے، وہیں پڑا رہتا ہوں۔ بیٹوں کا گھر آنے جانے کا اپنا ہی شیڈول ہے اور اُس میں مجھ سے ملنے کا وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بس کبھی کبھار کوئی بیٹا آتے جاتے کمرے میں جھانک لیتا ہے۔ پوتے، پوتیوں کے اپنے مشاغل ہیں۔ لے دے کر بیٹیاں ہی ہیں، جو تقریباً روز ہی فون کر کے خیر خیریت پوچھ لیتی ہیں، سوچتا ہوں یہ بیٹیاں بھی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہیں کہ شادی کے بعد بھی ماں، باپ کے دُکھ سُکھ کی ساتھی بنی رہتی ہیں۔ اُن کے علاوہ کوئی بات کرنے والا نہیں، اس لیے کہیں نوکری کرنے کا سوچ رہا ہوں تاکہ کسی سے بات تو کر سکوں۔‘‘ محلّے کی مسجد کے باہر کچھ بوڑھوں کے بیٹھنے کا ٹھکانہ ہے، جہاں وہ عصر سے مغرب تک تو خُوب مجلس جماتے ہیں، جب کہ اس کے علاوہ بھی وہاں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اُن میں امین صاحب بھی ہیں، جو 70 کے لگ بھگ ہوں گے۔ کسی دَور میں کپڑے کی دُکان کیا کرتے تھے، جسے اب بیٹے سنبھالتے ہیں اور اُنھیں پورے عزّت و احترام سے گھر پر بٹھا دیا گیا ہے تاکہ باقی زندگی سکون سے گزار سکیں، مگر وہ سعادت مند بیٹے جسے سکون سمجھ رہے ہیں، وہ بڑے میاں کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ امین صاحب کا کہنا ہے کہ’’ دال روٹی تو سکون سے مل رہی ہے، مگر مَیں کوئی گونگا تو نہیں کہ سارا دن منہ بند کیے چھت گھورتا رہوں۔ بیٹے صبح جاتے ہیں اور شام کو لَوٹتے ہیں، اُن کے بچّوں کا اسکول اور ٹیوشن ہی میں دن بِیت جاتا ہے، اب میں کس سے بات کروں۔ دُکان چھوڑنے کے بعد کچھ دن تو جیسے تیسے گھر میں پڑا رہا، مگر پھر یہاں مسجد کے باہر اپنے ہم عُمروں کے ساتھ بیٹھنا شروع کردیا، کچھ آپ بیتی ،تو کچھ جگ بیتی ہو جاتی ہے اور اچھا وقت گزر جاتا ہے۔‘‘ امین صاحب نے اچھا کیا کہ کوئی مصروفیت ڈھونڈ لی، ورنہ عموماً ہوتا یہی ہے کہ ریٹائرڈ افراد خود کو عملی طور پر بھی ریٹائرڈ سمجھ کر چارپائی پکڑ لیتے ہیں، جو پھر اُن کے بڑھاپے کی رفتار میں تیزی کا سب بن جاتی ہے۔ اگر وہ سارا دن گھر ہی میں محصور رہنے کی بجائے، محلّے میں بیٹھک کا انتظام کرلیں، جیسا امین صاحب نے کیا، تو تنہائی کا بہت حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مختلف سماجی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لے کر خود کو مصروف رکھا جا سکتا ہے۔

یہ تو وہ بوڑھے افراد ہیں، جن کی اولاد اُن کی آنکھوں کے سامنے ہے، مگر اُن معمّر افراد کے دُکھ کا اندازہ کون لگا سکتا ہے، جو صاحبِ اولاد ہوتے ہوئے بھی لاوارثوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ عارف صاحب گزشتہ دس برسوں سے اس دُکھ کو سہہ رہے ہیں۔ اُن کی کہانی، اُن ہی کی زبانی سنیے’’ بڑا بیٹا اپنی فیملی سمیت کینیڈا میں مقیم ہے، جب کہ دوسرا بیٹا ڈاکٹر ہے، جو شہر کے قدرے پوش سمجھے جانے والے علاقے میں کلینک کرتا ہے۔ ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے، مگر بڑے بیٹے کے بیرونِ مُلک جانے کے بعد ہم میاں بیوی اور چھوٹے بیٹے کی فیملی ہی باقی رہ گئی۔ پھر نہ جانے ایک دن کیا ہوا کہ بیٹا، اپنے بچّوں کے ساتھ الگ گھر میں شفٹ ہو گیا اور ہم میاں، بیوی اکیلے رہ گئے۔ کھانے کا کوئی خاص مسئلہ نہیں، وہ تو میری بیوی بڑھاپے کے باوجود بنا ہی لیتی ہے۔ نیز، گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے ماسی رکھی ہوئی ہے، جب کہ گھر کے نیچے کا پورشن کرائے پر دے رکھا ہے، جس سے معقول رقم مل جاتی ہے، پھر یہ کہ بڑا بیٹا بھی پیسے بھیجتا رہتا ہے اور چھوٹا بھی جب کبھی آتا ہے، کچھ نہ کچھ پیسے دے جاتا ہے، مگر اُن کو یہ کون بتائے کہ ماں باپ کو صرف پیسے تو نہیں چاہیے ہوتے…!! ہم میاں، بیوی سارا دن اکیلے پڑے رہتے ہیں۔ بیوی ماسی سے دو گھڑی بول بال لیتی ہے اور مَیں نماز پڑھنے یا سودا سلف لینے جاتا ہوں، تو کچھ لوگوں سے مل لیتا ہوں، مگر اپنی اولاد سے دُوری ایک پَل بھی چَین نہیں لینے دیتی۔ دِل تو کرتا ہے کہ بیٹوں کو کہوں، وہ کچھ عرصہ اپنے بچّوں سے دُور رہ کر دیکھیں، تو اُنھیں پتا چلے کہ اولاد سے دوری کا غم کیا ہوتا ہے، مگر پھر کچھ سوچ کر چُپ ہوجاتا ہوں۔‘‘

