• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں رائے دہی کے نئے رجحانات

25جولائی 2018ء کا الیکشن بالخصوص پنجاب،خیبرپختوانخوا اور کراچی میں رحجانات میں تبدیلی کے حوالے سے پچھلے انتخابات سےکس قدر مختلف ہو گا۔ پاکستان میں دیہی اور شہری دونوں علاقوں کےووٹرزاپنےلیڈرزکےبرعکس وفاداریاں تبدیل کرنے میں کچھ وقت لگاتےہیں ۔ جمہوری انتقال اقتدارکےگزشتہ 10سال میں فیملیز، نوجوانوں(لڑکوں ، لڑکیوں) اور خواتین کی شمولیت سیاست میں نئے رحجانات لیکرآئی ہےجو نہ صرف عوامی جلسوں ، ریلیوں میں شریک ہوتے ہیں بلکہ حق رائے دہی بھی استعمال کرتے ہیں ۔یہ رحجان خاص طور پر لاہوراور کراچی جیسے اربن سنٹرز میں سامنےآئےہیں ۔انکی سرگرم شرکت کے باعث تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی بدلی اور اس نئے طبقے کیطرف زیادہ توجہ دینا شروع کی۔ اس کا کریڈٹ یقیناً پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو جاتا ہے جنہوں نے روایتی ووٹ بینک کےتاثرکوختم کیا۔1970ء میں اگرپیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کومتحرک کیااورشایدوہ واحد پاکستانی لیڈر ہیں جو گراس روٹ لیول تک گئے۔ 80ء کی دہائی کے وسط میں نواز شریف سے کاروباری اورشہری متوسط طبقے کو شامل کیاتاہم 2011ء کے بعد کی سیاست عمران خان کی ہےجنہوں نے 2011ء میں مینار پاکستان پر بہت بڑا عوامی جلسہ کیا جس میں فیملیز اور نوجوانوں کی شرکت نے سیاسی رحجانات میں واضح تبدیلی کوظاہرکیا تاہم تینوں جماعتوں میں سے کوئی بھی ’’پارٹی کلچر‘‘ کو مستحکم نہ کر سکی،انکے سیاسی نعروں اورسیاسی گیتوں سےبھی یہی چیزعیاں ہوتی ہےجو زیادہ تر پارٹی کےبجائےافراد یا لیڈرکے گرد گھومتےہیں ۔25جولائی کےالیکشن بالخصوص پنجاب میں واضح طور پر ’عمران خان کی سونامی اور نواز شریف کی مقبولیت ‘کے درمیان ہونگے۔ اس کے نتائج سےبدلتے رحجانات کا تعین ہوگا۔ سب سےدلچسپ بات الیکٹ ایبلزکی قسمت کا فیصلہ ہو گا۔الیکٹ ایبلز کےحلقوں کے ووٹرز نےاگر امیدو ار کےبجائےپارٹی کوووٹ دینےکافیصلہ کیاتواس سے بعض الیکٹ ایبلز کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ووٹرز نےمرتبہ انتخابات میں الیکٹ ایبلز کو شکست دی ایک بارجب 1970ءمیں انہوں نے عوامی لیگ ، پیپلز پارٹی یا نیپ جیسی جماعتوں کو ووٹ دینےاورپھر 1988ء میں جب بعض مضبوط جاگیرداربینظیرشہید کی واپسی کے بعد پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے باعث روایتی سیٹیں ہار گئے،مضبوط جاگیردار غلام مصطفی جتوئی ، پگاڑا مرحوم جیسےپیراپنی سیٹیں بھی ہار گئے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اپنی مرضی کا انتخابی نظام مسلط کیا اور پاکستان میں سیاست اور پارٹی کلچر کو بری طرح نقصان پہنچایا جبکہ جاگیرداروں ، برادری نظام، سردار ، چوہدری کلچر کو مضبوط کیا۔اگر ایوب نےسیاسی جماعتوں کو پھلنے پھولنے سے روکنے کیلئے ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے ذریعےاپنی مرضی کانظام مسلط کیاتوجنرل ضیاء نے اپنے11 سالہ دوراقتدارمیں اس مقصدکےتحت غیر جماعتی بنیادوں پرانتخابات متعارف کرائے یعنی سیاسی جماعتوں کی ترویج کی اجازت نہیں دی۔آج کے60فیصد کے قریب سیا ستد ا ن غیرجماعتی نظام کی پیداوارہیں ۔