• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حقیقی ’’عید‘‘ اُسی کی ہے جس سے رب راضی ہوگیا!

مولانا مجیب الرحمن انقلابی

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے بعد ’’عید الفطر‘‘ کا مبارک دن بھی آ گیا ہے، حقیقی عید تو آج ان ہی خوش نصیب لوگوں کی ہے جنھوں نے رمضان المبارک کی رحمت و بخشش اور مغفرت کے مہینے میں دن کو روزے رکھے رات کو ’’تراویح‘‘ میں قرآن مجید پڑھنے اور سننے کی سعادت حاصل کی، سحری و افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ’’انوار و برکات‘‘ کو خوب سمیٹا، اور پھر کتنے خوش نصیب اور حقیقی مبارکباد اور عید کی ’’خوشیوں‘‘ کے مستحق ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے ساتھ ’’اعتکاف‘‘ بھی کیااور ’’شبِ قدر‘‘ جیسی بخشش و مغفرت کی عظیم رات کو پا کر اپنے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’جنت‘‘ کا مستحق بنا لیا…

کتنے لوگوں کی آنکھیں آج رمضان المبارک کی جدائی میں ’’پرنم‘‘ ہیں کہ وہ رمضان المبارک کا حق ادا نہ کر سکے اور اس مہینے میں بارش کی طرح برسنے والی رحمت و بخشش اور مغفرت کو اپنی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے سمیٹ نہ سکے… کتنے ہی ’’سینے‘‘ اس مقدس مہینے کی جدائی میں ’’پرغم‘‘ ہیں جو نہ پروانۂ مغفرت حاصل کر سکے اور نہ ہی انہیں ’’سچی توبہ‘‘ کی توفیق نصیب ہوئی… نہ جانے اب زندگی میں دوبارہ اس مقدس مہینے کو پانے کی بھی مہلت ملتی ہے کہ نہیں…

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں ’’امت محمدیہ‘‘ ﷺ کی مغفرت کر دی جاتی ہے… صحابہؓ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا یہ شب ’’شبِ قدر‘‘ ہے؟فرمایا کہ نہیں… بلکہ بات یہ ہے کہ عمل کرنے کا اجر اس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب بندہ کام پورا کر دیتا ہے اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے، لہٰذا بخشش کر دی جاتی ہے… اس رات کو آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزۃ‘‘ یعنی ’’انعام کی رات‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (رمضان المبارک کے بعد) جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں… وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے جنات اور انسانوں کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے امت محمدیہ ﷺ، اس کریم رب کی (بارگاہ) طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے… پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ! کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو… وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے… تو حق تعالیٰ جل شانہ‘ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان المبارک کے روزوں اور تراویح کے بدلہ اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی ہے… بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ! اے میرے بندو! مجھ سے مانگو! میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا… میری عزت کی قسم جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پرستاری کرتا رہوں گا… (ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں اور کافروںکے سامنے ذلیل و رسوا نہیں کروں گا … بس اب بخشے بخشائے (عید گاہ سے) اپنے گھروں کو لوٹ جائو! تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہو گیا…، پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید الفطر کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں…

عید کے دن سے پہلے ہی اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولادکی طرف سے ’’صدقہ فطر‘‘ ادا کرنا چاہیے اگر یہ ا دا نہیں کر سکے تو عید کے دن اسے ضرور ہی ادا کریں، اس کے دو فائدے ہیں ایک یہ کہ رمضان المبارک کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی کا ذریعہ ہے اور دوسرا یہ کہ غرباء و مساکین کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا سبب ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ’’صدقہ فطر‘‘ مقرر فرمایا روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کیلئے اور مساکین کو روزی دینے کیلئے (سنن ابو دائود)

حضرت خالد بن سعیدؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ عید الفطر، یوم النحراور یوم عرفہ میں غسل فرمایا کرتے تھے۔حضور ﷺ عید کے دن خوبصورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے، حضور ﷺ کی یہ بھی عادت مبارکہ تھی کہ عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور ان کی تعداد طاق ہوتی یعنی تین، پانچ، سات وغیرہ۔ (بخاری و طبرانی)

حضور ﷺ عید کی نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے۔ (بخاری و مسلم)حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو بکثرت تکبیر سے مزین کرو۔ حضور ﷺ عید گاہ پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ)

حضور ﷺ جب عید گاہ پہنچ جاتے تو فوراً نماز شروع فرماتے، نہ اذان اقامت نہ الصلوٰۃ جامعہ وغیرہ کی ندا، کچھ نہ ہوتا، حضور اقدس ﷺ جس راستہ سے عید گاہ تشریف لے جاتے تو واپس اس راستہ سے تشریف نہ لاتے،بلکہ دوسرے راستہ سے تشریف لاتے ۔(بخاری و ترمذی)

حضور ﷺ نماز عید، خطبہ سے پہلے پڑھتے اور جب نماز سے فارغ ہو جاتے۔تو لوگوں کے مقابل (سامنے) کھڑے ہو جاتے، لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ ﷺ ان کے سامنے وعظ فرماتے، وصیت کرتے اور ’’امرونہی‘‘ فرماتے، اگر لشکر بھیجنا چاہتے تو اسی وقت بھیجتے یا کسی بات کا حکم کرنا ہوتا تو حکم فرماتے…

عید گاہ میں’’منبر‘‘ نہ ہوتا ،بلکہ آپ ﷺ زمین پر کھڑے ہو کر تقریر فرماتے…اہلِ ایمان کے نزدیک عید صرف خوشی ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ’’تکبیر و تہلیل‘‘ اور عبادت کا خاص دن ہے، جس میں عبادت کی چھٹی نہیں بلکہ مزید ایک عبادت کا اضافہ کیا گیا ہے چنانچہ اس روز نمازِ عید کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

حقیقی عید اسی خوش قسمت کی ہے جس نے رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مانا، توبہ و استغفار اور رو دھو کر، آہ و زاری کر کے اپنے گزشتہ گناہوں کا ’’کھاتہ‘‘ صاف کر لیا، اب اس کا نامہ اعمال گناہوں کی سیاہی سے پاک ہو چکا ہے اور اب اس کے ’’قلب‘‘ پر گناہوں کا کوئی ’’داغ دھبہ‘‘ باقی نہیں رہا ……

تازہ ترین