• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید الفطر اہلِ ایمان کے اعزازواکرام اور انعام کا دن

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

’’عیدُالفطر‘‘ امّتِ مسلمہ کا پُرمسرّت دینی و مذہبی تہوار اور اسلام کی ملّی، تہذیبی اور روحانی اقدار کی روشن علامت ہے۔ یہ اہلِ ایمان کے لیے رمضان المبارک کی عبادت و ریاضت کا انعام اور اللہ جلّ شانہ کی طرف سے اعزاز و اکرام کا دن ہے۔ یہ اللہ کے نیک، عبادت گزار اور پرہیز گار بندوں کی مسرّت و شادمانی کا دن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’عیدُالفطر اور عیدالاضحیٰ‘‘ مسلم امّہ کے توحیدی مزاج اور اس کی دینی و ملّی اقدار کے پوری طرح آئینہ دار ہیں۔ تہذیب و شائستگی کا یہ جشنِ مسرّت اہلِ ایمان کے دینی و مذہبی تشخّص کا مظہر ہے۔ یہ مبارک و پُرمسرّت روزِ سعید تقویمِ عیسوی کے مطابق 27 مارچ 624ء/ مطابق یکم شوّال 2ھ سے منایا جارہا ہے۔

’’آج کے دن بندگانِ خدا رب کے حضور سربہ سجود ہو کر اپنے آقا ومالک کی رضا وخوش نودی کے طلب گار ہوتے ہیں‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ فخر دو عالم، حضرت محمد ﷺ نے ’’عیدالفطر کی عظمت و اہمیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:’’جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے‘‘۔ چناں چہ جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے، کیا بدلہ ہے اس مزدور کا، جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتو، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے ان بندوں کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے عوض اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔بندوں سے خطاب کرکے ارشاد ہوتا ہے، میری عزت کی قَسم اور میرے جلال کی قَسم، میں تمہیں مجرموں کے سامنے رسوا نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)

’عید‘‘ کا لفظ تین حروف پر مشتمل ہے۔ اس کے لفظی و اصطلاحی معنیٰ بھی تین ہیں۔

(1) ’’عید‘‘ کا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی واپس اور لوٹ کر آنے کے ہیں چوں کہ عید ہر سال واپس لوٹ کر آتی ہے، اس لیے اسے عید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

(2) ’’عید‘‘ کے دوسرے معنیٰ توجّہ کرنے کے ہیں، چوں کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عاجز و بے بس بندوں پر رمضان المبارک میں کی گئی ان کی عبادات اور نیک اعمال پر رحم و کرم فرماتا ہے، انہیں اعزاز و اکرام سے نوازتا ہے، اس لیے اللہ عزّوجل کی خاص عنایات، فضل و کرم اور خصوصی توجّہ کی وجہ سے اسے عید کہا جاتا ہے۔

(3) ’’عید‘‘ کے لفظی معنیٰ مسرّت و انبساط کے بھی ہیں،چوں کہ اس روزِ سعید اہلِ ایمان جشنِ مسرّت مناتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، لہٰذا محاورۃً اسے عید کہا جاتا ہے۔

تاریخی روایات کے مطابق کرّۂ ارض پرجشنِ مسرّت یا خوشی اور شادمانی سے بھرپور تہوار منانے کا آغاز اُس روز سے ہوا، جس دن حضرت آدمؑ کی توبہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی۔ گویا یہ دنیا کی پہلی عید تھی، جو اس خوشی میں منائی گئی۔ دوسری عید یا یومِ مسرّت اُس وقت منایا گیا جب حضرت نوحؑ اور ان کی امّت کو طوفانِ نوح سے نجات ملی۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ پر جب آتشِ نمرود گل زار بنی، اُس روز کی مناسبت سے ان کی امّت عید منایا کرتی تھی۔ حضرت یونسؑ کی امّت اُس روز عید مناتی تھی، جب حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ اور امتحان سے رہائی ملی۔ بنی اسرائیل اُس روز عید منایا کرتے تھے، جس روز انہیں فرعون اور اس کے مظالم سے نجات ملی ۔جب کہ عیسائی اُس روزعید مناتے ہیں، جس روز حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔اس کے بر خلاف اہلِ ایمان کا فلسفۂ عید اورا س کا تصوّر بالکل منفرد اور نرالی شان کا حامل ہے۔

