• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینڈی طوفان کے حوالے سے مشہور اخبار ”نیو یارک ٹائمز “ میں شائع ہونے والا ایک کالم میری نظر سے گزرا۔ اس کا موضوع یہ تھا کہ کیا سینڈی طوفان سے ہونے والی تباہ کاریوں کا موسمیاتی تبدیلیوں سے کوئی تعلق ہے ؟ اس کالم میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا مطالعہ کرنے والے مشہور سائنسدانوں کے حوالہ جات شامل کئے گئے تھے اور سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ انسان نے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے ، چنانچہ اسے ہونے والی تبدیلیوں کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ تاہم موجودہ طوفان ، سینڈی، کی وجوہات، کہ کس طرح ہواؤں نے رخ تبدیل کر لیا اور سمندر کیوں بپھر گیا، تلاش کرنے کے لئے کئی سالوں پر محیط تحقیقی کاوشیں درکار ہوں گی۔ ایم آئی ٹی (میسکاسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی )سے تعلق رکھنے والے ایک سائنسدان کا کہنا تھا…”ہم نے ابھی اس پر ہوم ورک نہیں کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر بہت کچھ لکھا جائے گا اور اس پر تحقیقات کے لئے کئی سال لگیں گے۔“
لگتا ہے کہ امریکی بہت ہی ”فارغ “ قوم ہیں کیونکہ جو معاملہ اظہر من الشمس ہے ، اُس پر تحقیق کرنے کے لئے اُن کے سائنسدان کئی سال ضائع کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ اگر وہ بھلے انسان کچھ پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کر لیں تو چشم زدن میں اُن پر سب حقیقت عیاں ہو جائے گی اور برس ہا برس کی مشقت سے بچ جائیں گے ۔ ہمارے ہاں ایسے نابغہ ٴ عصر دیدہ ور پائے جاتے ہیں کہ ان کا ایک مضمون ہی تمام شکوک و شبہات کو رفع دفع کر دے گا۔
ان بقراطوں میں ایک سربلند نام میرے ایک صحافی دوست کا ہے جو اکثر میرے ساتھ ٹی وی کے ٹاک شوز میں مدعو ہوتے ہیں اور ”حلقہٴ یاراں“میں صاحب ِ نظر مانے جاتے ہیں۔ ان صاحب نے بیک جنبش ِ قلم سینڈی طوفان کو امریکیوں کے لئے خدا کا عذاب قراردیا ہے کیونکہ کیلی فورنیا کے ایک باشندے نے توہین آمیز فلم بنانے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ ان کے کالم کے مطابق…” اپنے پیارے نبی کی حرمت پر حملے پر رب العالمین کیسے خاموش رہ سکتا تھا؟اُس ناپاک جسارت کے چند ہفتوں کے بعد ہی طاقتور امریکہ کو ایسے سمندری طوفان نے آلیا کہ کل تک فرعونیت کے نشے میں دھت امریکہ آج بے بسی اور لاچاری کی تصویر پیش کر رہا ہے۔“فاضل کالم نگار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنے امریکہ نواز حکمرانوں یا ”او آئی سی“ سے کسی رد ِ عمل کی توقع نہ تھی، چنانچہ وہ اپنی بے بسی پر دل گرفتہ تھے۔ تاہم رب العالمین اس گستاخی کو کیسے برداشت کرتا۔ اگرچہ کالم نگار نے واضح الفاظ میں تو نہیں کہا مگر مفہوم یہی تھاکہ جو مصیبت بھی امریکہ پر ٹوٹی، وہ اس کے لائق تھا۔ تاہم کالم میں اس بات پر بھی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ سینڈی سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کا اُس منحوس فلم ساز سے کیا تعلق تھا ؟
