• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوری تسلسل کے دس برس

آمریت کے مہیب اندھیروں سے صبح نور کی مانند پھوٹنے والی جمہوریت کے دس سال مکمل ہو گئے۔ پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری کی اور اب مسلم لیگ نون کی حکومت اپنی میعاد مکمل کر چکی ہے اور نگراں حکومت وجود میں آ گئی ہے۔ 25جولائی کو عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے، انتخابات کے انعقاد کے بعد جمہوری عمل مزید مضبوط ہو گا۔ یہ جمہوری عمل ہی ملک و قوم کی ترقی اور بقا کا سرچشمہ ہے۔ دنیا کے دیگر جمہوری ملکوں میں حکومتوں کا اپنی آئینی میعاد پوری کرنا کوئی قابل ذکر بات نہیں، حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں۔ جمہوریت کا تسلسل اور سفر جاری و ساری رہتا ہے، مگر ہمارے ملک میں اسے ایک غیرمعمولی واقعہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے، اس کا جواب ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں مضمر ہے یا پھر یہ ہمارا مقدر ہی ٹھہرا دیا گیا ہے کہ دس بارہ برس بعد جمہوریت ڈی ریل ہو جاتی ہے اور ہمیں ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی بھاری آواز سننے کے لیے گوش گزار ہونا پڑ جاتا ہے۔ اس کا پہلا تجربہ ہمیں قیام پاکستان کے گیارہ سال بعد ہوا جب سیاسی حکومتیں صبح و شام بدل جاتی تھیں، سیاستداں راتوں رات سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لیا کرتے تھے، سیاسی عمل ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہتا تھا، پھر ایک فوجی جرنیل نے ہمیں بتایا کہ جمہوریت کیا ہے اور کیسی ہوتی ہے۔ سیاسی چونچیں بند ہو گئیں۔ دس سال گزرے تو ایک تازہ دم جرنیل نے بوڑھے جرنیل کو باقی ماندہ زندگی آرام سے بسر کرنے کے لیے گھر بھیج دیا لیکن اس تازہ دم جرنیل سے بھی ملک سنبھالا نہ گیا۔ وطن عزیز کا ایک حصہ اغیار کی نذر ہوا اور ایک سیاستداں کو منجدھار میں گھری کشتی بہ حفاظت ساحل تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اللہ اللہ کر کے کشتی کنارے لگی، لوگوں نے چین و سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ پھر ’’دمادم مست قلندر‘‘ کی صدائیں بلند ہوئیں اور ظلمت کے اندھیرے اپنی ’’ضیاء‘‘ دکھانے لگے۔ گیارہ برس، پورے گیارہ برس اور کچھ دن تک قوم نے باد صبا کی جگہ صرصر کے تھپیڑے برداشت کئے، پھر ایک سی ون تھرٹی طیارہ فضا میں پھٹا، اور صورتحال تبدیل ہو گئی۔

1986ء سے1999ء تک ملک میں چار مرتبہ عام انتخابات ہوئے۔ یہ دور اگرچہ جمہوری دور ہی تھا، لیکن ’’خلائی مخلوق‘‘ کی موجودگی اس وقت بھی محسوس کی جاتی تھی بلکہ اصغر خان کیس کی صورت میں ثابت بھی ہو گئی۔ چونکہ دس برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا۔ 1999ء رخصت ہونے کے قریب تھا، کوئی کہاں تک صبر کرتا، لہٰذا تکلف برطرف کے محاورے پر یقین رکھتے ہوئے ’’برطرف‘‘ کیے جانے والے جرنیل نے حکومت ہی برطرف کر دی۔ آئندہ دس برسوں میں آمریت ہی کا بول بالا رہا، لیکن حسب ضرورت ’’جمہوریت، جمہوریت‘‘ نامی کھیل بھی کھیلا گیا۔ پھر وہ وقت آیا کہ یہ کھیل مزید جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف جو پہلے ہی اپنی کھال نما وردی اتار کر بے دست و پا ہو چکے تھے، ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح رخصت ہو گئے یا کر دیئے گئے۔ ملک میں اب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف علی زرداری صدر مملکت تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک جمہوری دور تھا مگر مشکلات باقی تھیں، ملک کو اپنے اشاروں پر چلانے والی قوتیں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہیں۔ بدقسمتی سے اس مقصد کے لیے سیاستداں بھی استعمال ہوئے، پہلا دبائو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سبکدوش کیے جانے والے دیگر ججز کی بحالی کی تحریک کی صورت سامنے آیا۔ نواز شریف نے لانگ مارچ کیا جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کی دلچسپی شامل تھی، میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا، اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور وہاں امریکی فوج کی کارروائی جیسے واقعات کسی بھی جمہوری حکومت کو ہلانے کے لیے کافی تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جوڈیشل ایکٹوازم نے حکومت کو تقریباً مفلوج کر کے رکھ دیا اور ملک میں ایک متوازی انتظامیہ قائم ہو گئی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی۔ مقتدر حلقوں سے معاملات سدھارنے کے لیے حکومت نے کئی امور میں ان کے مطالبات تسلیم کیے اور کئی معاملات میں سمجھوتے بھی کئے، جنرل کیانی کے بھائی کے معاملات سے چشم پوشی کی گئی، غیرملکی امداد کی تقسیم بھی بالادست قوتوں کی مرضی کے مطابق کی گئی۔ سابق صدر آصف زرداری نے حال ہی میں دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے جنرل کیانی کو500ملین ڈالر دیئے تھے، یہ غیرملکی امداد کی تقسیم کی مد میں دیئے یا کسی اور مد میں یہ واضح نہیں ہے۔ بہرکیف ہر روز کی ان کہانیوں اور افواہوں کے پس منظر میں کہ حکومت آج جا رہی ہے، کل جا رہی ہے، پیپلزپارٹی کی حکومت نے جیسے تیسے اپنی میعاد پوری کر ہی لی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی میعاد مکمل کی اور اسے ماضی کی حکومتوں کی مانند کوچہ اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلنا نہیں پڑا۔

