• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرنا اور ممکنہ حد تک اس کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کرنا انسانی جبلت ہے۔ اختیار کسی فرد کے پاس ہو یا گروہ کے پاس ‘ وہ کبھی اسے اپنی مرضی سے نہیں چھوڑتااور اسے جب موقع ملتا ہے دوسرے فردیاگروہ کے دائرے کے اختیار کو بھی سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے ۔اپنی حد سے تجاوز اور دوسرے کے دائرے میں مداخلت کوئی فرد یا گروہ تب کرتا ہے ‘ جب مقابل گروہ کسی وجہ سے نااہلی کا مظاہرہ کرکے اس کے لئے جگہ چھوڑتا ہے۔اپنے اختیار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فرد یا گروہ اہلیت کا مظاہرہ کرے اور مقابل کے لئے جگہ نہ چھوڑے ۔ عالمی سطح پر دیکھ لیجئے ۔ امریکہ چین کو بھی پچھاڑنا چاہتا ہے اور ایران کو بھی لیکن جب چین اہلیت کا اور ایران حوصلہ اور مہارت کا مظاہرہ کررہا ہے تو امریکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔ ترکی میں فوج کی خواہش بدلی ہے اور نہ وہ اختیار چھوڑنا چاہتی تھی ۔ ملک پر اس کی گرفت پاکستانی فوج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط تھی لیکن جب مقابل سیاسی قیادت نے اہلیت کا مظاہرہ کیا تو بادل نخواستہ فوج کو راستہ دینا پڑا۔
پاکستان میں دیکھ لیجئے عدلیہ کمزور تھی تو انتظامیہ اس کے اختیار کو استعمال کرتی ۔ اب جب وہ بحالی کے بعد فعالیت ‘ اہلیت اور انقلابیت کامظاہرہ کررہی ہے تو نہ صرف اپنا اختیار واپس لے لیا بلکہ اب یہ شکایت ہے کہ عدلیہ‘ مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اندر فوج کبھی بھی اپنے دائرے میں رہنے اور اپنے آئینی اختیار پر اکتفا کرنے پر قانع نہیں رہی ۔ وہ سیاست کو بھی ڈکٹیٹ کرتی رہی اور باقی سب اداروں کے محاسبہ کی آڑ میں اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر بناتی رہی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں جس سیاسی رہنما نے بھی اپنے قانونی اختیارات استعمال کرنے اور فوج کو اس کے آئینی دائرے تک محدود کرنے کی کوشش کی تو اس کو جیل‘ قبر یا بیرون ملک بھجوادیا گیا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی قیادت نے بھی نااہلی ‘کرپشن اور سازباز کے ذریعے فوج کی مداخلتوں کا راستہ ہموار کیا۔ یہاں کا کوئی سیاستدان طیب اردگان بن سکا اور نہ مہاتیر محمد ۔ یہی وجہ ہے کہ فوج بھی کبھی اپنے دائرہ اختیار پر قانع نہیں رہ سکی۔یہاں شہر کے لوگ ظالم ہوتے ہیں لیکن خود سیاستدانوں کے کرتوت بھی مرنے کی خواہش کے عکاس ہوتے ہیں ۔ فوج کو سیاستدانوں کے کاندھوں پر سواری کا شوق ہوتا ہے لیکن سیاستدانوں نے بھی ہر وقت اپنے کاندھے جھکائے رکھے ہوتے ہیں ۔ ماضی کے ان قصوں کو یاد نہیں کرتے کہ کس طرح خود جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن ذوالفقار علی بھٹو نے آئی ایس آئی کا سیاسی سیل قائم کردیا ‘ صرف موجودہ دور کا تذکرہ کرلیتے ہیں ۔
یہ تو سب مانتے ہیں کہ گزشتہ عام انتخابات سے جنرل کیانی نے فوج کو دور رکھا۔ مجبوری تھی یا مصلحت لیکن بہر حال ہے یہ حقیقت کہ فوج نے آصف علی زرداری کو بطور صدرپاکستان قبول کیا۔اسی طرح بے نظیر بھٹو کی قربت کی خاطر جنرل پرویز مشرف کو چیلنج کرنے والے شاہ محمود قریشی کو بطور وزیرخارجہ قبول کرلیا گیا۔ زرداری صاحب کی خواہش کے مطابق دہری شہریت کے حامل رحمن ملک کو وزیرداخلہ مان لیا گیا۔ خان عبدالولی خان کے صاحبزادے اسفندیارولی خان کو قومی اسمبلی کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر نہ صرف قبول کرلیا گیا بلکہ وکی لیکس کے مطابق جنرل کیانی کی خواہش تھی کہ انہیں صدر پاکستان بنالیا جائے ۔ فاٹا ‘خیبرپختونخوا اور افغانستان کی سرحد پر فوجی کارروائی کی نگرانی کے لئے ایک کمیٹی گورنر کی زیرصدارت قائم کی گئی جس کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے علاوہ افراسیاب خٹک بھی ممبر ہیں ۔