جب مکافات کا یہ عالم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اب اطمینان سے بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ خالق ِ کائنات نے ایک گھٹیا سی فلم کا نوٹس لیتے ہوئے ان ”گستاخوں “ پر باد و باراں کا طوفان مسلط کر دیا ۔ یہ کالم پاکستان کے ایک کثیر تعداد میں شائع ہونے والے اخبار میں چھپا ہے، اسے پاکستانیوں کی ایک معقول تعداد نے پڑھا ہو گا۔ ان کا رد ِ عمل بھی یہی ہوگا… بالکل ٹھیک، ان گستاخوں کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہیے تھا۔اسی روز ایک اور کالم میں ایک نامور صحافی نے 1929 میں غازی علم دین ، جس نے ایک ہندو پبلشر رام گوپال کو نبی ِ اکرم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز کتاب شائع کرنے پر جہنم رسید کیا تھا، کی پھانسی پر مسلمانان ِ ہند کے رد ِ عمل کا ذکر کیا ۔ کالم نویس کے مطابق اس واقعے نے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا اور اسی نے علامہ اقبال کے ذہن میں مسلمانان ِ ہند کے لئے ایک الگ ریاست کے لئے مطالبہ کرنے کی سوچ پیدا کی۔ تحریک ِ پاکستان کے اور بھی بہت سے عجیب و غریب محرکات بیان کئے جاتے ہیں مگر اس توجیہہ نے تو تاریخ کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ (بہت دیر سے ہماری تاریخ ایسے ہی پیچ و خم میں غلطاں ہے)۔ تاہم یہ بات حیران کن نہیں ہے۔ تاریخی حقائق سے ہمیں کوئی اتنا سروکار نہیں ہے۔ ہماری ”بصیرت “ کی من پسند دنیا طلسم ہو شربا کے ”حقائق “ سے مزین ہے، اور ہم اس سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جو تاریخ اسکول کے نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہے، اُسے ہومر کی رزمیہ نظموں کے مقابلے پر رکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم التباسات کی ایسی دل خوش کن دنیا میں رہتے ہیں کہ تلخ حقائق کی اس دنیا میں ہمارا دم گھٹنے لگتا ہے۔ تصوراتی شیش محل میں رہنے والوں کو اس گرد آلود دنیا کے مسائل اور ان کے حل سے کیا سروکار!
گزرتے ہوئے ماہ و سال نے میرے افکار میں تلخی بھر دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایسے ذہنی مرض کا شکار ہو رہے ہیں، جس کا کوئی علاج ممکن نہ ہو گا… ممکن ہے کہ یہ مہلک منز ل آچکی ہو۔ جس طرح مٹی کی تاثیر وہاں رہنے والے باشندوں کی روح میں سرائیت کر جاتی ہے، اسی طرح بعض متروک عقائد بھی عقیدت مندوں کے ذہن میں مستقل ٹھکانہ رکھتے ہیں۔ آج پاکستانیوں کی ذہنی پسماندگی کی کیا وجوہات ہیں ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کی کمی، معاشی بحران ، طالبان اور انتہا پسندی ہمارے مسائل ہیں مگر ہماری اصل بیماری کی علامات اُس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ہم ایسے واقعات پر اس قبیل کا ردِ عمل دیتے ہیں۔ جو بھی معاملہ ہو، فتوے جاری کرنا ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ وہ افرادجن پر قوم کی رہنمائی کا فریضہ عائد ہوتا ہے، وہ خود جذباتیت کا شکار ہو کر عوام کی آواز میں آواز ملا کر اپنا ”کردار “ ظاہر کر دیتے ہیں۔
کیا ہم میں سے کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ کوئی طوفان ، چاہے وہ کتنا ہی تباہ کن کیوں نہ ہو، امریکہ کا شیرازہ بکھیردے گا ؟ سینڈی تباہ کن تھا مگر اس میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے ؟ چند ایک درجن۔ اگر ایسی آفت ہم پر گزری ہوتی تو کیا ہم امریکیوں کی طرح اس سے نمٹ سکتے تھے ؟یہ قدرتی آفات ہم پر بھی آتی رہتی ہیں اور سیلاب تو ہمارے ہاں ایک معمول کی بات ہے مگر اس کے لئے ہم نے کبھی تیاری نہیں کی ہے۔