2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی، مگر اس کی کہانی بھی پیپلزپارٹی کی حکومت سے مختلف نہیں رہی۔ ان انتخابات میں نواز شریف تیسری مدت کے لیے وزیراعظم بنے تھے۔ یہ اعزاز پانے والے وہ پہلے یا آخری فرد ہیں، لیکن ان کی وزارت عظمیٰ پہلے ہی روز سے دبائو میں رہی، آصف علی زرداری اور عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر ان کی سیاسی حیثیت کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ عمران خان کے الزامات میں شدت بہت زیادہ تھی، انہوں نے قانونی سطح پر بھی جنگ لڑی مگر اس جنگ میں ناکامی کے بعد انہوں نے طاہرالقادری کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ مسلم لیگ کے لیے یہ بڑے بھاری دن تھے۔ سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ نواز شریف کی حکومت اس دھرنے کی تاب نہ لا سکے گی۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’نیا پاکستان‘‘ بنانا چاہتے ہیں جب کہ طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹائون میں جاں بحق ہونے والے اپنے کارکنوں کے خون کا حساب مانگ رہے تھے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام اس دھرنے کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس الزام میں حقیقت کا رنگ خود عمران خان نے بھرا تھا، جو بار بار امپائر کی انگلی اٹھ جانے کا مژدہ سناتے تھے تاہم فوج نے سختی کے ساتھ اس تاثر کو رد کر دیا۔ عمران خان اور طاہرالقادری کو کنٹینر پر چڑھے ہوئے کئی روز ہو گئے، تو ان کے مطالبے پر جنرل راحیل شریف نے ان سے ملاقات بھی کی جس کا بظاہر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ان ہی دنوں غیرملکی ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ حکومت اور فوج کے درمیان کوئی مفاہمت ہوئی ہے اور وزیراعظم نے اپنے کچھ اہم اختیارات سے دستبردار ہونا منظور کر لیا ہے۔ 16دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے طلبہ اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا۔ دہشت گردوں کے حملے اور جوابی کارروائی کے دوران ڈیڑھ سو سے زائد ہلاکتیں ہوئیں جس کے بعد عمران خان اور طاہرالقادری نے دھرنا ختم کر دیا۔

اس دوران اچھی بات یہ ہوئی کہ تمام اہم سیاسی جماعتیں اور پوری پارلیمنٹ، حکومت کے ساتھ کھڑی رہی۔ پارلیمنٹ میں چوہدری اعتزاز احسن اور محمود اچکزئی کی تقاریر نے جمہوری نظام کی بالادستی پر یقین کو مستحکم کیا اور تمام غیرجمہوری کوششوں کی مذمت میں آواز بلند کی۔ دھرنے کے خاتمے کے بعد سیاسی مفاہمت کی فضا کو محسوس کرتے ہوئے حکومت نے دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر دہشت گردی کے خلاف اقدام کی تائید کی، بعدازاں قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کراچی میں رینجرز کا آپریشن شروع کیا گیا۔ تحریک انصاف کے دھرنے کے نتیجے میں چینی صدر کا دورہ پاکستان منسوخ ہو گیا تھا۔ بعدازاں اپریل2015ء میں چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ انہوں نے46ارب ڈالر کے چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا اعلان کیا۔

اکتوبر2016ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ایک بار پھر اس وقت شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑا جب انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ میں ایک کالم نگار نے انکشاف کیا کہ ایک اجلاس کے دوران عسکری قیادت سے کہا گیا ہے کہ وہ انتہاپسند عناصر کی حمایت چھوڑ دیں، کیونکہ اسی سبب پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ فوجی حلقوں کا خیال تھا کہ یہ کالم حکومت کی ایماء پر شائع ہوا ہے، لہٰذا سول، ملٹری تعلقات میں وہی کشیدگی پیدا ہو گئی جو 2014ء کے دھرنے کے دوران دیکھی گئی تھی حالانکہ وزیراعظم نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کا تقرر اپنے پورے اطمینان کے ساتھ کیا تھا۔ اس کشیدگی کو دور کرنے کی غرض سے حکومت نے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور امور خارجہ کے مشیر طارق فاطمی کو ان کے عہدوں سے سبکدوش کر دیا۔ سول، ملٹری کشمکش کی ایک اور وجہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر آئین سے غداری کے مقدمے کا اندراج تھا۔ بنیادی طور پر اس کے پیچھے چوہدری نثار علی خان تھے، جو بعدازاں اختلافات کے باعث نواز شریف کا ساتھ چھوڑ گئے۔