’’بُلوغ الارب فی احوال العرب‘‘ کے مولّف محمود شُکری آلوسی کے مطابق:عہدِ جاہلیت میں مشرکینِ عرب میں متعدد عیدوں کا تصوّر موجود تھا۔ بعض ان کی مکانی عیدیں تھیں اور بعض زمانی، یہ موسمی تہوار کے طور پر منائی جاتی تھیں، چناں چہ وہ اپنے تین مشہور بُتوں ’’لات‘‘، ’’منات‘‘ اور ’’عُزّیٰ‘‘ کے ناموں پر عید مناتے، دور دراز کا سفر کرکے ان کے سامنے نذرانے پیش کرتے اور اس طرح عید مناتے تھے۔ ان تینوں بتوں میں سے ہر بت کسی نہ کسی شہر کے لیے مخصوص تھا۔ وہ شہر جو حرم اور میقاتِ حج کی جہت میں تھے۔ مکہ، مدینہ اور طائف، چناں چہ لات اہلِ طائف کا بت تھا۔ عُزّیٰ اہلِ مکہ کا اور منات اہلِ مدینہ کا بت تھا۔ ان تینوں بتوں کے پاس جمع ہونے اور تہوار منانے کے لیے عربوں نے سال میں مخصوص ایّام اور موسم مقرر کر رکھے تھے، جب کہ عربوں کی زمانی عیدیں کسی خاص تاریخی واقعے، جنگ میں فتح یابی، دشمن پر غلبہ پانے کے حوالے سے خوشی، تفریح اور میلوں وغیرہ کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ یہ عید ایک خاص قوم کی ہوتی تھی۔ دوسری کسی قوم کو اس میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔ چناں چہ ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی دن ایک قوم کے لیے خوشی اور اظہارِ مسرّت کا ہوتا اور دوسری کے لیے غم اور بدبختی کا۔اس حوالے سے عید کے دو دن ’’ یوم السّبع اور یوم السّبا ‘‘ خاص دن شمار ہوتے تھے۔

اہلِ مدینہ کے ’’عید‘‘ کے حوالے سے دو دن مخصوص تھے، جن میں وہ اظہارِ مسرّت کے طور پر جشن مناتے، کھیلا کودا کرتے تھے، جب نبی اکرم ﷺ مدینۂ طیّبہ تشریف لائے، تو آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کا نعم البدل عطا فرما دیا ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔ ‘‘

ایران کے مجوسی نیروز یا نوروز کے نام سے عید مناتے ہیں، یہ ان کا سب سے بڑا پُرمسرّت مذہبی تہوار ہے۔ ان کا عید کا دوسرا دن مہرجان ہے۔ مورخین کا خیال ہے کہ اہل ایران نے نوروز کا دن مہرجان کے دن سے دو ہزار پانچ سو سال قبل منانا شروع کیا تھا۔ ان دونوں تہواروں کے موقع پر انہیں مُشک، عنبر اورعُودِ ہندی تحفتاً دی جاتی تھی۔ نوروز کے دن وہ ایک دوسرے کو زعفران اور کافور دیا کرتے تھے۔

ہندو مت میں عید یا پُرمسرّت مذہبی تہواروں کے حوالے سے جو تصوّر ملتا ہے، اس کے مطابق ’’دیوالی‘‘ اور ’’ہولی‘‘ ان کے دو مقدّس مذہبی تہوار ہیں۔ ’’دیوالی‘‘ کے موقع پر دیے وغیرہ جلائے جاتے ہیں، چراغاں کیا جاتا ہے، یہ تہوار شری رام بھگوان کی یاد میں منایا جاتا ہے، جب کہ ’’ہولی‘‘خوشی اور اظہارِ مسرّت کا وہ تہوار ہے،جب اس مذہب کے پیروکار ایک دوسرے پر رنگ وغیرہ پھینکتے ہیں۔ یہ ’’ہولکا ماتا‘‘ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

جب کہ الہامی مذاہب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی عیدیں مقدّس مذہبی تہواروںکے طور پر منائی جاتی ہیں۔ ’’معجم البلدان‘‘ کے مؤلف یاقُوت حموی کے مطابق نصاریٰ کی چودہ عیدیں ہیں۔ سات کو وہ بڑی عیدیں کہتے ہیں اور سات کو چھوٹی۔ ان کی بڑی عیدیں یہ ہیں۔ ’’بشارت‘‘، ’’زیتونہ‘‘، یہی عیدالشّعانین (PAM SUNDAY) بھی ہے۔ اس کے معنیٰ تسبیح کے ہیں۔ وہ اسے روزوں کے ساتویں اتوار کو مناتے تھے۔ ’’فصح‘‘ یہ ان کی بڑی عید ہے‘‘ ’’خمیس الاربعین‘‘عید الخمیس یہی عیدالعنصرہ (Pentacost Whit Sunday) یہ تہوار ایسٹر سے پچاس دن بعد منایا جاتا ہے۔ ’’عیدالمیلاد‘‘ وہ دن جس دن حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ ’’غطاس‘‘ اس دن عیسائی اپنے بچوں کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں۔ ’’اربعون‘‘ یہ ہیکل میں داخل ہونے کا جشن ہے۔ ’’خمیس العید‘‘ (Holy Thursday) ’’سبت النّور‘‘ یہ ایسٹر سے ایک دن پہلے منایا جاتا ہے۔ ’’احدالجدید‘‘ یہ ایسٹر سے آٹھ دن بعد منایا جاتا ہے۔ ’’تجلّی‘‘ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت مسیحؑ نے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دن اپنے شاگردوں کو جلوہ دکھایا تھا۔ ’’عیدالصّلیب‘‘ یہ بھی ان کا مقدّس مذہبی تہوار اور عید کا دن ہے۔