والدین کی تنہائی کے حوالے سے ہمارے ہاں دو طرح کے رویّے نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ گھرانے تو ایسے ہیں، جہاں بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور اس بوجھ سے چھٹکارے کے لیے طرح طرح کے جتن بھی کیے جاتے ہیں۔ وہاں باپ کو یوں نظر انداز کیا جاتا ہے، جیسے وہ کسی کا کچھ لگتا ہی نہ ہو۔ کسی کو اُس کے کھانے پینے کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی لباس کا۔ گھر میں اُس کی حیثیت ایک فالتو شخص کی سی ہوتی ہے، جسے کوئی منہ لگانا پسند نہیں کرتا۔ یوں سمجھیے کہ وہ اپنی زندگی خود ہی جیتا ہے اور جیتا کیا خاک ہے، بس زندگی گھسیٹ رہا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایسے گھرانے ہیں، جہاں بوڑھے باپ کو سَر، آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ بیٹے اور بہویں اُس کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اُس کے اِک اشارے پر ہر مطلوبہ چیز حاضر کر دی جاتی ہے۔ گھر کا بہترین کمرا اُسے پیش کیا جاتا ہے، جو تمام تر سہولتوں سے آراستہ ہوتا ہے۔ وقت پر کھانا سامنے رکھ دیا جاتا ہے، تو روز اُجلا لباس تیار ملتا ہے ،مگر اس کے باوجود، بڑے میاں بُجھے بُجھے سے رہتے ہیں، کیوں…؟؟ اس لیے کہ خدمت تو خُوب ہو رہی ہے، مگر اُن سے بات کرنے والا کوئی نہیں ۔ پھر یہ کہ بعض بیٹے اپنے بوڑھے باپ کی دیکھ بھال کے لیے باقاعدہ ملازمین رکھ لیتے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک تو یہ جذبہ ہوتا ہے کہ بیٹوں کی مصروفیات کی وجہ سے بزرگوار کو کوئی پریشانی نہ ہو، جب کہ کچھ بیٹے اپنی جان چھڑانے کے لیے بھی ابّا جی کو ملازمین کے حوالے کرتے ہیں۔ بہرحال، وجہ کچھ بھی ہو، دونوں صُورتوں میں باپ کی دیکھ بھال تو ہو جاتی ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ والد کے لیے صاف لباس، اچھے کھانے اور اے سی روم کا انتظام قابلِ تعریف ہے، مگر اُنھیں قیدِ تنہائی سے نجات دلوانا بھی تو بچّوں پر لازم ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ وہ خود والد کے پاس بیٹھنے کو اپنے روزانہ کے شیڈول میں شامل کریں کہ اپنی اولاد سے بات چیت کا کوئی نعم البدل نہیں، لیکن اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو، تب بھی کوئی ایسا انتظام تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ابّا جی سارا دن گھر میں اکیلے نہ پڑے رہیں۔

یہ عید والد کے نام کر دیجیے

٭ اگر آپ کہیں سیر وتفریح کے لیے جا رہے ہیں، تو والد کو چوکیدار کے طور پر گھر چھوڑ کر جانے کی بجائے ساتھ لے جائیں۔ اگر وہ نہ مانیں، تو ساتھ چلنے پر خُوب اصرار کریں٭ اپنے بچّوں کو ترغیب دیں کہ وہ آج دادا ابّو کے پاس جائیں اور اُنھیں سلام کرنے کے علاوہ، اُن کے پاس بیٹھ کر گپ شپ بھی کریں ٭عید کے تینوں روز کمرے میں کھانا بھجوانے کی بجائے، والد کی دسترخوان پر موجودگی یقینی بنائیں ٭ کوشش کریں کہ والد صاحب آج کے دن اپنا زیادہ سے زیادہ وقت کمرے سے باہر گزاریں٭ اگر آپ کے والد صاحب اپنے کسی دوست یا رشتے دار سے ملنا چاہتے ہیں، تو ٹال مٹول کی بجائے اُنھیں ملوانے لے جائیں۔ اسی طرح اگر کوئی اُن سے ملاقات کے لیے آئے، تو ناک بھوں چڑھانے کی بجائے ملاقات کروادیں کہ اس طرح کی گپ شپ سے وہ تازہ دَم ہو جائیں گے٭ بہت سے بڑی عُمر کے افراد موبائل فون استعمال کرنا نہیں جانتے، مگر اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں یا کسی اور شہر میں مقیم بیٹوں وغیرہ سے بات کریں، سو اُنھیں نمبر ملا کر دینے میں آپ کا کچھ زیادہ خرچ نہیں آئے گا٭ اگر آپ کسی اور شہر میں مقیم ہیں، تو آج والد کو فون کرنا مت بھولیے گا۔ کوشش کیجیے کہ آج اُن سے معمول سے کچھ لمبی بات ہو جائے تاکہ اُنھیں بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو۔

تازہ ترین