اس کمیٹی میں کورکمانڈر اور ایجنسیوں کے صوبائی سربراہ ہر ماہ ان کو بریفنگ دیتے اور ان سے مل کر آئندہ کا لائحہ عمل بناتے تھے ۔ اگر زرداری صاحب چاہتے تو میاں نوازشریف کے ساتھ مل کر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی کے پورے خدوخال کو تبدیل کرسکتے تھے لیکن ان معاملات کو ترجیح دینے کی بجائے وہ دیگر معاملات میں الجھ گئے۔ اب کیا فوج نے ان سے کہا تھا کہ وہ چیف جسٹس کی بحالی میں ٹال مٹول سے کام اور نوازشریف سے پنگا لیں؟۔ رضاربانی بھی سندھی ہیں ‘ خورشید شاہ بھی سندھی ہیں ‘ ان جیسے اور بھی درجنوں اہل لوگ سندھ میں موجود تھے لیکن زرداری صاحب نے اس حساس ترین صوبے کے لئے سید قائم علی شاہ جیسے ضعیف اور لاپرواہ شخص کو وزیراعلیٰ نامزدکیا۔ اب کیا وہ جنرل کیانی کی چوائس تھے ؟۔ جب زرداری صاحب اقتدار سنبھال رہے تھے تو بلوچستان جل رہا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نازک صورت حال کے پیش نظر پورے بلوچستان میں سنجیدہ اور اہل ترین شخص کو وزیراعلیٰ نامزد کیا جاتا لیکن زرداری صاحب نے یہ سعادت اسلم رئیسانی صاحب کو بخش دی ۔ فوج مجبورتھی یا مصلحت کی شکار لیکن بہرحال نہ صرف رئیسانی صاحب کو سلیوٹ کیا بلکہ سیاسی قیادت کے فیصلے کے مطابق بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر بھی روک دی گئی۔ لیکن سیاسی حکومت بلوچستان کے امن وامان کو ترجیح دینے کی بجائے بندربانٹ میں لگ گئی ۔ ایک ممبر کے علاوہ باقی سب ممبران اسمبلی حکومت میں چلے گئے ۔ کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے۔ بلوچستان میں لوگ مرتے اور وزیراعلیٰ اسلام آباد کی سڑکوں پر موٹرسائیکل دوڑاتے رہے ۔ آدھا بلوچستان دہشت گردی (ریاستی اور غیرریاستی دونوں)کا شکار اور باقی ماندہ سیلاب میں ڈوباہوا تھا لیکن وزیراعلیٰ نے اپنے لئے اربوں روپے کے نئے جہاز خریدنا ضروری سمجھا۔ سیلاب زدہ بلوچوں کو ان کی جھونپڑی تعمیر کرکے نہیں دی جارہی لیکن وزیراعلیٰ نے اپنے نام قبیلے کے نقصان کی زرتلافی کی آڑ میں سرکاری خزانے سے اربوں روپے کا چیک جاری کروادیا۔ ان کی قیادت پر ان کے سگے بھائی لشکری رئیسانی عدم اعتماد کرچکے ۔ ان کی پارٹی کے صوبائی صدر ان کو تباہی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور تو اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کے نااہل ہونے پر مہرتصدیق ثبت کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ ان کی حکومت اپنا جوا کھوچکی ہے لیکن جواب میں وہ لطیفے پر لطیفہ پھینک رہے ہیں اور سیاسی قیادت تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ تماشہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی کوئی جماعت بھی بلوچستان حکومت کی رخصتی کا مطالبہ نہیں کررہی کیونکہ اس حکومت میں جے یو آئی (ف) بھی حصہ دار ہے اور مسلم لیگ (ن) بھی ۔ بلوچ قوم پرست فوج پر تو تنقید کررہے ہیں لیکن توپوں کا رخ ایک لمحے کے لئے بھی اس حکومت کی طرف نہیں موڑرہے ۔ اب کیا یہ خود سیاسی قیادت بلوچستان میں فوجی مداخلت کے لئے راستہ ہموار نہیں کررہی ؟
سپریم کورٹ کہتی ہے کہ بلوچستان کی حکومت اپنا جواز کھوچکی ہے لیکن پھر بھی وہ قائم ہے ۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے ؟ اب جب قاعدے اور قانون کی بنیاد پر نہیں بلکہ طاقت کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے تو پھر طاقت تو بہر حال فوج کے پاس زیادہ ہے ۔ خاکم بدہن اگر جنرل اشفاق کیانی ‘ جنرل مشرف اور جنرل ظہیر الاسلام ‘ جنرل اسددرانی کے نقش قدم اور مکرر خاکم بدہن اگر جسٹس افتخار محمد چوہدری ‘ جسٹس ارشاد حسن کے نقش قدم پر چل نکلے تو پھر کیا ہوگا۔سیاست سے فوج کی مداخلت نعروں ‘ دھمکیوں سے ختم ہوسکتی ہے اور نہ عدالتی فیصلوں یا پھر ہمارے کالموں سے ۔ اس کے لئے پاکستانی سیاستدانوں کو طیب اردگان جیسا بننا ہوگا۔
تازہ ترین