نیا قانونی ضابطہ درکار، ڈھانچہ نہیں
دو سو سال پرانا عہد غلامی کا ساختۂ افرنگ قوانین کا ڈھانچہ اب کسی پرانی قبر سے برآمد ہونے والا مردے کا ڈھانچہ ہے، جس میں بہت سی چھپنے کی جگہیں "Hiding Places"فرار کے راستے بھول بھلیاں اور پیچیدگیاں ہیں، اگر پاکستان بننے کے بعد پہلے برسوں ہی میں ایک جامع اور پیچیدگیوں موشگافیوں سے پاک قانونی ضابطہ بنا لیا جاتا تو 70 سال مدعی کو عدالتوں کے چکر کاٹنے میں ضائع نہ ہوتے، وکلاء حضرات اور جج صاحبان کو نتیجے تک پہنچنے میں اتنی دیر نہ لگتی کہ دادا کا مقدمہ پڑپوتا لڑ رہا ہوتا، اعلیٰ عدالتوں نے کئی مرتبہ نئے قوانین بنانے کی ضرورت پر زور دیا مگر ہمارے جمہوری ایوانوں میں ایسا بڑا قدم نہیں اٹھایا کہ دیوانی فوجداری قوانین کا ایسا اسٹرکچر مرتب کرتے جو ہمارے موجودہ حالات سے ہم آہنگ ہوتا جو جرم کو چھپانے اور ابہام پیدا کرنے کے مواقع فراہم نہ کرتا، سامراج ہمیں جو قوانین بنا کر دے گیا وہ اس نے اپنے ہاں کیوں لاگو نہیں کئے؟ اس لئے کہ وہ آزاد اور ہم غلام تھے، اور غلاموں کے لئے جبر و استحصال کا نظام غلامانہ قوانین ہی بناتا ہے، بہرحال بہت فائدہ، پیدا گیروں نے اٹھا لیا اب یہاں قانون آزاداں رائج ہونے کی اشد ضرورت ہے، مگر اس کے لئے قانون دانوں اور پارلیمانوں کو محنت کرنا ہو گی، یہ کام اس قدر اہم ہے کہ اگر یہ نہ کیا گیا تو ہم اسی طرح آزاد ہو کر بھی غلام ہی رہیں گے، کام محنت طلب ہے مگر مشکل نہیں، ہمارے پاس پارلیمنٹ ہے، ماہرین قانون ہیں، پھر کیوں صدیوں پرانے استعماری قوانین مجرم کو پناہ تو دیتے ہیں اس کو مختصر عرصے میں قانون کے شکنجے میں آنے اور سزا دینے سے عاجز ہیں۔
٭٭٭٭
ٹکٹوں کی تقسیم اور نظریئے کی اوقات
ہمارا بھی کیا نظریہ ہے کہ نظریئے کا بھی استحصال کرتے ہیں، معذرت کے ساتھ یوں تو ہمارے ہر سیاسی لیڈر، سیاسی جماعت نے ایک نظریہ بھی اپنے آنگن میں باندھ رکھا ہے، دکھانے کا رائج نہ کرنے کا، اور اس وقت تو اصلیت بے نقاب ہو جاتی ہے جب ٹکٹوں کی بندر بانٹ شروع ہوتی ہے، پھر نظریہ، پرانے جاں نثار سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور مقصد صرف الیکشن جیتنا اور اصول ہارنا ہی رہ جاتا ہے، ہم کسی ایک نہیں سبھی پارٹیوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہم عوام جو تماشائی بھی ہیں تماشا بھی اور لوگوں کا ’’ہاسا‘‘ بھی، اپنے مخصوص مہربانوں کو اپنی محرومیوں کی قیمت پر ووٹ دیتے رہیں گے، اگر کسی عمارت کا معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی جاتی ہے، ہم سب کا باجماعت کوئی نظریہ، اصول، اخلاقیات نہیں، ضمیر کی آواز کی باتیں بہت کرتے ہیں، ضمیر کی سنتے نہیں، نظریہ اگر ہے تو صرف حصول اقتدار، اور جہاں بھی اقتدار میلہ زوروں پر ہو وہاں طالع آزمائوں کا جھمیلا کیوں نہ ہو، ایک خاص سوچ لے کر کوئی پارٹی جوائن کی جاتی ہے جونہی وہاں اقتدار بیگم کا جوبن ڈھلتا دکھائی دیتا ہے بریف کیس اٹھایا اور کسی اور کے ہو لیئے، اس لئے تو یہاں پارٹیاں بھی کئی ہیں، اور ’’جمہوری نظریئے‘‘ بھی بیشمار، واضح اکثریت جب کسی کو نہیں ملے گی تو ظاہر ہے جوڑ توڑ اور اتوار بازار لگے گا، کیا ہی اچھا ہوتا دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہوتیں، دو نظریئے ہوتے، اور ہر پارٹی ممبر سے عہد لیا جاتا کہ وہ جانے کے لئے آیا ہے یا مطلب نکالنے کے لئے اس کے بعد توکون میں کون؟
٭٭٭٭
امریکا شمالی کوریا سربراہ ملاقات، ایک مثال؟
امریکا شمالی کوریا تاریخی سربراہ ملاقات ہو چکی، کم جونگ ایٹمی ہتھیار ختم کرنے پر آمادہ، امریکا بہت خوش، مگر اس خوشی میں کہیں ہمارے لئے تو کچھ پوشیدہ نہیں؟ یہ دور کی کوڑی ہے یا قریب کی سوچ مگر ہم اتنا تو جانتے ہیں کہ امریکا اور بھارت ہمارے جوہری ہتھیاروں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، اور ہمارے کاندھے پر لگا یہ ایٹمی کرائون اتارنے کی آرزو بھی رکھتے ہیں، یہ شمالی جنوبی کوریا جدا کیسے ہوئے تھے، اور اب قریب کیوں آ رہے ہیں، ٹرمپ نے سنگا پور میں بڑی کامیابی کیسے پالی، یہ سوالات ہمیں کچھ ایسے جوابات تک لے جاتے ہیں جن پر تشویش اور احتیاط و ہوشیاری اختیار کرنا لازم ہے، آج کی دنیا میں ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، ہمیں کئی امکانات ذہن میں رکھ کر اٹینشن کی پوزیشن میں رہنا ہو گا، اسٹینڈ ایزی حالت ہمیں ’’وارا‘‘ نہیں کھاتی، بہرحال مشتری ہوشیار باش کے تحت ہمیں چوکنا رہنا ہو گا، ہمارے انتخابات خدا کرے ہمیں ایسی قیادت دے جائیں جو قومی غیرت مند موقف پر ڈٹ جانے کی جرأت و صلاحیت رکھتی ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)