• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں بظاہر جتنے چاہے منصفانہ انتخابات کروا لیے جائیں ان میں شکست کھانے والے اپنی شکست کو کھلے بندوں تسلیم کرنے کے بجائے دھاندلی کے الزامات عائد کرنا، اپنی جھوٹی ساکھ کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہاں دھاندلیاں ہوتی بھی رہی ہیں اور ایک نوع کی دھاندلی جسے پری پول رگنگ کہا جاتا ہے آج بھی ہو رہی ہے لیکن جب تک کسی دھاندلی کے ثبوت پیش نہیں کیے جاتے بحیثیت مجموعی ایسے الزامات سے احتراز کیا جانا چاہیے بصورتِ دیگر یہاں جمہوریت کبھی استحکام حاصل نہیں کر سکے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط بناتے ہوئے یہ اہتمام کیا جائے کہ انتخابات منصفانہ و شفاف ہونے ہی نہیں چاہئیں ہوتے ہوئے نظر بھی آنے چاہئیں۔
ہمارے ہاں ایک مفروضہ بنا لیا گیا ہے کہ ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ جب کسی جمہوری حکومت کے خلاف ہو جاتی ہے اور اُسے گرانا چاہتی ہے تو تمام تر عوامی حمایت کے باوجود اُس حکومت کو دوبارہ جیتنے نہیں دیتی۔ ہمارے عوام کی نفسیات بھی یہ ہے کہ وہ بالعموم ہارنے والوں کے ساتھ نہیں جاتے جن لوگوں کے بارے میں یہ یقین ہو جائے کہ اب یہ نہیں آئیں گے تو سمجھ دار عوام انہیں ووٹ دینا اپنے ووٹ کا ضیاع خیال کرتے ہیں ۔ نفسیاتی طور پر یہ بڑی عجیب صورت حال ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے جن لوگوں کے متعلق یہ پروپیگنڈہ پھیل جاتا ہے کہ اب کی بار انہوں نے جیتنا ہے تو فصلی بٹیرے کہیں یا موقع پرست وہ پرندے ان کمزور ٹہنیوں سے اڑنا اور جیت کی شہرت رکھنے والی پارٹی میں شامل ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں اور مابعد منعقد ہونے والے انتخابات میں یہ عمومی وتیرہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے مگر یہ پوری سچائی نہیں ہے ۔
یہ قصہ ہمارے گاؤں کا ہے اور پوری سچائی یہ ہے کہ بعض اوقات ہمارے گاؤں کی کوئی عوامی قیادت اتنی پاپولیرٹی پکڑ جاتی ہے کہ خود نمبر دارنی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔ تمام تر یکطرفہ منفی پروپیگنڈے کے باوجود رائے عامہ مخالفت میں بالمقابل کھڑی ہو جاتی ہے اس صورت حال میں کیفیت یہ ہوتی ہے کہ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ ’’جعلی پروپیگنڈے‘‘ نے کام کیا۔ عوامی شعور کو اس سطح تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ہی تو ہم نے اپنا سلیبس اس نوعیت کا بنا رکھا ہے کہ ہماری نسلوں میں تخلیقی سوچ نہ پیدا ہو۔ بہرحال تمام تر اہتمام کے باوجود بعض اوقات کسی شخصیت کی حق گوئی و بیباکی اتنی بلند ہو جاتی ہے جس سے عوام میں یہ لہر اٹھتی ہے کہ ہم اپنے پاپولر لیڈر کے ساتھ ہیں کیونکہ اس کی سابقہ کارکردگی آزمودہ ہے لہٰذا اس کی آواز ہماری آواز ہے۔
متحدہ پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کو بنگال جیسی بھرپور آبادی والے خطے میں جو پاپولیرٹی ملی تھی وہ یہاں ناپسند کی گئی۔ اسی طرح ملک دولخت ہونے کے بعد ایک وقت وہ آیا کہ ایک پسندیدہ شخص ناپسندیدہ ہو گیا جس کی وجہ سے منصفانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد مشکل ہو گیا۔ 90دن کا وعدہ طویل ہو گیا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر ہر معرکے میں پروپیگنڈے کی لہر کامیابی حاصل کرتی ہے تو پھر 88ء میں بی بی کیسے جیتی؟ یہ بھرپور عوامی اعتماد کی طاقت تھی جس کا مظاہرہ ہوا لیکن افسوس عوامی شعور کو جبراً دبائے رکھنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تاوقتیکہ دونوں قائدین چارٹر آف ڈیمو کریسی تک جا پہنچے اگرچہ عمل اس پر بھی نہیں کیا گیا۔
پی پی میں موجود صاحب فکر لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس طرح رو کر اور گر کر انہوں نے 2008ء سے 2013ء تک حکومت کی اس کا پاکستانی عوام، بی بی کی سوچ یا خود پی پی کو کیا فائد ہ پہنچا؟ اس نوع کا لولی پوپ اگر وہ اب بھی اپنے منہ میں لیے ہوئے ہیں تو اس میں پارٹی یا عوام کے افکار کا کتنا مفاد ہے؟ یہ درویش یہاں پوری ذ مہ داری سے لکھے دے رہا ہے کہ اگر اگلا وزیراعظم نواز شریف نہیں ہے تو بلاول یا سابق کھلاڑی بھی نہیں ہے۔ نواز شریف صحیح کہتا ہے کہ اس کی لڑائی زرداری سے ہے نہ کھلاڑی سے۔
جبکہ عوامی نمائندے کے لیے اصل چیلنج سادہ اکثریت یا جوڑ توڑ کی کامیابی نہیں دو تہائی اکثریت کا حصول ہے۔ وہ اگر اپنے ٹارگٹ کی اصل منزل حاصل نہ بھی کر سکے تب بھی اگلی حکومت اُن کی مرضی کے بغیر چل نہیں سکے گی۔ یوں عدم استحکام ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔آپ عوامی نمائندگی کے دعویدار پر جتنا گند پھینک سکتے ہیں پھینک دیں، جیل یاترا پر بھی بھیج دیں مگر وہ عوام کے اندر جتنی گہری جڑیں بنا چکا ہے ان کا ادراک نہ رکھنے والوں کی اپنی بھول ہے۔ کچھ نام نہاد اینکرز چینلز پر بیٹھ کر اپنے آپ کو جس طرح ارسطو سمجھ کر جھوٹ پھیلا رہے ہوتے ہیں کھلاڑی کے متعلق یہی پروپیگنڈہ انہوں نے 2013میں بھی کر کے دیکھ لیا اب کے بھی نتائج مختلف نہ ہوں گے لہٰذا خواہشات کو حقائق کا نام دینے سے احترار کیا جانا چاہیے۔ نگران سیٹ اپ کا تصور جس مقصد کے لیے پیش کیا گیا تھا وہ حاصل ہو رہا ہے نہ جمہوریت کی نیک نامی۔ بلکہ وہ پارٹی جسے پریشر گروپ کہا جانا چاہیے مس یوز کرتے ہوئے اسے مذاق بنا رہی ہے۔ عوامی شعور کی تمام تر قدر و منزلت بجا لیکن اس کی پختگی کو ہنوز مغربی پیمانوں پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ لیکن ہمارا قومی سوشل میڈیا جس طرح پروپیگنڈے کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے اُس سے یہ امید تو رکھی جا سکتی ہے کہ بھرم کھل جائے۔

تازہ ترین