آج چاند نظر آگیا تو کل ان شاء اللہ عید الفطر ہوگی۔
رمضان کریم کی مقدس راتیں۔ مبارک ایّام کی ریاضتوں اور عبادتوں کے بعد خوشیوں اور مسرتوں کا دن۔ آج کسی سیاسی مایوسی کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ اپنی اور آپ کی خوشیاں متاثر کیوں کریں۔ پتہ نہیں ایک ہی عید ہوتی ہے یا دو۔ اللہ نے فضل کیا۔اس بار رمضان عالم اسلام میں زیادہ تر ایک ہی دن شروع ہوا تھا۔ مجھے ایوب خان کا دَور یاد آرہا ہے۔ جب دو دو عیدیں ہوتی تھیں۔ یہ گانا تحریف کے ساتھ چلتا تھا۔
مائیں نی مینوں بڑا چا
دو عیداں کر میریاں
اصل میں تو تھا دو گُتّاں کر میریاں۔ میری دو چوٹیاں گوندھ دے۔ ان ہی دنوں سرکاری عید پر علمائے کرام کا اختلاف ہوگیا۔ شاید آٹھ علمائے کرام تھے۔ جن کے خلاف سرکاری بیان جاری کیا گیا اور یہ ہدایت کی گئی کہ کسی کے ساتھ مولانا نہ لکھا جائے۔ سارے اخبارات نے اس پر عملدرآمد کیا۔ مسٹر احتشام الحق تھانوی۔ مسٹر ابولاعلیٰ مودودی۔ فوجی حکومت مولانا کو مسٹر کہہ کر بہت خوش تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں ہمیں سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک عید حیدر آباد جیل میں گزارنا پڑی۔ یہ یاد اس لئے رہی کہ نماز عید کی امامت کے لئے جو صاحب لائے گئے تھے وہ آزاد شہری تھے۔ ہم سب قیدی۔ مگر وہ بے چارے نابینا تھے۔ یہ اہتمام اس لئے کہ نظر بندوں سے ان کا نظر رابطہ نہ ہوجائے۔ تین چار پولیس والے انہیں اس طرح لائے جیسے وہ قیدی ہوں۔ ہم آزاد ۔ ان سے کوئی بات نہیں کرنے دی گئی۔ نماز پڑھائی گئی۔ پھر خطبہ۔ عید مبارک کہنے دی گئی نہ گلے ملنے دیا گیا۔ جس خاموشی سے لائے گئے اسی خاموشی سے انہیں واپس لے گئے۔
رمضان کے دن اور راتیں بہت ہی برکت اور رحمت والی تھیں۔ بہت حوصلہ افزا۔ سخت گرمی اور خطرناک لو کے باوجود مسجدیں ہمارے مستقبل سے بھری رہیں۔ 7سال سے 25سال تک کے پاکستانی بڑی تعداد میں اللہ کے گھروں کا رُخ کرتے رہے۔ بہت ہی مسرت ہوتی تھی۔ پہلے روزے ہی نمازیوں کے پرے کے پرے مسجد میں داخل ہورہے تھے ۔ سب رکوع و سجود میں مصروف۔ اللہ کے ذکر میں محو۔ بچے جس اشتیاق سے اپنے ابو کی انگلی پکڑے آتے تھے مجھے اپنا بچپن اور والد یاد آجاتے تھے۔ میرا پوتا بھی میرا ساتھ دے رہا تھا۔ نواسہ بھی۔ کئی مقامات پر خواتین کے لئے بھی نماز کے انتظامات کئے گئے تھے۔
مسلک جُدا جُدا تھے۔ مگر نمازیں ساتھ ادا کی جارہی تھیں۔ درس ہورہے تھے۔ کہیں فجر کے بعد۔ کہیں ظہر کے اختتام پر۔ رمضان آتا ہے بہت انتظار کرواکے۔ لیکن گزرتا بہت تیزی سے ہے۔
برکتوں۔ مغفرتوں اور نجات کے عشرے۔ عبادتوں کے ساتھ ساتھ عطیات کی بھی فکر ہوتی ہے۔ پاکستان ہم نفسوں کا خیال رکھنے اور خیرات بانٹنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ اربوں روپے زکوٰۃ کے مستحقین کو دئیے جاتے ہیں۔ مخیر خواتین و حضرات بہت خلوص سے ناداروں اور ضرورتمندوں میں راشن تقسیم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
ہم نے تو کراچی میں دیکھا ہے ۔ دوسرے شہروں میں بھی یقیناً گھروں سے دور رہنے والوں ۔ بے گھروں۔ کارخانوں سے واپس گھر جاتے ہوئے افطاری کا وقت ہوجانے والوں کے لئے سڑک کنارے ۔ پارکوں میں افطاری کے دستر خوان بچھائے جاتے ہیں۔ ایک اور نیا رُجحان دیکھا۔ محلّے کے نوجوان منرل واٹر کی چھوٹی بوتلوں پر ٹیپ سے دو دو کھجوریں چپکائے گاڑیوں۔ موٹر سائیکل سواروں۔ رکشے والوں کے ہاتھوں میں تھمارہے ہیں۔ منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے اگر اذان مغرب ہوگئی تو وہ کھجور سے افطار تو کرلیں گے۔
