• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاس اوزاوا میرا قریبی دوست تھا جو اچانک ملازمت چھوڑ کر جاپان کی حکمراں جماعت میں شامل ہوگیا ،پھرمعلوم ہوا کہ اسے نئے لوگوں کو پارٹی میں شامل کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔یہ کام اس نے اتنی تندہی سے کیا کہ اگلے عام انتخابات میں اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ آج میرا یہ دوست جاپان کی پارلیمنٹ کا ممبر ہے یہ جاپان کی سیاست کا چھوٹا سا واقعہ ہے اور عام سا بھی کیونکہ جاپان میں پارلیمنٹ میں پارٹیاں اپنے وفادار کارکنوں کو ہی بھیجتی ہیں، یہی حال تمام ترقی یافتہ ممالک کی جمہوریتوں کا ہے تاہم پاکستان میں آج کل انتخابات کا دورشروع ہوچکا ہے ،پچیس جولائی عام انتخابات کی تاریخ کے طور پر مختص ہوچکی ہے ،سیاسی جماعتوں نے اپنے بہترین نمائندے پارلیمنٹ میں بھیجنے کے لئے انٹرویوز شروع کررکھے ہیں ،بعض سیاسی جماعتیں یہ مرحلہ مکمل بھی کرچکی ہیں تاہم اس مرحلے میں اب جن نمائندوں کو ٹکٹ نہیں مل سکے ہیں انھوں نے اپنی ہی پارٹی کے خلاف دھرنے شروع کردیئے ہیں اس طرح وہ اپنے ہی لیڈروں کی دھرنوں اور انصاف کے لئے جدوجہد کرنے کی تربیت اپنی ہی پارٹی کے خلاف استعمال کررہے ہیں، جبکہ کہیں بہت سے نمائندے پارٹی قیادت کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرکے پارٹی کی حمایت کا یقین بھی دلاچکے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ الیکشن کے مرحلے میں ٹکٹ کے حصول میں کامیابی الیکٹیبلز Electablesکی ہی ہوتی ہے جنھوں نے اپنے انتخابی حلقے میں اپنے اثرورسوخ اور دولت کے بل بوتے پر ایک مقام بنایا ہوتا ہے جس کی بناپر وہ حلقے میں اکثریتی ووٹ حاصل کرکے اپنی جماعت کے لئے سیٹ کا حصول ممکن بناتے ہیں ،تاہم بعض دفعہ سیاسی جماعت اپنی مقبولیت کی بنیاد پر الیکشن میں ایسے محنتی اور وفادار کارکنان کو بھی الیکشن ٹکٹ عنایت کرتی ہے جنھوں نے پارٹی کے لئے مشکل وقت میں قربانیاں دی ہوتی ہیں پھر پارٹی کی لیڈر شپ پارٹی کی مقبولیٹ کی بنیاد پر ایسے کارکنوں کوکامیاب کرنے کے لئے توانائیاں صرف کرتی ہے،اس کی مثال ن لیگ میں احسن اقبال ،پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان ہیں جو شاید اپنی دولت کے بل بوتے پر تو سیاست میں وہ مقام حاصل نہ کرپاتے تاہم پارٹی قیادت سے وفاداری اور مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہ کر انھوں نے میاں نواز شریف کی قربت حاصل کی اور پھر میاں نواز شریف نے اپنے اچھے وقت میں احسن اقبال کو قومی اسمبلی اور پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان کو سینیٹ میں منتخب کروایا ،یہی بات پاکستان تحریک انصاف میں دیکھی جائے تو اسد عمر کو اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر کامیاب کرانے میں عمران خان کا اہم کردار رہا ہے جبکہ فیصل جاوید بھی عمران خان کے جلسوں کی میزبانی کرکے عمران خان کے منظور نظر ہوئے اور سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ،اسی طرح پیپلز پارٹی میں ڈاکٹر قیوم سومرو مشکل وقت میں آصف زرداری کا ساتھ نبھانے کی بہترین مثال ہیں جو بعد میں سینیٹ میں پہنچے۔ سیاست کے اس کھیل میں بعض دفعہ اہل کارکنان ٹکٹ سے محروم رہ جاتے ہیں اور سیاسی ڈکشنری میں پیرا شوٹر کہلانے والے ٹکٹ حاصل کرجاتے ہیں، کچھ اسی طرح مسلم لیگ ن کے مشکل وقت کے ساتھی اور نواز شریف کے قریبی دوست ن لیگ انٹرنیشنل افیئر کے جنرل سیکرٹری شیخ قیصر محمود جو مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے اگلے کئی سالوں تک جب تک میاں نواز شریف جلاوطن رہے،معاشی طور پر پاکستان میں مسلم لیگ ن کے اخراجات برداشت کرتے رہے جبکہ ایک اور اہم رہنما جو مشرف دور میں کئی سال جیل میں رہے ان کے بھی ماہانہ اخراجات برداشت کئے اس کے بعد بھی پاکستان میں سیلاب ہو یا زلزلے کی آفت ہر مشکل وقت میں ن لیگی قیادت کے کہنے پر کروڑوں کے فنڈز جمع کرکے پارٹی تک پہنچاتے رہے ،پھر میاں نواز شریف کو ایک روز ان کی قربانیاں نظر بھی آئیں اور انھیں اپنے چنیوٹ کے حلقے سے تیاری کا حکم نامہ بھی ملا ان کی جانب سے بھرپورتیاری بھی ہوئی لیکن پھر کچھ سیاسی مجبوریوں کے باعث ٹکٹ کا خط اچانک چنیوٹ کی معروف کاروباری شخصیت قیصر احمد شیخ کوملا ،اور ایک سیاسی کارکن محروم رہ گیا ،اب ایک بار