• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ریحام خان جھوٹ بول سکتی ہے مگر بلیک بیری کبھی جھوٹ نہیں بولتا‘‘ یہ فقرہ ہم نے ایک محفل میں اپنے پی ٹی آئی کے دوستوں سے چھیڑ خانی کے لئے لڑھکایا تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے، آنکھوں میں انجانے خوف کے سائے لرزنے لگنے، ہونٹ بھنچ گئے اور پیشانیاں شکن آلودہ ہو گئیں، جب کہ دوسری طرف اصحابِ نون تھے اور ’گرمئی نشاطِ تصور‘۔ اچھی خاصی دلچسپ گفتگو سے نڈھال ہو کر آخرِکار سب پڑھے لکھے دوست اس نکتہ پر متفق ہو گئے کہ ’نجی‘ معاملات کو سرِ بازار نہیں لانا چاہئے، پھر یہی نقطہ نظر ٹی وی پروگرامز میں بھی مقبول دیکھا گیا، خواہ شرکاء کی ہمدردی کسی بھی جماعت سے رہی ہو۔
تلخ طلاق اور پھر فریقین کی منتقم مزاجی تو ایک عام کہانی ہے، ریحام خان کی مبینہ کتاب میں کتنا سچ ہے کتنا جھوٹ، پی ٹی آئی نے کتاب کا زہر مارنے کے لئے جو ’’از خود نوٹس‘‘ لیا کیا وہ ایک کامیاب حکمت عملی تھی، کیا اب اس کتاب کا ڈنک نکل گیا ہے، اور ایسے ہی کئی سوالوں سے ہمیں کم از کم اس وقت کوئی علاقہ نہیں، لیکن اس سارے قصے میں ایک نکتہ دلچسپ ہے کہ کیا واقعی رہنما کی نجی زندگی سے اس کے پیروکاروں کا کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے، کیا لیڈر کو فقط اس کی پبلک لائف اور بیانات سے ہی جانچنا چاہئے؟
یہ درست ہے کہ مذہب ہمیں ’’لا تجسّوا‘‘ کا سبق دیتا ہے، نجی زندگی کا انتہائی احترام کرتا ہے اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے، لیکن یہ نہیں سکھاتا کہ کسی مظلوم کے حق میں سچی گواہی دینے کا وقت آئے تو آپ پردہ پوشی شروع کر دیں بالخصوص اگر حاکم یا رہنما پر کوئی الزام لگ جائے پھر تو اس پر کڑی تحقیق کا حکم دیتا ہے۔ کیا خلوت اور جلوت میں دو مختلف زندگیاں گزارنا منافقت نہیں ہے؟ اہل مغرب کہ ہر آن personal space کے حق میں نعرہ زن رہتے ہیں، جب اپنے لیڈر کی نجی زندگی کا معاملہ آ جائے تو انتہائی بے لچک رویہ اپنا لیتے ہیں، بغور جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں ہمارے لیڈر کی ’’نجی زندگی‘‘ کی کوئی عادت ایسی تو نہیں جس سے کارہائے منصبی کی ادائی متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً شراب ان کے معاشرے میں معیوب نہیں سمجھی جاتی لیکن مغربی ووٹر اپنے لیڈر کی شراب کی مقدار پہ بھی نظر رکھتا ہے، یہ بھی دیکھتا ہے کہ کہیں لیڈر صاحب مخمور ہو کر بدتہذیبی پر آمادہ تو نہیں ہو جاتے، چاہے ایسا وہ اپنی خواب گاہ میں ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔
اہلِ مغرب اپنے لیڈر کی نجی زندگی اس لئے بھی کھنگالتے ہیں کہ کہیں کوئی قول و فعل کا بڑا تضاد تو نہیں ہے، جیسے کہ لیڈر اپنی عوامی زندگی میں تو خواتین کے حقوق کا بلند آہنگ داعی ہو مگر اپنی نجی زندگی میں خواتین کے حقوق پامال کرتا ہو۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی اسکینڈل کے یوں تو کئی پہلو تھے لیکن امریکی رائے عامہ بل کلنٹن کے قول و فعل کے تضاد پہ سب سے زیادہ برہم تھی کہ خانگی زندگی کی عظمت کے ترانے گانے والا بے وفائی کا مرتکب ہوا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جنسی ہراسگی کے خلاف پر اثر خطبات دینے والے نے اپنی ایک Interneکے ساتھ وہی نازیبا حرکت کی تھی۔ مثالیں تو درجنوں ہیں مگر نکتہ ایک ہی ہے، لیڈر کی نجی زندگی کا دائرہ بہت ہی محدود ہے۔ ہمارا لیڈر اپنا وقت کیسے گزارتا ہے، کس کے ساتھ گزارتا ہے، کیا اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے اور کیا کھیلتا ہے، شطرنج یا لڈو، اور اگر ہارنے لگے تو کہیں بساط تو نہیں اُلٹ دیتا، ہم یہ سب جاننا چاہتے ہیں، آخر یہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا معاملہ ہے اور صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لئے جتنی بھی چھان پھٹک کی جائے کم ہے۔
بات تو ریحام خان کی کتاب سے نکلی ہے لیکن ہمارا روئے سخن صرف ریحام کے سابقہ شوہر کی طرف نہیں ہے، ہم عمومی گفتگو کر رہے ہیں، ایک اصول کی بات کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پہ خان صاحب کب سے دہائی دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو ’’سری پائے اور ہریسے‘‘ کی لت لگی ہوئی ہے اور ایسا بسیار خور شخص وزیرِ اعظم کے عہدے کے لئے موزوں نہیں ہے۔ میاں صاحب کے دفاع میں کسی نے کچھ بھی کہا ہو لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ یہ ان کی ’’نجی زندگی‘‘ ہے آپ اس میں مداخلت نہ فرمائیے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اگر لیڈر کی شکم پروری حد سے بڑھ جائے اور اس کی کارکردگی و فیصلہ سازی کو متاثر کرنے لگے تو لیڈر کی خوراک بھی اس کا ’نجی معاملہ‘ نہیں رہے گا بلکہ ایک قومی مسئلہ بن جائے گا۔ اسی طرح اگر قوم خان صاحب کی اشیائے خور و نوش کے بارے سوال کرے تو اس کا سنجیدگی سے جواب دینا چاہئے ’’یہ ان کا نجی معاملہ ہے‘‘ تو کوئی جواب نہ ہوا۔
کیا جھوٹ بولنا لیڈر کا نجی معاملہ ہوتا ہے اور کیا بار بار قوم سے جھوٹ بولنے کو بھی رہنما کا نجی معاملہ قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ویسے تو طلاق، شادی اور ایامِ عدت کو نجی معاملات قرار دیا جا سکتا ہے مگر کیا زندگی کی ان سب کروٹوں کے بارے قوم سے تواتر سے جھوٹ بولنے کو بھی رہنما کا نجی معاملہ کہہ کر صرف نظر ممکن ہے؟ ویسے تو ہم آئینِ پاکستان کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کو سرکش سیاستدانوں سے نپٹنے کا ایک بھونڈا طریقہ سمجھتے ہیں لیکن اب یہ قضیہ جو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اٹھایا ہے اس کا کیا حل ہے؟ اس مسئلے کے کئی تکلیف دہ پہلو ہیں جن کی تفصیل میں جانے پر طبیعت آمادہ نہیں ہے، مگر سب سے اہم سوال پھر دروغ گوئی کا ہے، اور عدالتیں تو اب سہو کی دلیل مانتی بھی نہیں ہیں، آپ لاکھ کہتے رہیں کہ میں اقامہ بتانا بھول گیا تھا، کجا کہ کوئی اپنی اولاد ہی بتانا بھول جائے۔
اس گفتگو میں دینی حوالوں سے شعوری اغماض برتا گیا ہے، بس آخر میں ایک حوالہ، حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ حضورﷺ اپنی ازواج مطہرات کو تاکید کرتے تھے کہ خلوت میں جو میں کہتا ہوں، جو میں کرتا ہوں اسے آگے بیان کیا کرو (مفہوم)۔ یہ ہے عالم انسانیت کے سب سے عظیم رہنما کی ’’نجی زندگی‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

 

تازہ ترین