اگرنوازشریف پریہ الزام لگتاہےکہ وہ اسٹیبلشمنٹ اورغیرجماعتی سیاست کی پیداواررہےتوپیپلزپارٹی اوراب تحریک انصاف نے بھی پارٹی کلچر کو مضبوط نہیں بنایا۔سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت کو فروغ نہ دینے کی ذمہ دار ہیں اور اکثر وہ اپنی حریف جماعت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے جمہوریت مخالف قوتوں کا آلہ کار بھی بنیں۔ ووٹرز بہت زیادہ باخبر ہیں اوریقیناًووٹروں کے اذہان پر میڈیا کےانکی رہنمائی یاگمراہ کرنےکےاثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔پچھلے انتخابات بدلتے رحجانات کامظہر تھےجبکہ جولائی 2018ء میں بھی دلچسپ نتائج کی توقع ہے۔ خیبر پختو انخو جو کہ اب تک سب سے زیادہ سیاسی آگاہی رکھنے والا صوبہ ہے جہاں رائے دہی کے رحجانات بدلتے رہتے ہیں اگر یہاں پہلی بار تحریک انصاف کو پھر لانے کا فیصلہ ہوا تو یہ صوبے کی سیاسی تاریخ میں ایک نئےباب کااضافہ ہوگا۔یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہو گا کہ تحریک انصاف ووٹوں اور نشستوں کے حوالے سے کیا کھو دیتی ہے یاکیاپاتی ہے۔پنجاب کا کردار ہماری انتخابی تاریخ میں ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔شریف خاندان کی سیاست میں غیر معمولی و غیر متوقع آمد سے پہلے یہ صوبہ سحر انگیز شخصیت اور ’روٹی کپڑا اور مکان‘ جیسے پرکشش نعروں کیوجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔انکی مقبولیت کی ایک اور وجہ انکا بھارت مخالف موقف تھا۔پیپلز پارٹی نے 1970ء کے الیکشن میں پنجاب اور سندھ سے سویپ کیالیکن یہ آخری موقع تھا جب پیپلز پارٹی نے اس بڑےصوبے سے با آسانی کامیابی حاصل کی ۔پیپلز پارٹی اور پارٹی کلچر کو ہرانےکیلئےبھٹوکیخلاف اقدامات کئےگئےتاکہ پیپلزپارٹی کےحق میں ووٹنگ ٹرینڈکونقصان پہنچایا جاسکے۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی کو عام جمہوری عمل سے شکست دی جا سکتی تھی لیکن 1977ء کے بعد کےاکثر انتخابات میں سارے نظام کو کنٹر و ل کیا گیا۔ضیاء کو اس بات کی قطعی توقع نہیں تھی کہ بےنظیر بھٹو بھٹوجیسی مقبول ہونگی ، جب ہر طرف سے یہ خبریں آئیں کہ دھاندلی کے بغیر پیپلز پارٹی کو نہیں ہرایا جا سکتا تو پولنگ اور نتائج کوتبدیل کیا گیا۔پیپلز پارٹی کی پوزیشن اس وقت تسلی بخش ہے تاہم پیپلز پارٹی کےحق میں ووٹنگ کا رحجان زوال پذیر ہوا ہےاوراس سندھ میں بعض پیپلز پارٹی اور بھٹو کےسخت مخالف عناصر کےحق میں چلا گیاہے۔کراچی کے سیاسی حقائق بھی بدل چکے ہیں اور نتائج کا مشاہدہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کیا کراچی قومی سطح کی جماعتوں کیطرف جائیگا یا کراچی کی سطح کی جماعتوں کے ساتھ ہی رہے گا ۔جب یہ فیصلہ ہوا کہ سویلین حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے دینی چاہئے اور ووٹنگ ٹرینڈز پر اثر انداز نہیں ہونا چاہئے تو پیپلز پارٹی نےاپنارنگ روپ کھودیا اور یہ 2008ء کے الیکشن کے بعد اپنی پوزیشن پر واپس نہ آ سکی اور سندھ تک محدود ہو گئی۔ اب مسلم لیگ ن نے بھی اقتدار کی مدت پوری کر لی ہےاورشریف برادران اور پارٹی کیلئے اپنی پوزیشن واپس لینا ایک چیلنج ہو گا جبکہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان جیسےمضبوط حریف کاسامنا کر رہے ہیں۔

تازہ ترین