پھر عام انتخابات کا دور ہے دیکھیں اس دفعہ قرعہ کس کے نام نکلتا ہے، ایسی بات نہیں ہے کہ میاں نواز شریف نے اوورسیز کارکنوں کو پارلیمنٹ میں نہیں پہنچایا اور جب اتنے میگا انتخابات ہورہے ہوں تو انجانے میں بھی بعض دفعہ سیاسی مجبوریوں کے باعث حق تلفی ہوہی جاتی ہے، اس دفعہ نئی حلقہ بندیوں کے باعث انتخابات مشکل ہونگے اور نتائج بھی مختلف ہوسکتے ہیں، حال ہی میںا سلام آباد میں این اے 54 کی نئی سیٹ میں ن لیگ جاپان کے صدر ملک نور اعوان بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں ،ملک نور اعوان گزشتہ پچیس برسوں سے پارٹی کے کارکن ہیں ،شیخ رشید کو پارلیمنٹ میں روک کر رقم کا تقاضا کرکے شہرت حاصل کی، جس کے بعد کبھی کیپٹن صفدر کے لئے نیب کی گاڑی کے آگے لیٹ کر سرخیوں میں جگہ بنائی تو کبھی ریحام خان سے خفیہ ملاقات کی تصاویر نے میڈیا پر شہرت دلائی ،تو کبھی مریم نواز اور کلثوم نواز کے دفاع میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کراکے شہرت کمائی تو کبھی میاں نواز شریف کے حق میں چیئرمین نیب کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست جمع کراکر نواز شریف کے قریب ہوئے تاہم انھوں نے اب این اے 54سے پارٹی ٹکٹ طلب کرکے پارٹی قیادت کو امتحان میں ڈال دیا ہے جہاں سابق ایم این اے انجم عقیل پہلے سے ہی مضبوط امیدوار کی صورت میں موجود ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کے اسد عمر بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑیں گے ،اسی طرح سینیٹر مشاہد اللہ خان بھی کراچی کے حلقہ این اے 244سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے صاحبزادے افنان خان بھی کراچی کے حلقہ این اے 247سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے، دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے بھی اس دفعہ بڑی تعداد میں ٹکٹ کے حصول میں ناانصافی کی شکایتیں آرہی ہیں تاہم عمران خان پہلے ہی میڈیا پر یہ کہہ چکے ہیں کہ اس دفعہ انھیں ہر حال میں الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے حکومت بنانی ہے تاکہ پاکستان کے حالات کو ڈگر پر لاسکیں لہٰذا اس دفعہ ان کی پارٹی زیادہ تر electables کو ٹکٹ دےگی اور یہ افراد زیادہ تر بااثر افراد ہی ہونگے جو انتخابات میں پانی کی طرح پیسہ بہانے کی اہلیت رکھتے ہونگے، بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں صرف پارٹی کا وفادار ہونا کافی نہیں ہے بلکہ آپ کاپیسے والا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ آجکل انتخابات میں کروڑوں روپے کے اخراجات باآسانی ہوجاتے ہیں ،جلسے جلوسوںمیں لوگوں کو لانے کے لئے بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے، لوگوں کے چھوٹے موٹے کام بھی ذاتی رقم سے کرانے پڑتے ہیں ،درجنوں گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جلسے جلوسوں اور الیکشن کے دنوں میں کارکنوں کے استعمال میں رہتی ہیں پھر کم از کم دو وقت کا کھانا سینکڑوں لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے لہٰذا اس دفعہ پی ٹی آئی کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ماضی میں کسی اور پارٹی کے ٹکٹ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوچکے ہوں ،معاشی طور پر مضبوط ہوں اور نہ صرف اپنے اخراجات اٹھا سکتے ہوں بلکہ پارٹی کے لئے بھاری فنڈز کی فراہمی کے اہل ہوں ،ایسے امیدواروں کی ہر پارٹی کو ہی ضرورت ہوتی ہے یہی کچھ موجودہ سیاسی جماعتیں بھی کررہی ہیں لہٰذاان ہی وجوہات کی بنا پر کئی وفادار اور سینئر کارکنان نظر انداز ہوگئے ہوں گے۔ امریکہ ،برطانیہ اور جاپان کی سیاست میں تومڈل کلاس بیک گرائونڈ سے تعلق رکھنے والا سیاسی کارکن ٹکٹ لے سکتا ہے لیکن پاکستان میں انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھنے والا ہی ٹکٹ کے حصول کا حقدار ٹھہرے گا لہٰذا جن متحرک، سینئر اور وفادار کارکنو ں کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہیں مل سکا ان سے درخواست ہے کہ اپنی پارٹی قیاد ت کو اپنے انتخاب جیتنے کا اہل ثابت کرنے کی کوشش کریں یقین کریں آپ کو ٹکٹ مل جائے گا ،ورنہ کارکن تو ماریں کھانے اور نعر ے لگانے کے لئے ہوتے ہیں اسی کام کے لئے مستقبل میں بھی تیار رہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین