• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت میں بہتری،شرح نمو میں اضافے اورمہنگائی میں کمی کے حوالے سے عالمی اداروں کے اعداد وشمار اورحکومتی دعوے بجا،لیکن زمینی حقائق کے مطابق اصل صورتحال ایسی نہیں جیسی بتائی جارہی ہے۔اس کی بڑی وجہ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں تشویشناک کمی،بیرونی ادائیگیوںمیں بڑھتا ہوا عدم توازن،غیر ملکی قرضوں میں اضافہ اورروپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدرہے جسے پالیسی سازوں کی ناکامی کے سوا کوئی اورنام دینا شاید مناسب نہ ہوگا۔اس صورتحال کی وجہ سے پیر کو ایک سال میں چوتھی بارروپے کی قدر میں کمی کرنا پڑی جس کے نتیجے میں3.8فیصداضافے کے ساتھ ڈالر پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔جس کاسیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ پاکستان پربیرونی قرضوں میں چار سو ارب روپے اورجاری تجارتی خسارے میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہوگیا اورزرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر رہ گئے۔سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے پیر کو انٹربنک نرخ میں اچانک اضافہ کردیاگیا۔جس سے روپے کے مقابلے میں ڈالر6روپےمہنگا ہوکر115روپے60پیسے سے بڑھ کر121روپے50پیسے تک پہنچ گیاتاہم بعد میں اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر119روپے کاہوگیا۔سابق وزیرخزانہ نے ایک ماہ پہلے یقین دہانی کرائی تھی کہ روپے کی قیمت میں اب مزید کمی نہیں ہوگی جو غلط ثابت ہوئی۔یہ بات درست ہے کہ حالیہ عرصے میں برآمدی شرح نمو بڑھی ہے اورترسیلات زرمیں بھی معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بڑھتی ہوئی درآمدات نے تجارتی خسارے کو4ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ ہے ۔گویادرآمدات اوربرآمدات میں تفاوت کم ہونے کی بجائے اوربڑھ گیا ہے،پالیسی سازوں کی ناکامی یہ ہے کہ بڑھتے ہوئےتجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے برآمدی پیداوار بڑھانے کی بجائےمزید غیر ملکی قرضے حاصل کرنے پرانحصار کیاجارہاہے۔روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر کے نتیجے میں عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گےان کا معروضی حقائق کی بناپر اندازہ لگانا مشکل نہیں۔پھراسی پر بس نہیں،نگران حکومت نے عید الفطر قریب آنے پرپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیاہے۔سابق حکومت نے 31مئی کوجواضافہ کرنا تھا اسے7جون تک موخر کردیاتھا لیکن نگران وزیرخزانہ نے اضافہ نہ کرنے کی بات کی تھی اس کے باوجود12جون سے پٹرول،ڈیزل اورمٹی کے تیل کے نرخ بڑھادیئے گئے۔اس پر مستزاد یہ کہ ایف بی آر نےپٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بھی بڑھادیا۔پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے سے لامحالہ باربرداری کے کرائے بڑھ جائینگےجس سے روز مرہ استعمال کی تقریباً ہرچیز مہنگی ہوجائے گی۔اس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کوگرانی کے نئے طوفان کاسامنا کرنا پڑے گا۔روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان نےجلدہی ساڑھے تین سے چارارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی اقساط اداکرنی ہیں جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں۔اس صورت حال سے نمٹنے کےلئے چین سے ایک ارب ڈالر کاسیف ڈیپازٹ معاہدہ کیاگیا ہے ۔سٹیٹ بنک زرمبادلہ کی پوزیشن پرنظر رکھے ہوئے ہے اورحالیہ پالیسی اقدامات کی بنا پر توقع کی جارہی ہے کہ بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن پرشاید قابوپالیا جائےگا۔وزارت خزانہ بھی ڈالر کی بڑھتی ہوئی اڑان اورروپے کی قیمت میں استحکام کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔اب یہ انتخابات کے بعد آنے والی حکومت پرمنحصر ہوگا کہ وہ اس گھمبیر صورت حال سے نجات کےلئے کیا اقدامات کرتی ہے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کےلئے ضروری ہوگا کہ وہ معمول سے ہٹ کر موثر پالیسی اختیار کرےتاکہ تجارتی خسارہ کم اورادائیگیوں میں توازن پیدا ہوسکے۔پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مسلسل اضافے سے عام آدمی جن مالی مشکلات کاشکار ہے ان کے ازالے کےلئے بھی نئی حکومت کوٹھوس پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔دونوں حوالوں سے ملکی معیشت میں استحکام پیدا کرنا ازبس ضروری ہے۔عوام پراتنا بوجھ نہ ڈالا جائے جسے وہ برداشت نہ کرسکیں۔

تازہ ترین