ثواب کمانے والے ثواب کماتے رہے۔ مال کمانے والے مال۔ دکانداروں اور تاجروں کے لئے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے کہ پہلے پانچ یا چھ روزے کی تراویح میں قرآن کریم ختم کرلیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے یہ کلمہ گو بھائی دکانوں کے گلے یا تجوریاں سنبھال لیتے ہیں۔ پانچ روز سجدہ گزاری۔ اس کے بعد دکانوں پر وقت گزاری رمضان میں اربوں روپے کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والے اپنے ایسے تہواروں پر اپنے ہم مذہبوں کے لئے اشیائے ضروریہ رعائتی نرخوں پر بیچتے ہیں۔ مگر مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کی جیبیں خالی کرواتے ہیں۔
رمضان کے مبارک مہینے میں آپس میںلڑتے فریق جنگ بندی کرلیتے ہیں۔ جیسے افغانستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان لڑائی روکنے کی خبریں آتی ہیں۔ میرے خیال میں تو رمضان میں سیاست بندی بھی ہونی چاہئے۔ تاکہ سیاسی کارکن اور سیاستدان خشوع خضوع سے عبادتوں پر توجہ دے سکیں۔ فعال اور برق رفتار میڈیا بھی رمضان میں سیاسی ہلچل مچائے رکھتا ہے۔ سیاستدان پریس کانفرنسیں۔ میڈیا سے گفتگو جاری رکھتے ہیں۔ سیاسی افطار پارٹیوں میں روزہ اذان سے پہلے ہی کھل جاتا ہے۔ ہم نے آہستہ آہستہ ۔ درسگاہوں میں تو رمضان میں چھٹیاں کرنا شروع کردی ہیں ۔ سیاست سے چھٹی پر بھی غور کرنا چاہئے، ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ ان دنوں جو کچھ دیکھنے میں آرہا ہے اصلی سیاست کی تو چھٹی ہوچکی ہے۔ سیاست کوئی اور کررہا ہے ۔ سیاستدان سیاست کے علاوہ سب کچھ کررہے ہیں رمضان میں عدالتوں میں بھی پیشیاں جاری رہیں۔ عدالتیں افطار کے بعد بھی کھلتی رہیں۔ انصاف کو اچانک اتنی ترجیح مل گئی ہے۔ مقدمات کی سماعت عبادت کے طور پر کی جارہی ہے۔
عید کے بعد اس سے بھی زیادہ صبر آزما مراحل شروع ہونے والے ہیں۔ مایوسی پھیلانے والے افراد تو بہت ہی خوف و ہراس پھیلارہے ہیں۔ معلوم نہیں کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ بہت خون خرابہ ہوگا۔ الیکشن 2018 سے بہت زیادہ تنازعات پیدا ہوں گے۔تصادم کے خطرات ہیں۔
پہلے انتخابات میں صرف اخبارات ہوتے تھے اور جلسے جلوس۔ اب تو بیسیوں چینل ہیں جو ہر لمحے خبریں توڑ رہے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا آگیا ہے۔ ویسے تو عام میڈیا میں بھی ایڈیٹر کا کردار کم ہوتا جارہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا تو مادر پدر آزاد ہے۔ کوئی قواعد نہ ضوابط۔ گلیوں کے نکڑوں پر ۔تھڑوں پر جو گپ شپ لگتی تھی اور جو زبان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئےاستعمال کی جاتی تھی وہ اب لکھ کر کی جارہی ہے۔
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
سوشل میڈیا جو انسانوں کو قریب لانے اور محبتیں پیدا کرنے کے لئے ایجاد ہوا تھا۔ وہ نفرتیں پھیلانے پگڑیاں اچھالنے۔ کپڑے اتارنے کے لئے استعمال ہورہا ہے۔
یہ سارے وسائل اور ذرائع انتخابی عمل کو دھماکہ خیز بنارہے ہیں۔ نگراں وفاقی اور صوبائی حکومتیں امن و امان قائم کرنے میں اللہ کرے کامیاب رہیں۔ ان کے انتخاب پر بھی سوشل میڈیا میں بڑی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ عین وقت پر فہرستیں بدل دی گئیں۔ غالبؔ ہی کام آتا ہے۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
یا پھر کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔ نگرانوں کے نگراں دیکھ رہے ہیں۔
ہماری طرف سے پیشگی عید مبارک۔ آپ عید کے دن جس سے گلے ملیں اسے بھی عید مبارک۔
آپ کے حلقے کے امیدوار اس عید پر آپ کے گھر ضرور آئیں گے۔ آپ ان سے یہ ضرور پوچھئے گا کہ آپ کی پارٹی کے پاس کوئی وزیر خزانہ۔ وزیر تجارت اور وزیر پانی ایسا ہے جو ان اہم اور حساس قلمدانوں سے متعلق اسرار و رموز جانتا ہو۔ ہمارے ہمسائے ہمارے ارد گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ میری تو دُعا ہے کہ رمضان میں خوف خدا اور عشق رسولؐ کا مظاہرہ کرنے والی قوم ووٹ ڈالتے وقت بھی ان دونوں عوامل کے تناظر میں فیصلہ کرے کیونکہ یہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں پوتو ںپوتیوں نواسوں نواسیوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)