• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی طور پر کوئی مانے یا نہ مانے، یہ سچ ہے کہ پنجاب نے ایک نہیں کئی جگہوں پہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ بنائے ہیں جن میں قومی ترانہ، قومی پرچم اور دیگر اہم موضوعات پر اپنی گرفت دکھائی ہے۔ یہ نوجوانوں کے جذبوں اور احساسات کی نمائندگی کرتی ہے۔ کوئی موقع تو ملا ہمارے بچّوں کو اپنی توانائیاں آشکار کرنے کا…ویسے ترانہ گانے کیلئے لڑکے، لڑکیاں دونوں شامل تھے مگر قومی پرچم بنانے کیلئے صرف لڑکوں کا انتخاب کیا گیا۔ شاید اس لئے کہ قومی پرچم بنانے کیلئے اکٹھے کھڑے ہونے میں لڑکیوں یا ان کے والدین یا اساتذہ کو اعتراض ہو، بہرحال لڑکیاں بھی سامنے آئیں۔ یہیں مجھے یاد آیا کہ سرگودھا یونیورسٹی میں 63فی صد لڑکیاں ہیں، یہی حال دیگر یونیورسٹیوں کا ہے کہ لڑکے باہر کے ملکوں میں قسمت آزمائی کیلئے چلے جاتے ہیں۔ بہت کم لڑکیوں کو یہ موقع ملتا ہے۔ ویسے تو ہمارے ملک سے ہر سال کم از کم60ڈاکٹرز سعودی عرب اور اسی طرح دوسرے ممالک میں ملازمت حاصل کر کے چلے جاتے ہیں جن میں لیڈی ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر لیڈی ڈاکٹرز شادی شدہ ہوتی ہیں، وہ اپنے شوہر کی نوکری کا بندوبست بھی کروا لیتی ہیں اور یوں فیملی دوسرے ملک چلی جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں جتنی لڑکیاں پاس آؤٹ ہوتی ہیں اتنی ہی ملازمتیں میسّر نہیں ہیں اس لئے کبھی ڈاکٹر سول سرونٹ بن جاتی ہیں، ویسے تو 10فی صد مرد ڈاکٹر بھی سول سروس میں آ جاتے ہیں، باقی تمام لڑکیاں آج کل کے موجود میڈیا کے شعبوں میں خود کو کھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ فیشن کے شعبوں میں وہ لڑکیاں آتی ہیں جو بی این یو یا این سی اے کے علاوہ فیشن اسکولوں سے تربیت حاصل کر کے نکلتی ہیں۔ چونکہ فیشن اب باقاعدہ تجارت کا شعبہ بن چکا ہے اس لئے بہت سی گھر بیٹھی خواتین بھی ایک درزی اور ایک دبکے کا کام کرنے والا رکھ کر کام چلاتی ہیں۔ دکانوں پر ریڈی میڈ کپڑے سپلائی کرتی ہیں، یوں روٹی، روزی کا اہتمام کرتی ہیں۔ شادی بھی اس طرح کام کرنے والیوں کی زندگی پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتی ۔ اس مہنگائی کے زمانے میں شوہر اور سسرالی بھی خوش رہتے ہیں کہ گھر کا خرچ بانٹ لیا جاتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ ان لڑکیوں کا ہوتا ہے جو کسی نیشنل یا ملٹی نیشنل یا پرائیوٹ ادارے میں کام کرنے کیلئے درخواست دیتی ہیں۔ ان کی صلاحیت اور شخصیت دیکھ کر تمام اعلیٰ عہدیداران خوش ہو جاتے ہیں۔ تمام سوالات کے آخر میں ان سے سوال کرتے ہیں ”کیا آپ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ؟“ جب وہ جواب دیتی ہیں ”غیر شادی شدہ“ تو بجلی گرتی ہے۔ اب سوالات کی بوچھاڑ دوسری طرف سے شروع ہو جاتی ہے۔ ”کیا منگنی ہوئی ہے، کیا آپ کا جلدی شادی کرنے کا ارادہ ہے، کیا آپ شادی کے بعد نوکری جاری رکھ سکیں گی، کیا آپ ہر سال بچہ پیدا کرنے کیلئے چھٹی تو نہیں مانگیں گی، کیا آپ کے شوہر نوکری کی اجازت دیں گے وغیرہ وغیرہ“۔ اب لڑکی مخمصے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسے واقعی نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا شوہر نوکری کی اجازت دے گا یا نہیں۔ کیا اس کا شوہر فوراً بچہ پیدا کرنے کیلئے اصرار کرے گا، کیا اس کا شوہر اپنی نوکری کے علاوہ بیوی کی نوکری کے مسائل بھی سمجھے گا کہ نہیں…؟ اور اب زنجیر لٹکتی ہے بے چاری نوجوان لڑکی کے سر پر۔ ادھر دفتری سربراہ اسے پانچ سال کا بانڈ بھرنے کی شرط عائد کرتے ہیں، اسی طرح کی دیگر شرائط عائد کرتے ہیں۔ لڑکی کیلئے ان شرائط پر پورا اترنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہوتا کیا ہے، لڑکی سے کم قابلیت والا لڑکا منتخب کر لیا جاتا ہے۔ البتہ جب انٹرن شپ کا معاملہ ہوتا ہے تو بہت سی لڑکیوں کو نہ صرف منتخب کر لیا جاتا ہے بلکہ پبلک ریلیشن کے شعبے میں لگا لیا جاتا ہے۔ جب وہ عرصہ ختم تو باقاعدہ نوکری سے انکار اور پھر لڑکیاں نئی نوکری کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔
بہت سی لڑکیاں شادی کے شوق میں سسرال اور لڑکے کی ہر بات مان لیتی ہیں۔ نوکری چھوڑ کر گھر، گھر کھیلتی ہیں، بچّے ہو جاتے ہیں، اس میں مصروف ہو جاتی ہیں، البتہ جب بچے اسکول جانے لگتے ہیں تو پھر گھر کاٹ کھانے کو آتا ہے، اب پھر نوکری کی تلاش۔ عمر زیادہ ہو جانے کے باعث سرکاری نوکری تو ملتی نہیں پرائیوٹ اسکولوں میں تنخواہ کچھ ملتی ہے، رسید پر دستخط اور رقم کے کروائے جاتے ہیں۔ چھٹیوں کے دنوں کی تنخواہ ویسے ہی کٹ جاتی ہے، رہ گئے عالمی فنڈنگ ادارے، وہاں بڑے گھرانوں کی خواتین کنسورشیم بنا کر ادارہ بنا لیتی ہیں، کنسلٹینسی کرتی ہیں، موٹی، موٹی رپورٹیں بناتی، موٹی موٹی رقم وصول کرتی ہیں۔ پاکستان کے حالات، سیلاب زدگان، غربت اور شعوری بیگانگی ویسی ہی رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ تیس برس گزرنے کے بعد نہ ملک میں بچوں کی پیدائش میں کمی آئی ہے نہ غربت اور جہالت کے اعشاریہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔
امریکہ نے دوسرے ملکوں کی دیکھا دیکھی فنڈ پھیلانے شروع کر دیئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے، شعور و آگہی کے شعبے اور عورتوں کی آمدنی بڑھانے کے تربیتی پروگرام کے ذریعے، وہ سارے لوگ جو چالیس، پچاس ہزار کی نوکری کو غنیمت سمجھتے تھے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے وہ سب لاکھوں میں کھیل رہے ہیں۔ امریکہ زندہ باد، بلند آہنگ میں تو نہیں کہہ رہے البتہ امریکہ مخالف جلوسوں سے مغائرت برت رہے ہیں۔ اسی طرح فی الوقت اوباما کے ان الفاظ پر غور کر رہے ہیں۔ حکومت بھی اور یہ امریکی اداروں کے ملازمین بھی کہ اگر وہ پاکستان حکومت کو بتا دیتے تو اسامہ بن لادن کو مارنا ناممکن ہو جاتا۔ وہ اس نکتے پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کر رہے ہیں کہ پاکستان کو فوج اور آئی ایس آئی چلا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم تو عوام کی خدمت کر رہے ہیں، ہمیں سیاسی سوالوں کے جواب نہیں دینا۔
مجھے یاد ہے ایوب خان کے زمانے میں تھینک یو امریکہ کی تختیاں لٹکا کر اونٹوں کو بازار میں لایا جاتا تھا کہ اونٹ جانسن کا پسندیدہ جانور تھا۔ اب ہم گندم نہیں لیتے، امریکیوں نے ہمارے دماغ بھی خرید لئے ہیں جبھی تو حسین حقانی ہو کہ (بلند آہنگ نہیں بتاؤں گی) وہ لمز میں ہوں کہ ایم آئی ٹی میں، سب لوگ ببانگ دہل امریکی تعریفوں کے پل تو نہیں باندھ رہے، یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ جیسے اوباما، پاکستان کے بغیر ایشیاء میں سیاست نہیں کر سکتا اسی طرح ہم بھی امریکی مدد کے بغیر نہ زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ سیاست کر سکتے ہیں۔
یہ میں کہاں امریکہ کی طرف نکل گئی، میں تو لڑکیوں کی ملازمتوں کا قصہ سنا رہی تھی۔ اسکینڈی نیوین ممالک میں بچے کی پیدائش پر ماں ہو کہ باپ سال بھر کی چھٹی لے سکتا ہے۔ روس میں بھی اجازت ہے کہ اس طرح بچے کی پیدائش پر سال بھر کی چھٹی دی جا سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں اگر یہ سہولتیں ہوں تو پھر ملازمت کے وقت لڑکی سے یہ نہیں پوچھا جائے کہ تم شادی شدہ ہو کہ نہیں؟ تم اردو بولتی ہو کہ انگریزی کہ سندھی۔ بس کرو لوکل باڈیز کے بارے میں تو فہمیدہ ریاض کہہ چکی ہیں کہ یہ قابل قبول قانون نہیں ہے۔ کیا کہیں بہت سوں کو اصغر خان فیصلہ بھی قبول نہیں ہے۔
تازہ ترین