اپریل2016ء میں پاناما پیپرز کا اسکینڈل سامنے آیا، جس میں دنیا کے72حالیہ یا سابقہ سربراہان مملکت، آمروں کا ذکر تھا، جن پر اپنے اپنے ملکوں کی دولت لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنانے کا الزام تھا۔ ’’پاور پلیئرز‘‘ کے نام سے شائع شدہ فہرست میں نواز شریف کے بچوں کا بھی ذکر تھا۔ اس فہرست کو جواز بناتے ہوئے عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق نے عدالت عظمیٰ میں علیحدہ علیحدہ مقدمات دائر کئے، جو یکجا کر دیئے گئے۔ عدالت عظمیٰ نے تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی، جس نے اپنی رپورٹ جولائی2017ء کو پیش کی تاہم عدالت عظمیٰ نے دبئی کی ایک کمپنی کے اقامے اور تنخواہ کو اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ پاناما پیپرز کی اشاعت اور عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے تک ملک سیاسی بحران کا شکار رہا۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے جلسے، جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں نے ملک کے معاشی حالات کو متاثر کیا، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا انڈکس جو قبل ازیں54ہزار پوائنٹس تک جا چکا تھا، تیرہ، چودہ ہزار پوائنٹس تک کم ہو گیا۔

نواز شریف کی جگہ شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ ملک میں بظاہر سب ٹھیک ٹھاک تھا، مسلم لیگ کی حکومت کو کوئی خطرہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن ملک بدستور غیریقینی صورتحال سے دوچار تھا۔ نواز شریف مسلم لیگ کی قیادت سے بھی محروم کر دیئے گئے اور انہیں تاحیات نااہل بھی قرار دے دیا گیا۔ مسلم لیگ کی حکومت کا آخری سال اسی بحرانی کیفیت کی نذر ہو گیا۔ اب جب کہ مسلم لیگ کی حکومت اپنی آئینی مدت گزار کر ختم ہو چکی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ یہ دور حکومت ملک کے لیے اچھا تھا یا برا، حسب روایت تجزیہ کاروں کی رائے منقسم نظر آتی ہے تاہم اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں کہ یہ مثالی حکومت نہیں تھی۔ اس دور میں عوام کے بڑے بڑے مسائل مثلاً مہنگائی، لوڈشیڈنگ ختم نہ ہو سکی البتہ دہشت گردی کے واقعات ضرور کم ہوئے لیکن اس کا کریڈٹ بھی زیادہ تر فورسز کو جاتا ہے۔ اقتصادی طور پر بھی ملک میں نمایاں تبدیلی نہ آ سکی بلکہ غیرملکی قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر118روپے تک ٹریڈ ہوا۔ بڑے بڑے منصوبوں میں کرپشن کی کہانیاں بھی سامنے آئیں۔ یہ مختصر مضمون ان سب کی تفصیلات بیان کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا البتہ مسلم لیگی حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جائے گا کہ اس نے اپنے آخری دنوں میں اتحادی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود فاٹا کے قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنا دیا۔ اب ان علاقوں میں پاکستانی قوانین نافذ ہو چکے ہیں اور یہ علاقے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آ گئے ہیں۔ قانون سازی کے ضمن میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بعض اہم نوعیت کے قوانین متعارف کروائے، جن میں کالے دھن کو قانونی بنانے کی اسکیم بھی شامل ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت کو اگر اطمینان سے کام کرنے کا موقع ملتا اور اسے سیاسی بحرانوں میں نہ گھیسٹا جاتا تو اس کی کارکردگی مزید بہتر ہو سکتی تھی۔سیاسی بحرانوں کے باعث یہ حکومت خارجہ پالیسی میں نمایاں پیشرفت نہ دکھا سکی۔ ایران، افغانستان اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکے بلکہ اختلافات ہی نظر آئے۔

بہرکیف آئندہ جب کبھی کوئی مورخ مسلم لیگ کے اس دور حکومت کا جائزہ لے گا تو بہت ممکن ہے کہ یہ دور مثالی قرار نہ پائے لیکن اسے ناکام بھی نہیں کہا جا سکے گا۔ مشکلات اور رکاوٹوں میں گھرے اس دور کے بارے میں عوام کی اپنی رائے کیا ہے؟ اس کا فیصلہ آئندہ عام انتخابات میں پڑنے والے ووٹ کریں گے۔

تازہ ترین