اگر ان قدرتی آفات کو خدا کی طرف سے عذاب قرار دیا جائے تو کیا 2005 کا تباہ کن زلزلہ بھی ہمارے گناہوں کی سزا تھا؟اگر یہ واقعی ہماری بدعنوانی اور بداعمالیوں کی پاداش تھی تو یہ برائیاں تو اس کے بعد بھی ہمارے در ودیوار کو سیاہ کیے ہوئے ہیں۔ پھر یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ خدا کی طرف سے ملنے والی سزا کا نشانہ غریب لوگ کیوں بنتے ہیں ؟گناہ گار تو پھل پھول رہے ہیں اور غریب کچلے جارہے ہیں، یہ کس قسم کا آسمانی حتساب ہے ؟اب معاملہ یہ ہے کہ مذہب انسانی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے، وہ کسی نہ کسی مذہب پر یقین رکھتا ہے۔ مذہبی عقائد نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ مذہب کا سب سے اہم اثر یہ ہونا چاہیے کہ وہ انسانوں میں رواداری پیدا کرے اور اُسے دوسروں کے عقائد کا احترام کرنا سکھائے۔ تاہم ہم نے ایسا کچھ نہیں سیکھا ہے۔ آج کی دنیا میں زیادہ تر اسلامی ممالک کی حالت بہت ہی افسوس ناک ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کو نہایت آسانی سے غیر ملکی طاقتوں نے غلام بنا لیا… نوآبادیاتی نظام میں بہت کم اسلامی ممالک اپنی آزادی برقرار رکھ سکے تھے۔ پھر اُنہوں نے آزادی حاصل بھی مگر ذہنی طور پر آزاد نہ ہو سکے۔ آج بھی ہم توہمات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہر آن حقیقت سے فرار چاہتے ہیں۔
پوری اسلامی دنیا میں ہونے والا ایسا کوئی کام نہیں ہے جس پر ہم فخر کر سکیں مگر ہمارا غرور… استغفرالله! اگر کسی اور جہاں سے کوئی مسافر آئے تو ہم اُسے باور کر ا دیں گے …کم از کم الفاظ کی حد تک… کہ اس دنیا کا نظام ہماری مرضی کے تابع ہے۔موجودہ اسلامی دنیا میں کمال اتاترک کے سوا کوئی شخصیت نظر نہیںآ تی ہے جس نے ماضی کی زنجیروں سے آزادی پاتے ہوئے حال کی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی ہو۔
آپ کو یہاں محبت اور دکھ میں ڈوبے ہوئے شاعر مل جائیں گے، ناتمام خواہشات کا نوحہ بھی مل جائے گا․․․ فیض صاحب کی شاعری ایک طویل دکھ کا اظہار ہے، لیکن سائنسدان، موجد، صاحب ِ نگاہ سیاست دان، انقلابی لیڈر، عظیم شاعر اور فن کار ہماری دنیا میں ناپید ہیں۔ عقائد کی دنیا میں ہم نیوٹن بھی ہیں اور ورجل بھی مگر تصورات اور تخیلات کی دنیا یہاں بانجھ پن کا شکار ہے… ایک لق ودق صحراہے جہاں کبھی کوئی کیکٹس بھی نہیں کھل پایا۔
اس افسوس ناک ذہنی و فکری انحطاط کے خاتمے کیلئے نئی سوچ اور انقلابی فکر کی ضرورت ہے۔ تاہم ہمارے ہاں اگر کوئی تبدیلی یا انقلاب آرہا ہے تو وہ طالبان کے بڑھتے ہوئے قدموں کی دھمک سے عبارت ہے… دوسری طرف کان کے پردے پھاڑ دینے والے لاؤڈا سپیکر ہیں جو سماعت ہی نہیں، بصیرت کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ اگر یہاں مصطفی کمال بھی آ جائیں تو اچھے طالبان اور برے طالبان کی بحث میں عمر تمام کر بیٹھیں گے۔
حرف ِ آخر!لارڈ شیوا کے آنسووٴں، جو اُس نے سیتا کی موت پر بہائے، سے وجود میں آنے والے تالاب کتاس راج کی دوبارہ صفائی کرا دی گئی ہے اور اس میں پانی پھر بھرنا شروع ہو گیا ہے۔ کیا پنجاب کا محکمہ ٴ آثار قدیمہ اور چیف سیکریڑی اس بات پرتوجہ دیں گے کہ یہاں موجود دیواروں پر سفیدی نہ کرائی جائے۔ پہلے ہی ہم بہت سی پرانی عمارات کو رنگ و روغن کے انبار تلے دبا چکے ہیں۔
تازہ ترین