یاقُوت حموی کے مطابق یہودیوں کی پانچ عیدیں ہیں۔ جن کا ذکر ’’تورات‘‘ میں آیا ہے، جو یہ ہیں:’’عید رأس السّنہ‘‘ (نئے سال کی عید) یہودیوں کے ہاں اس دن کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے ہاں عیدالاضحیٰ کی ہے۔ ’’عیدالمظال‘‘ یہ آٹھ دن رہتی ہے۔ ’’عیدالاسابیع‘‘ (Ten Command Ments) ان کے اعتقاد کے مطابق یہ وہ دن ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے طورِ سینا سے بنی اسرائیل سے خطاب کیا تھا۔ اس خطاب میں احکامِ عشرہ بھی شامل تھے۔ ’’عیدالفور‘‘ ان کی نئی ایجاد ہے۔ ’’عیدالحنکہ‘‘ یہ بھی نئی ایجاد ہے۔ یہ آٹھ دن تک رہتی ہے۔

اسلام میں عید کا فلسفہ اور پس منظر اس حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ جب مکّے سے ہجرت فرما کر مدینۂ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ (جن کی ایک بڑی تعداد دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکی تھی) جشن و مسرّت کے دو تہوار منایا کرتے تھے، رسول اکرمﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی کیا حقیقت (پس منظر) ہے؟ (یعنی تمہارے ان دو تہواروں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے؟) انہوں نے عرض کیا ہم جاہلیت میں (قبل از اسلام) یہ دو تہوار منایا کرتے تھے، (لہٰذا وہی رواج ہم میں ابھی تک باقی چلاآرہا ہے) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر فرمادیے ہیں، (لہٰذا اب وہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) یوم عیدالاضحیٰ اور یوم عید الفطر۔ (سنن ابو دائود)

محمود شُکری آلوسی لکھتے ہیں: کہا گیا ہے کہ مدینے والوں کے کھیل کود اور پُرمسرّت تہوار کے یہ دو دن نوروز اور مہرجان تھے۔ (بلوغ الارب فی احوال العرب 187/2)وہ مزید لکھتے ہیں: ان دونوں دنوں کو اس لیے بدل دیا گیا کہ اسلام میں عید منانے کا سبب دینی شعار کو بلند کرنا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے محسوس کیا کہ آپؐ نے اگر انہیں ان کی عادات اور سابقہ رسم و رواج پر چھوڑ دیا تو ایسا نہ ہو کہ جاہلیت کے شعائر کی تشہیر ہوتی رہے یا وہ اپنے اسلاف کی رسوم کو رواج دیتے رہیں، لہٰذا آپؐ نے بدل کر انہیں ایسے دن عطا فرمائے، جن میں ملّتِ حنیفیہ کے شعائر کو بلند کیا جائے۔ آپؐ نے عیدین کے تہوار کے موقع پر زینت و آرائش کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کا اضافہ بھی کردیا یعنی اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت۔ آپؐ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی بھی اجتماع اور مذہبی تہوار اعلائے کلمۃ اللہ سے خالی نہ ہو۔(ایضاً، ص 188)

علامہ سیّد سلیمان ندوی کے بقول: ’’اسلام دنیا میں توحید کا آوازہ بلند کرنے کے لیے آیا ہے، یہ خدائے واحد کا پرستار ہے۔ اسلام میں کسی تاریخی فتح یا قومی نجات کے دن کو بطور مذہبی تہوار منتخب نہیں کیا گیا۔ روزِ ہجرت بھی اس کی عید نہیں، بدر کا یوم الفرقان بھی اس کی عید نہیں۔ بلکہ فتحِ مکہ کا دن بھی اس کے لیے تہوار نہیں۔ اس نے اپنی ملّت کی عمومی خوشی اور اظہارِ مسرّت کے لیے وہ دن منتخب کیا، جو نزولِ وحی کے مہینے رمضان المبارک کے اختتام پر آتا ہے۔

دوسری جانب یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ اسلام نے ’’عیدین‘‘ کے پُرمسرّت دینی و ملّی تہواروں کے موقع پر اظہارِ مسرّت اور ان تہواروں کو منانے کی اجازت تو دی، تاہم ایک مخصوص ضابطے کے ساتھ اور وہ یہ ہے کہ جشنِ مسرّت میں مسلمان اپنے خالقِ حقیقی کو یاد رکھیں اور اپنے فرائضِ بندگی کی تکمیل سے غافل نہ ہوں۔

’’عیدین‘‘ کے دینی و ملّی تہوار، مسلم امّہ کی قومی و ثقافتی زندگی کے دو اہم اور سرُور آفریں مواقع ہیں۔ اس حوالے سے مسرّت و شادمانی کا اظہار فطری بھی ہے اور برمحل بھی۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اسلام جیسے مثالی اور انقلابی ضابطۂ حیات نے خوشی اور غم کے موقع پر کچھ حدود قائم کردی ہیں، عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا ایک مومنِ صادق کا طرزِ عمل اور شعار ہوتا ہے۔ اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کیا خوب کہتے ہیں:

ظفر، آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکاء

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

صحابیِ رسولؐ، حضرت انس بن مالکؓ کے ارشاد کے مطابق:پانچ چیزوں کو عید کی روشن اور حقیقی علامت قرار دیا گیا ہے۔

(1) اللہ کا خوف اورا س کی خشیّت، جو بندے کو گناہوں سے محفوظ رکھتے اور اسے اطمینانِ قلب عطا کرتے ہیں۔(2) گناہوں پر ندامت جو بندۂ مومن کو شیطان کے مکرو فریب سے بچاتی اور آخرت کا خوف دلاتی ہے۔(3) عاجزی، انکساری اور اعترافِ بندگی۔ جس کی بدولت بندۂ مومن پُل صراط سے بہ آسانی گزر جائے گا۔(4) اطاعتِ الٰہی۔ جو بندے کو جنّت کی بشارت دیتی ہے۔(5) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پابندی جو بندے کو رضائے الٰہی سے بہرہ یاب کرتی ہے۔ جس نے ان پانچ چیزوں کو پالیا، اس کی عید، حقیقی عید ہوگی۔

روایت کے مطابق رسول اکرمﷺ عید کے دن یہ دعا مانگا کرتے تھے:’’اے پروردگار، ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ ہمارا لوٹنا ذلّت و رسوائی کا نہ ہو۔ پروردگار، ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا، نہ اچانک پکڑنا، اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ پروردگار، ہم تجھ سے، حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ، ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی، نفس کا غنیٰ، بقا، ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار، ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق، ریا، بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔ اے دلوں کے پھیرنے والے رب، ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنا، اور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرما، بے شک تُو سب کچھ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘

مسلم امّہ آج جن بے پناہ مسائل اور چینلجز سے دوچار ہے اور جس طرح دورِ حاضر کی نمرودی اور فرعونی طاقتیں اور طاغوتی قوّتیں اسلام اور مسلم امّہ کے خلاف صف آرا ہیں،اس کا تقاضا ہے کہ ہم ’’بُنیانِ مرصوص‘‘ بن کر اخوّت ویگانگت اور اتحادِ امّت کا وہ نمونہ پیش کریں، جس کی تعلیم ہمارا دین دیتا ہے۔اسی میں ہماری عظمت،بقا،اسلام کی سربلندی،دین کی سرفرازی اور امّتِ مسلمہ کی عظمت کا راز مضمر ہے۔

تسلیم ورضا،ایثار وہم دردی،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری،اعترافِ بندگی،تقویٰ وپرہیزگاری اور رب کی شکر گزاری میں عید کا فلسفہ اور اس کا پیغام پوشیدہ ہے۔آج کے دن ہمیں عراق،فلسطین،کشمیر،افغانستان، چیچنیا اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو اپنی خوشیوں میں یاد رکھنا اور انہیں سلامِ عقیدت پیش کرنا چاہیے کہ جو دنیائے کفر کی ظالم وجابر قوّتوں اور اسلام دشمنوں سے جہاد میں مصروف اور دین کی عظمت وبقا کے لیے نبردآزما ہیں۔اسلام کے پیغامِ امن وسلامتی کو دنیا میں عام کرنا،انسانیت کو ہدایت کی راہ پر گام زن کرنا اور دکھی انسانیت کی فلاح کے لیے جدّوجہد کرنا ہمارے دین کی تعلیم اور اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔اتحادِ امّت، دینی اقدار کا تحفّظ،اسلامی تعلیمات پر عمل اور دین سے گہری وابستگی میں ہماری شان و شوکت کا راز پوشیدہ ہے،انہیں اپناکر اور ان پرعمل کرکے ہی درحقیقت ہم حقیقی شادمانی اور مسرّت حاصل کرسکتے ہیں ،اسی میں ہماری فلاح اور عید کا حقیقی پیغام پوشیدہ ہے۔

تازہ ترین