• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تنقید، تھیوری، اطلاقی جہت اور ہمارا ادب (تیسری اور آخری قسط)

محمد حمید شاہد

 جدیدیت کے ایک معنی قدامت کا کُلی اتلاف اور روایت شکنی ہے اور مابعد جدیدیت مرے کو مارے شاہ مدار۔ یہ طنز کے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر آتی ہے، سابقہ متون کی باز گشت دریافت کرتی ہے، ارفع اور عامیانہ ثقافت الگ کرکے تخلیق کار کو شرماتی ہے۔ مانتا ہوں کہ اِس میں سب برا نہیں ہے، بس یوں ہے کہ اس مابعد جدیدیت والے ڈسپلن کو بھی یہاں کی برائے نام جدیدیت کی طرح پسپائی اِختیار کرکے اپنے حالات سے سمجھوتہ کرنا ہو گا اور ہماری روایت کے احترام پر اصرار کرتی شعری اصناف کے لیے گنجائشیں نکالنا ہوں گی۔ نئی تنقید میں یہ بھی اچھا ہوا ہے کہ تانیثی تنقید کا دریچہ کُھل گیا ہے۔ عورت کیا سوچتی ہے اور کیسے سوچتی ہے؟ اس باب میں عمدہ کام ہوسکتا ہے اور کچھ ہوا بھی ہے۔ مانتا ہوں کہ ہمارے ہاں عورت کی وکالت زیادہ تر مردوں ہی نے کی ہے، مگر کیا یہ درست نہیں ہے کہ اُدھر بھی تانیثیت کے بنیاد گزاروں میں جان اسٹور آرٹ مل جیسا مرد ہی تھا۔ کہنا یہ ہے کہ اطلاقی تنقید میں تانیثیت کو جب تک مقامی تناظر فراہم نہیں ہوگا تب تک بات بنے گی نہیں۔ اُدھر والی تانیثیت یہاں چلنے والی ہے نہ لزبن اور گے تنقید؛ کہ یہ سب اُدھر کے تنقیدی چونچلے ہیں ، وہی ٹکڑوں میں سوچنے اور ہر ٹکڑے کو الگ ڈسپلن بنانے کے دُھن ۔

ہمارے ہاں مابعد نو آبادیاتی تنقید کا بھی بہت غُل مچا ۔ میں نے اس تنقیدی حیلے کی بابت جو سمجھا وہ کچھ یوں ہے کہ دوسری قوموں کو اپنی نو آبادیات بنانے والا مغرب جن معیارات کو کامل اور ارفع بتاتارہا ہے ، وہ محض ایک دھوکا تھا؛ استعمار کا دھوکا ۔ہمیں اس تنقیدی وسیلے سے مقامی ثقافتوں کے کھوج کی جانب ٹھِل پڑنا تھا اور سامراج سے کنی کاٹ کر بچا لیے جانے والے تہذیبی و ثقافتی ورثے کو نشان زد کرنا تھا، جو مغرب کی عطا نہیں ہے، لیکن یوں لگتا ہے کہ اس باب میں بھی ہم نے شراب سیخ پر ڈالی ہے اور کباب شیشے میں۔ ہم اس جستجو میں لگ گئے ہیں کہ کہاں کہاں ہم انگریز سے متاثر ہوکر بدل گئے ہیں۔ گویا اس باب کی ہماری تنقید کو ہر بار ہمارا اپنا آدھا بھرا ہوا گلاس، آدھا خالی نظر آیا ہے۔مابعد نوآبادیات کی ذیل میں جو مباحث قائم کیے گئے ہیں ، ان پر ایمان لائیں تو سر سید احمد خان کی پرانی، مگر روشن تصویر پر سیاہی پھر جاتی ہے ۔ مثلاً دیکھئے ہمیں یہاں یہ بتایا جارہا ہے :

’’ہر چند ہندوستان میں 1757 سے 1857تک انگریزوں نے جنگیں لڑیں اور مقامی آبادی کے ہزاروں افراد قتل اور قید ہوئے مگر یہاں انگریزوں نے اجتماعی نسل کشی کے بجائے طاقت کے استعمال کی ایک اور صورت دریافت کی۔ طاقت کو سماجیانے کا عمل اور ذہنی سرگرمیوں کی اصلاح کے لیے تعلیمی تحریک۔ ‘‘

سرسید احمد خان کی وہ تصویر جو بچپن میں، میں نے دیکھی وہ مکمل نہ تھی کہ اس میں داڑھی آدھی تھی اورمجھے یوں لگتا ہے کہ یہ تصویر بھی نامکمل ہے جوہمیں ’’مابعد نو آبادیات تنقید‘‘ کو اردو کے تناظر میں دِکھانے کے لیے سرسید کو اِدھر اُدھر سے کاٹ پیٹ کر دکھائی جا رہی ہے ۔ پہلی تصویر میں لگ بھگ وہ فرشتہ ہو گئے ہیں اورناصر عباس نیر کی نئی تنقیدی کتاب میں، جتنا سرسید استعمال ہوئے ہیں انگریزوں کے ایسے آلہ کار کے طور پر نظر آتے ہیں، جن کی زندگی مقامی لوگوں ،بالخصوص مسلمانوں کی ذہنی سرگرمیوں کی اصلاح والی تعلیمی تحریک کے ذریعے طاقت کو سماجیانے کے عمل میںصرف ہو گئی تھی۔ لطف یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں سرسید کو اپنے زمانے کاٹ کر اور جس کٹھن راستے پر وہ چل رہے تھے ، اسے نظروں سے اوجھل رکھ کر دیکھا اور دکھایاجارہا ہے۔

یوں نہیں ہے کہ ہمارے بہ جا طور پر سب سے زیادہ توجہ پانے والے اس ناقد کے ہاں سرسید کی مکمل تصویر یہی بنتی ہوگی، مگر یوں ہے کہ اس تنقید کے نادرست اطلاق میں یہاں(کم از کم اس کتاب میں) ایسا نظر آنے لگاہے ۔ہم یہاں یہ بھول جاتے ہیں کہ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو اپنے قدموں پر تب اُٹھانا چاہا تھا جب وہ نڈھال ہو کر بالکل گر چکے تھے۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا تھا کہ انگریز مسلمان کے خون کا پیاسا تھا ،تعلیم ہو یا سرکاری ملازمتیں، ان پر سب دروازے بند تھے اور بہ ظاہر انگریز سے ٹکرا جانے کا مطلب تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مسلمان بھی اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتے تھے ۔خیر بات کہیں اور نکل جائے گی ، کہنا یہ ہے کہ مغربی تنقید کی بہت سی باتیں اچھی ہیں ، ضرور اچھی ہیں،تاہم کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ان اچھی باتوں کو اردو تنقید کا حصہ ہو کر آنا چاہیے۔ ناقدین جب تک تھیوری کی ترجمانی کو ترک کرکے ان قوائد کو اپنی فہم کا حصہ بنا کر یہ بھول نہیں جاتے کہ وہ کوئی خاص تھیوری برتنے جا رہے ہیں اور یہ کہ تخلیق کی کل کو پالینے اور اس کی تعیین قدر کی صورتیں نہیں نکالتے، اطلاقی تنقید کے قابلِ ذکر نمونے وجود میں نہیں آئیں گے۔    

تازہ ترین