• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ گزشتہ چند روز سے تاریخ سازی کے کام میں تو مصروف ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ تنازعات کھڑے کر کے دنیا کی توجّہ اپنی جانب مرکوز رکھنے میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ اپنی صدارت کے پہلے سال تو صدر ٹرمپ نے وہائٹ ہائوس میں سالانہ روایتی افطار، ڈنر منعقد نہیں کیا لیکن اس سال 6؍جون کو اپنے دور صدارت کا پہلا افطار، ڈنر وہائٹ ہائوس میں منعقد کر کے روایت اور تاریخ کا تسلسل بحال کر دیا لیکن ماضی کے برعکس اس بار انہوں نے امریکی مسلم اقلیت کے نمائندوں کو مدعو ہی نہیں کیا بلکہ صرف چند مسلم ممالک کے سفیروں کو مدعو کرنے پر اکتفا کیا اور امریکی مسلمان شہری وہائٹ ہائوس کے باہر ٹرمپ کی مسلم مخالف پالیسیوں اور اقدامات پر احتجاج کرتے رہے اور احتجاجی پلے کارڈ اٹھائے، نعرے لگاتے، کھلے آسمان تلے اذان دیتے، افطار کرتے اور نماز مغرب ادا کرتے دیکھے گئے۔ بعض حلقوں نے تو یہ بات بھی نوٹ کی ہے کہ امریکی مسلمانوں کی اکثریت کی ٹرمپ مخالفت کے باوجود اپنا جمہوری حق استعمال کر کے ری پبلکن پارٹی کے کنونشن کے اسٹیج پر کھڑے ہو کرٹرمپ برائے صدر کی حمایت کر کےپاکستانی نژاد امریکی سجاد تارڑ نے امریکہ اور دنیا میں شہرت اور کمیونٹی میں ناراضگی بھی حاصل کی۔ صدرٹرمپ نے سجاد تارڑ کو بھی نظرانداز کر دیا۔ انہیں بھی مدعو نہیں کیا گیا حالانکہ وہ ٹرمپ کے حامی ری پبلکن ہیں۔ وہائٹ ہائوس میں مقیم صدر ہر نسل و رنگ، مذہب و ثقافت کے حامل امریکی شہری کا نمائندہ ہوتا ہے اور یہ افطار، ڈنر کوئی سفارتی ڈنر نہیں بلکہ امریکی مسلمانوں کی موجودگی اور علامتی نمائندگی کا مظہر ہے لیکن صدر ٹرمپ نے اپنے امریکی مسلمان شہریوں کے نمائندوں کو ہی یکسر نظرانداز کر دیا۔ صدر ٹرمپ کے وہائٹ ہائوس کی جانب سے مسلم کمیونٹی اور اپنے پرجوش حامی ساجد تارڑ کو بھی مدعو نہ کرنے کے معاملے کو امریکی میڈیا نے بھی موضوع بنایا ہے بہرحال رمضان کا آخری عشرہ بھی ختم ہونے کو ہے اور عیدالفطر کی خوشیاں مناتے ہوئے امریکی مسلمانوں کی لیڈرشپ کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ امریکی معاشرے اور سیاست میں اپنی مؤثر شناخت کیلئے انہیں کیا کرنا چاہئے؟
افطار، ڈنر کے دو روز بعد صدر ٹرمپ نے اپنے پڑوسی ملک کینیڈا کے ایک شمالی قصبے میں دنیا کی مضبوط معیشت اور صنعت کے حامل ملکوں کے گروپ G-7کی کانفرنس میں شرکت کیلئے سفر کیا اور وہاں بھی ایک تنازعہ کھڑا کر کے نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے سنگاپور پہنچ گئے۔ کینیڈا کے 46سالہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو G-7 کانفرنس کے میزبان تھے اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل، صدر فرانس میکرون اور برطانیہ، اٹلی اور جاپان کے وزراء اعظم شریک تھے۔ پہلے ہی معاہدہ نیٹو کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات کے باعث کچھ اختلاف رائے اور محتاط روی کا ماحول موجود تھا۔ صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے تھے کہ نیٹو معاہدہ کے رکن ممالک نیٹو اخراجات کا زیادہ حصّہ شیئر کریں، امریکہ اب اخراجات کا اتنا بڑا حصّہ ادا نہیں کرے گا۔ اپنے اس بیان سے صدر ٹرمپ نے نیٹو کے مستقبل کیلئے اندیشے پیدا کر دیئے اور یورپی ممالک میں تشویش پیدا ہو گئی تھی۔ معاہدہ نیٹو کے ذریعے اجتماعی اور طاقتور سیکورٹی کا نظام بھی امریکہ نے بنایا اور فروغ دیا تھا، اسی طرح عالمی معاشی برتری کیلئے G-7ممالک کا گروپ بھی امریکہ نے ہی تشکیل دیا تھا اور قائدانہ رول بھی امریکہ ہی ادا کرتا رہا ہے۔ امریکہ کو اپنی فوجی اور معاشی عالمی برتری قائم رکھنے کیلئے نیٹو اور G-7کے اجتماعی معاہدوں اور رکن ممالک کی بہت ضرورت رہی ہے لہٰذا اخراجات اور مراعات دینے کا بڑا بوجھ امریکہ برداشت کرتا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی احسان جتلاتے ہوئے ان ممالک سے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے نام پر مطالبات اور دبائو کا سلسلہ شروع کر دیا جس کے باعث اختلافات، غیر یقینی اور کشیدگی یورپ اور امریکہ کے درمیان پیدا ہو گئی۔ ادھر صدر ٹرمپ نے شمالی امریکہ میں اپنے دونوں پڑوسی ممالک کینیڈا اور میکسیکو سے بھی مطالبہ کیا کہ میکسیکو، امریکہ سرحد کی تعمیر کے اخراجات برداشت کرے۔ تینوں ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کا نارتھ امریکہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (نافٹا) ختم کر کے دوطرفہ معاہدے کئے جائیں۔ کینیڈا اور یورپی ملکوں سے امریکہ کو ایکسپورٹ کئے جانے والے اسٹیل اور المونیم وغیرہ پر بھاری ٹیرف اور جرمانے عائد کر دیئے تاکہ امریکی انڈسٹری کو تحفّظ مل سکے۔ باہمی اختلافات کی اس صورتحال کے ماحول میں صدر ٹرمپ جب G-7کی کانفرنس میں شرکت کیلئے کینیڈا روانہ ہوئے تو یہ ناموافق ماحول طاری تھا۔ صدر ٹرمپ کانفرنس میں اس وقت پہنچے جب میزبان کینیڈین وزیراعظم اپنی افتتاحی تقریر ختم کر چکے تھے۔ صدر ٹرمپ کو مرکزی حیثیت کی بجائے آئی ایم ایف کی سربراہ خاتون کے برابر بٹھا دیا گیا جبکہ گروپ کے مشترکہ اعلامیہ پر امریکہ سمیت تمام سات اراکین متفق ہو چکے تھے مگر صدرٹرمپ نے G-7کو G-6بہ مقابلہ ایک میں تبدیل کرتے ہوئے گفتگو کی اور کہا کہ اب وہ امریکہ سے یکطرفہ مراعات حاصل نہیں کر سکیں گے بلکہ متوازن اور مساوی ٹیرف کے ساتھ تجارت ہو گی۔ صدر ٹرمپ کانفرنس کے اختتام سے قبل ہی اپنی اگلی منزل سنگاپور کیلئے روانہ ہو گئے اور روانہ ہوتے ہی اپنے طیارے ’’ایئرفورس ون‘‘ سے ٹویٹر پیغام جاری کر دیا کہ وہ گروپ کے مشترکہ اعلامیہ کی حمایت سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے پہلے ہی گروپ کے رکن ممالک پر تنقید اور الزامات سے نوازتے ہوئے بہت کچھ کہا تھا لیکن روانگی کے ساتھ ہی انہوں نے تمام تر ذمہ داری میزبان ملک کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو پر ڈالتے ہوئے انہیں سخت نازیبا اور غیر سفارتی الفاظ سے نوازا۔ کینیڈین وزیراعظم کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دے ڈالا۔ عالمی معیشت کے مضبوط ترین ممالک کے گروپ میں انتشار اور اختلاف کا یہ پہلا تاریخی واقعہ ہے۔ ادھر سنگاپور پہنچنے کے بعد بھی صدر ٹرمپ اپنے ٹوئیٹرز کے ذریعہ G-7ممالک پر تنقید اور اپنے مؤقف پر ڈٹے صورتحال کو ابتری دیتے رہے۔ صدر ٹرمپ کے ٹریڈ امور کے معاون لیری کڈلو نے ٹی وی انٹرویو میں کینیڈین وزیراعظم پر شدید تنقید کرتے ہوئے جہنم کا ذکر کیا اور بے رحمانہ انداز میں گفتگو کی۔ شمالی کوریا کے سربراہ سے ملاقات سے صرف دو منٹ قبل صدر ٹرمپ کا ٹویٹ آیا کہ لیری کڈلو ہارٹ اٹیک کے باعث واشنگٹن کے اسپتال میں ہیں۔ تادم تحریر لیری کڈلو خطرے سے باہر آ گئے اور صدرٹرمپ کینیڈا کے بعد اب سنگاپور کے قریبی جزیرے میں شمالی کے سربراہ کم جنگ آن کے ساتھ اپنی پہلی اور تاریخی ملاقات اور مذاکرات کا نیا تاریخی باب رقم کرنے میں مصروف رہے۔ امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق شمالی کے سربراہ خاصے ہوشیار اور ناقابل اعتبار ہیں مگر صدر ٹرمپ امریکی انٹیلی جنس کی رائے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شمالی کے وفد کے اراکین بھی امریکہ سے واقفیت رکھتے ہیں۔ امریکہ، شمالی مزاکرات اور اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں امریکہ کے بعض اتحادی بھی فکرمند ہیں۔ جاپان بہت فکرمند ہے کیونکہ شمالی اور جاپان کے درمیان تلخ تعلقات، جاپانیوں کا ماضی میں اغوا اور دیگر تلخ تاریخ کے باب موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ نے سنگاپور روانگی سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ وہ ملاقات کے پہلے ایک منٹ میں ہی جان جائیں گے کہ کم جنگ آن مذاکرات کے اہل ہیں یا نہیں۔ صدر ٹرمپ نے شمالی سے ملاقات و مذاکرات کیلئے قدم اٹھا کر بڑا رسک لیا ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا کے سربراہ نے بھی اپنے اقتدار کیلئے خطرات مول لئے ہیں۔
شمالی کوریا کی اتنی بڑی فوج اور کم جنگ آن کے سیاسی مخالفین کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے خطرات کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے، اسی لئے کم جنگ آن نے گزشتہ دنوں فوج کے متعدد جنرلوں اور دیگر اہم افراد کو حسّاس اور اہم عہدوں سے ہٹا کر اپنا اقتدار مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ، کم جنگ آن ملاقات کے شروع ہوتے ہی سنگاپور سے رپورٹنگ کرنے والے امریکی میڈیا نے شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کی ’’ڈی نیوکلیئرائزیشن‘‘ کے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا تفصیلی ذکر بھی شروع کر دیا۔ قبل ازیں بھی بعض امریکی حلقے شمالی کوریا کی ’’ڈی نیوکلیئرائزیشن‘‘ میں کامیابی یا ناکامی کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ’’ٹرمپ کی توجّہ‘‘ کا ذکر کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے محافظوں اور ڈپلومیسی کرنے والوں کو شمالی سے مذاکرات اور نتائج و اثرات پر زنظر رکھنی چاہئے۔ ہمارے سیاستدان تو اقتدار کے حصول اور اقتدار سے محرومی کے جنون اور خوف میں مبتلا ہیں۔ معیشت کی حالت دگرگوں اور پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گر رہی ہے۔ عام انتخابات کی صورتحال غیر یقینی، بیرونی عناصر کی مداخلت، کمزور مخلوط حکومت کے امکانات، بھارتی ’’را‘‘ کا کردار، حکومتی اداروں کی بے بسی و کمزوری وہ عوامل ہیں جو پاکستان کو امریکہ کے دبائو کا سامنا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ شمالی کوریا، چین اور روس حالیہ مزاکرات بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ صرف ہاتھ ملانے اور گرم جوشی سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اہل پاکستان کو ان مذاکرات سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ شمالی کوریا، امریکہ مذاکرات کے نتائج جو بھی ہوں، صدر ٹرمپ نے 6؍جون سے سات دنوں کے عرصے میں افطار، ڈنر، کینیڈا کانفرنس اور سنگاپور میں تین اہم محاذوں پر تاریخ سازی کا کام کیا ہے۔ دیکھیں دنیا کے مستقبل کو اس سے کیا حاصل ہوتا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین