• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں وفاقی وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اوروزیرتوانائی علی ظفر نے منگل کو اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں جہاں ملکی معیشت میں بہتری کے کئی حوصلہ افزا حوالے دیئے وہاں ان منفی عوامل کابھی ذکر کیا جواقتصادی ترقی کی رفتارپر بری طرح اثر انداز ہورہے ہیں۔حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ملک کی معیشت تمام رکاوٹوں کے باوجود ترقی کر رہی ہے۔اقتصادی شرح نمو8.5فیصدکی حد کوچھورہی ہے۔ صنعت، زراعت اوراورسروسز سمیت ہر شعبے میں بہتری آرہی ہے۔مہنگائی کی شرح کنٹرول میں ہے۔سرمایہ کاری بڑھی ہے اوربجلی کی پیدوار میں دس ہزار میگاواٹ کااضافہ ہواہے جس سے سسٹم میں28ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے جبکہ طلب25ہزار میگاواٹ سے زیادہ نہیں لیکن اس کے ساتھ ہی درآمدات کابرآمدات سے دوگنا ہونا،ادائیگیوں میں عدم توازن ،مالی وتجارتی خسارے میں اضافہ ،بیرونی قرضوں کاجی ڈی پی کے 6.1فیصدے سےزیادہ ہونا،جاری کھاتوں کاخسارہ14ارب ڈالر سے بڑھ جانا،سرکاری کمپنیوں کاخسارے میں چلنا۔چالیس سال سے ملک میں کوئی ڈیم نہ بننا،بجلی کی ٹرانسمیشن صلاحیت نہ بڑھنا وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن پر قابو پانا اشد ضروری ہے۔اس کے باوجود آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کی کوئی ضرورت نہیں۔معاشی صورتحال کی نشاندہی سٹاک مارکیٹ سے بھی ہوتی ہے جو ان دنوں شدید مندی کاشکار ہے۔اس کی وجوہات میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے پیداواری لاگت میں اضافہ،زرمبادلہ کے ذخائر اورروپے کی قدر میں کمی، پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل ہونے کاخدشہ اورمجموعی معاشی صورتحال شامل ہیں۔پیر کو پاکستان سٹاک ایکسچینج کاانڈیکس702پوائنٹس کی کمی سے43229پر آگیا۔پونے تین سو کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں گرگئیں۔معیشت کی یہ صورتحال نگران حکومت کے علاوہ انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کے لئے سنجیدہ غورو فکر کی متقاضی ہے۔اسے بہتر بنانے کےلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو حالات خراب ہوسکتے ہیں۔پالیسی سازوں کو اس حوالے سے ہنگامی تدابیر تجویز کرنی چاہئیں۔

تازہ ترین